اور میں پھر بالآخر سیویا پہنچ گیا اور یوں رومیوں کا ہسپالس‘ مسلمانوں کا اشبیلیہ اور ہسپانیوں کا سیویا میرے سامنے تھا۔مورخین1500ءسے 2000ءتک پانچ سو سال کی تاریخ کو دنیا کا جدید ترین دور کہتے ہیں اور سیویا اس دور کا نقطہ آغاز تھا‘ امریکا اس شہر سے دریافت ہوا ‘ سگریٹ‘ سگار اور بیڑی نے اس شہر میں جنم لیا‘ مکئی‘ آلو اور چاکلیٹ اس شہر سے جدید دنیا میں داخل ہوئے ‘ افریقہ کے سیاہ فام غلام پہلی مرتبہ اس شہر سے امریکا پہنچائے گئے ‘ کافی‘ گھوڑے اور گنا اس شہر سے لاطینی امریکا کا حصے بنے ‘
یہ وہ شہر تھا جس نے پوری دنیا میں آتشک اور سوزاک جیسی جنسی بیماریاں پھیلائیں اور یہ وہ شہر تھا جو اندلس میں مسلمانوں کے زوال کی پہلی اینٹ بنا غرض آپ جدید دنیا کو جس زاویئے‘ جس اینگل سے بھی دیکھیںگے سیویا آپ کو درمیان میں نظر آئے گا اور میں دس نومبر 2018ءکو اس عظیم سیویا پہنچ گیا‘ کرسٹوفر کولمبس‘ ابن بطوطہ اور ابن خلدون کے سیویا میں۔سیویا کا پہلا حوالہ یونان کی رزمیہ داستان ہیلن آف ٹرائے میں ملتا ہے‘ داستان کا مرکزی کردار ٹروجن ہسپالس (سیویا) میں پیدا ہوا تھا‘ دوسرا اہم حوالہ مورش مسلمان ہیں‘ طارق بن زیاد کے قدموں نے 711ءمیں سپین کی سرزمین کو چھوا‘ وہ بربر غلام زادہ سپین میں جس جگہ اترا وہاں طریفہ کے نام سے شہر آباد ہوا‘ یہ شہر آج بھی 13 سو سال سے قائم ہے اور یہ سپین اور مراکش کے درمیان اہم بندرگاہ ہے‘ مراکش کا شہر طنجہ (تانجیر) طریفہ سے صرف بیس منٹ کے آبی سفر کے فاصلے پر واقع ہے‘ طریفہ اور طنجہ کے درمیان ہر گھنٹے بعد فیری چلتی ہے‘ یہ فیری دو تہذیبوں کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ دو براعظموں کے درمیان رابطہ بھی ہے‘ بنو امیہ کے زمانے میں موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کے کمانڈر اور گورنر تھے‘ طارق بن زیاد ان کا غلام تھا‘ طارق بن زیاد نے 711ءمیں جبل الطارق (جبرالٹر) فتح کر لیا اور وہ سپین کے اہم ترین شہروں کے طرف بڑھنے لگا ‘ موسیٰ بن نصیر کا صاحبزادہ عبدالعزیز بھی طریفہ میں اترا اور وہ ہسپالس کی طرف بڑھنے لگا‘ عبدالعزیز بن موسیٰ نے 712ءمیں ہسپالس فتح کیا اور شہر کا نام تبدیل کر کے اشبیلیہ رکھ دیا‘
یہ شہر پھر 23 نومبر 1248ءعیسائیوں کے ہاتھوں ختم ہونے تک اشبیلیہ ہی رہا‘ اشبیلیہ کی فتح کے دو سو سال بعد 2 جنوری 1492ءکو مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گئی‘ آخری مسلمان فرمانروا ابو عبداللہ محمد اپنے 1130 لوگوں کے ساتھ مراکش پہنچا‘ فیض گیا اور یوں سپین میں اسلامی ریاست کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ کےلئے سرنگوں ہو گیا‘ سیویا کا تیسرا حوالہ کرسٹوفر کولمبس ہے‘ وہ سقوط غرناطہ کے وقت عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے ساتھ کھڑا تھا‘ کولمبس ہندوستان کا نیا راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا‘ وہ فنڈنگ کےلئے یورپ کے تین بادشاہوں کے پاس گیا مگر انکار ہو گیا‘
وہ آخر میں غرناطہ کے اسلامی سقوط پر نظریں جما کر کھڑا ہو گیا‘ جوں ہی الحمرا سے اسلامی پرچم اتارا گیا‘ وہ آگے بڑھا‘ ملکہ ازابیلا کا ہاتھ چوما‘ مبارک باد دی اور فنڈنگ کی درخواست کر دی‘ ملکہ اس وقت خوشی کی انتہا کو چھو رہی تھی‘ اس نے کھڑے کھڑے کولمبس کا منہ موتیوں سے بھر دیا یوں کولمبس تین اگست 1492ءکو سیویا سے روانہ ہوا اور ہندوستان کا نیا راستہ تلاش کرتے کرتے دنیا کو نئی دنیا سے متعارف کرا گیا اور اس کے بعد پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا‘ دنیا صرف دنیا نہ رہی حیران کن دنیا بن گئی۔
میں یکم نومبر کو روانہ ہوا‘ کینیڈا میری پہلی منزل تھی‘ میں ٹورنٹو اور کیلگری میں نو دن گزار کر دس نومبر کو سپین کے شہر مالگا اترا‘ یہ شہر مسلمانوں کے اندلسی دور میں مالقا کہلاتا تھا‘ عیسائی فوجوں نے 1487ءمیں مالقا کے امیر کو شکست دی اور پھر اس کے بعد پورا اندلس پکے ہوئے سیب کی طرح عیسائیوں کو گود میں آ گرا‘ میرے دوست اور بھائی سہیل مقصود مالگا ائیرپورٹ کے باہر میرا انتظار کر رہے تھے‘ سہیل مقصود ایک سادہ‘ مخلص اور گرم جوش انسان ہیں‘
غرناطہ میں کیش اینڈ کیری کے مالک ہیں اور انتہائی دلچسپ مگر غیرسیاسی دوست ہیں‘ ہم مالگا سے سیویا روانہ ہو گئے‘ ہائی وے کے دونوں طرف زیتون کے باغ تھے‘ اوپر جنوبی سپین کا نیلا آسمان تنا ہوا تھا اور نیچے ہم ڈرائیو کر رہے تھے‘ سیویا مالگا سے ساڑھے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ شہر کی پانچ سو سال کی جدید تاریخ تین حصوں میں تقسیم ہے‘ امریکا کی دریافت کا دور‘ یہ دور 1500ءسے ساڑھے 1800ءتک محیط ہے‘ سیویاان ساڑھے تین سو سال میں دنیا کا امیر ترین شہر اور سپین رئیس ترین ملک بن گیا‘ کارلو فائیو(چارلس فائیو)1516ءمیں سپین کا بادشاہ بنا‘
یہ دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا‘ یہ تھائی لینڈ‘ ایک چوتھائی ہندوستان‘ آدھے یورپ اور پورے امریکا کا مالک تھا چنانچہ سورج چل چل کر اور جل جل کر تھک جاتا تھا لیکن کارلو فائیو کی سلطنت ختم نہیں ہوتی تھی مگر پھر بحیرہ ہند‘ یورپ اور امریکا کے زیادہ تر ملک سپین کے ہاتھ سے نکل گئے‘ امریکا اور ہندوستان سے تجارت ختم ہو گئی‘ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا اور آہستہ آہستہ یورپ کا مرد بیمار بنتا چلا گیا یوں سپین کا پہلا سنہری دور اختتام پذیرہو گیا‘
سپین کا دوسرا دور 1929ءمیں شروع ہوا‘ بادشاہ الفانسونے سپین کی معیشت کو اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے امریکا اور لاطینی امریکا کے ملکوں سے رابطہ کیا‘ کولمبس کا واسطہ دیا‘ نئی دنیا راضی ہوئی اور 1929ءکو سیویا میں جدید دنیا کی سب سے بڑی نمائش شروع ہو گئی‘ لاطینی امریکا کے تمام ملکوں نے سیویا میں اپنے قونصل خانے بنائے‘ اپنے تجارتی جہازوں کا رخ سپین کی طرف موڑا اور یوں سپین ایک بار پھر ٹیک آف کرنے لگا اور تیسرا دور 1992ءمیں شروع ہوا‘
بارہ اکتوبر1992ءکو امریکا کی دریافت کے پانچ سو سال پورے ہوئے‘سپین کے وزیراعظم فلپ گونزا لیز مارکوئز نے امریکی اقوام کو ایک بار پھر راضی کیا‘ سیویا میں امریکی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی ایک اور بین الاقوامی نمائش ہوئی اور سیویا کی مہربانی سے سپین ایک بار پھر جدید دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا‘ سپین آج جو کچھ ہے اس کی وجہ 1929ءاور 1992 کی نمائشیں ہیں۔ہم نے سیویا کی مرکزی شاہراہ پر نیم جدید ہوٹل سلکن اندلوسیہ میں قیام کیا‘ یہ سڑک 1929ءکی نمائش کےلئے تعمیر کی گئی تھی ‘
لاطینی امریکا کے زیادہ تر قونصل خانے اس سڑک پر واقع ہیں‘ پرانا شہر ہوٹل سے چار کلو میٹر دور تھا‘ ہم رات کے وقت سیویا کی قدیم گلیوں میں اتر گئے‘سیویا میں چار مقامات اہم ہیں‘ مسلمان بادشاہوں کا محل القصر‘ کیتھڈرل‘ انڈین آرکائیو اور جدید محل‘ ہم نے دوسرے دن یہ تمام مقامات ادھیڑ کر دیکھے‘ القصر مسلمانوں کی آخری نشانی ہے‘ محل کی بیرونی اور اندرونی دیواریں آج بھی قائم ہیں‘ ان میں اسلامی دور کی خوشبو بھی موجود ہے‘ نیلی اور سفید ٹائلیں‘ وہی آبنوسی لکڑی کی چھتیں اور ان چھتوں پر اسلامی نقش‘ وہی وزنی منقش دروازے‘ وہی پتھر کے فرش‘ وہی قدیم لکڑی کے قدیم جھروکے‘ وہی کمروں کے اندر فوارے اور محل کے چاروں اطراف وہی سبز باغات‘ مسلمانوں کی پوری تہذیب آج بھی القصر میں زندہ ہے‘
مسلمان اپنا طرز تعمیر مراکش سے لائے تھے‘ سپین کے عیسائی آرکی ٹیکٹس نے ان میں اپنا خون جگر ملایا اور یوں دنیا میں اندلسی طرز تعمیر نے جنم لیا‘ آپ کو یہ طرز تعمیر قرطبہ میں بھی ملتا ہے‘ غرناطہ میں بھی اور سیویا میں بھی‘ اندلسی لوگ اونچی چھتیں بناتے تھے‘ دیواریں موٹی ہوتی تھیں اور ان پر مٹی میں چونا ملا کر ایک ایک انچ لیپ کیا جاتا تھا اور پھر اس لیپ پر سنگ مرمر کے ٹکڑے اور چھوٹی ٹائلیں لگائی جاتی تھیں‘ یہ ٹائلیں‘ سنگ مر مر اور آبنوسی لکڑی تینوں مل کر اندلسی فن بن جاتی تھیں‘
دلانوں‘ ڈیوڑھیوں اور کمروں کے درمیان سنگ مرمر کے فوارے لگائے جاتے تھے اور فواروں کا پانی سفید پتھروں کی نالیوں سے ہوتا ہوا صحن کے تالاب میں جا گرتا تھا‘ تالاب کے گرد سرو کے چھوٹے بڑے درخت‘ بوگن بیل اور انگوروں کی بیلیں ہوتی تھیں اور ان بیلوں میں رنگ برنگے پرندوں کے گھونسلے ہوتے تھے‘ یہ فن القصر میں اپنے تمام رنگوں کے ساتھ موجود تھا‘ بادشاہ کا حرم چھوٹا سا الحمرا محسوس ہوتا تھا‘ گائیڈ نے بتایا عیسائی بادشاہ نے غرناطہ کے بادشاہ سے الحمرا کے معمار ادھار لئے اور محل کا یہ حصہ تعمیر کیا‘
کولمبس کا دفتر بھی القصر میں تھا‘ امریکا کی تمام تجارتی مہمات اسی دفتر سے روانہ ہوتی تھیں‘ کولمبس کے جہاز کا شناختی نشان اور کولمبس کی امریکا روانگی کی پینٹنگ دفتر کی دیواروں پر لگی تھی‘ پینٹنگ میں کولمبس کا دوست امریکانو ویسپیوسیو صاف نظر آ رہا تھا‘ امریکانو نے سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی‘ امریکانو اطالوی تھا اور کولمبس کا دوست تھا‘ کولمبس موت تک امریکا کو انڈیا سمجھتا رہا‘ اس نے اسی لئے امریکا کے قدیم باشندوں کو ”ریڈ انڈین“ کا نام دیاتھا‘
امریکانو پہلا شخص تھا جس نے نقشے کی بنیاد پر ثابت کیا ”کولمبس نے انڈیا کا نیا راستہ نہیں بلکہ ایک نئی دنیا دریافت کی “ امریکانو کی تھیوری بعد ازاں سچ ثابت ہوئی چنانچہ نئے ملک کا نام امریکانو کے نام پر امریکا رکھ دیا گیا‘ بادشاہ فرڈیننڈ نے 1508ءسیویا میں ”نیوی گیشن“ کی دنیا کی پہلی یونیورسٹی بنائی اور امریکانو کو اس کا سربراہ بنا دیا‘ یونیورسٹی کی عمارت آج تک موجود ہے‘ مجھے وہاں جانے کا موقع بھی ملا‘ سپین کے تمام جہاز ران کولمبس کے اس دفتر سے اجازت لے کر امریکا جاتے تھے اور بادشاہ ان کے تجارتی سامان سے اپنا حصہ وصول کرتا تھا‘
کولمبس کے دفتر کے بعد محل کے دو ہال بہت اہم ہیں‘ پہلا کارلو فائیو کی شہزادی ازابیلا دوم کے ساتھ شادی کا ہال تھا‘ ازابیلا پرتگال کی شہزادی تھی‘ وہ ہال کے دائیں دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی جبکہ کارلو فائیو بائیں دروازے سے‘ دائیں دروازے پر آج بھی پرتگال کا جھنڈا اور شناختی نشان موجود ہے جبکہ بائیں دروازے پر سپین کا نشان اور جھنڈا تھا‘ یہ ہال خصوصی طور پر اس شادی کےلئے بنایا گیا تھا‘ دوسرا ہال تیونس کی فتح کی یادگار تھا‘ 1535ءمیں ترک بادشاہ سلطان سلیمان اول تیونس تک پہنچ گیا‘
وہ سیویا فتح کر کے یورپ داخل ہونا چاہتا تھا ‘کارلو فائیو نے یورپی فوج بنائی‘ بحری جہازوں پر تیونس پہنچا اور عثمانی خلیفہ کو شکست دی‘ اس شکست نے فیصلہ کر دیا عثمانی خلافت شمالی افریقہ سے آگے نہیں آئے گی‘ کارلو فائیو نے فتح کے بعد یہ وکٹری ہال بنوایا‘ ہال کی تین دیواروں پر طویل قالین لٹک رہے تھے‘ قالین بافوں نے قالینوں میں جنگ اور فتح کا سارا احوال نقش کر رکھا تھا‘ یہ کارپٹ پینٹنگز تھیں اور یہ پینٹنگزہر لحاظ سے ماسٹر پیس تھیں۔