یورپ کے اکثر قصبوں میں دلچسپ روایت چلی آ رہی ہے‘ قصبوں کی کافی شاپس اور ریستورانوں میں دیوار پر وائیٹ بورڈ نصب ہوتا ہے‘ ریستوران اور کافی شاپ کے گاہک اپنے لئے چائے‘ کافی اور کھانا منگواتے ہوئے ویٹر کو ایک چائے وائیٹ بورڈ کیلئے‘ ایک کافی وائیٹ بورڈ کیلئے یا فلاں کھانا وائیٹ بورڈ کیلئے بھی آرڈر کر دیتے ہیں‘ ویٹر ان کا آرڈر انہیں سرو کر دیتا ہے اور اضافی کھانے‘ چائے یا کافی کی ”سلپ“ وائیٹ بورڈ پر چپکا دیتا ہے‘لوگ کھانا کھاتے ہیں‘
چائے کافی پیتے ہیں اور آخر میں بل کے ساتھ اس کھانے‘ چائے اور کافی کی ادائیگی بھی کر دیتے ہیں‘ کھانے‘ کافی اور چائے کی یہ چٹیں قصبے کے ان لوگوں کیلئے ہوتی ہیں جو چائے‘ کافی یا کھانا ”افورڈ“ نہیں کر سکتے‘ یہ غریب لوگ بھی عام گاہک کی طرح ریستوران یا کافی شاپ میں آتے ہیں‘ وائیٹ بورڈ کے پاس رکتے ہیں‘ اپنی مرضی کی چٹ اتارتے ہیں‘ میز پر آ کر بیٹھتے ہیں‘ ویٹرکو وہ چٹ تھما دیتے ہیں اور ویٹر عام گاہکوں کی طرح انہیں بھی احترام کے ساتھ کھانا‘ چائے اور کافی سرو کر دیتے ہیں‘ یہ لوگ اگر وائیٹ بورڈ سے خود چٹ نہ اتارنا چاہیں تو یہ ویٹر کے کان میں سرگوشی کر دیتے ہیں ”مجھے وائیٹ بورڈ کی ایک کافی دے دو“ اور ویٹر وائیٹ بورڈ سے خود چٹ اتارکر انہیں کافی‘ چائے اور کھانا دے دیتے ہیں‘ یہ بھوکوں کو کھانا‘ چائے اور کافی پلانے کا مہذب ترین طریقہ ہے‘ ہم بھی ملک میں یہ طریقہ رائج کر سکتے ہیں۔پاکستان کی 60 فیصد آبادی غریب ہے‘ ان میں سے نصف انتہائی غربت کا شکار ہے‘ یہ لوگ کھانے پینے‘ دواء دارو اور کپڑوں جوتوں تک سے محروم ہیں‘ یہ لوگ صرف غریب نہیں ہیں یہ مسکین بھی ہیں‘ غربت اور مسکینی میں فرق ہوتا ہے‘ مسکین گزارہ نہیں کر سکتا جبکہ غریب رو دھو کر گزارہ کر لیتے ہیں‘ ہم بحیثیت معاشرہ ان مسکینوں کے ذمہ دار ہیں اور ہم میں سے ہر صاحب استطاعت شخص کسی نہ کسی حد تک ان مسکینوں اور غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے‘
پاکستان چیریٹی کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں مسکینوں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ سسٹم ہے‘ ہم لوگ چیریٹی کرتے ہیں لیکن یہ چیریٹی آرگنائزڈ نہیں ہوتی چنانچہ ملک سے غربت اور مسکینی ختم نہیں ہو رہی‘ ہمیں اس کیلئے دو سطح پر کام کرنا ہو گا‘ پہلی سطح فوری امداد ہے‘ ہمیں مسکینوں کیلئے کھانے پینے‘ سودا سلف‘ ادویات اور کپڑوں کا فوری بندوبست کرنا چاہیے‘ ہم اس سلسلے میں یورپ کے ماڈل کی مدد لے سکتے ہیں‘
ہم ملک کے تمام چھوٹے بڑے ریستورانوں‘ چائے خانوں‘ پرچون کی دکانوں‘ جوتوں کی شاپس‘ کپڑوں‘ درزی خانوں اور سبزی کے ٹھیلوں پر وائیٹ بورڈ لگوا دیں‘ ہم میں سے خریداری کیلئے جانے والے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق وہاں اضافی رقم جمع کروا دیں‘ دکاندار وائیٹ بورڈ پر اضافی رقم کی چٹ لگا دے‘ مسکین اور غریب لوگ آئیں اور دکاندار سے ایک دن کی ضرورت کا سامان لے جائیں‘ یہ دکانیں اور ٹھیلے محلوں میں ہوں گے‘ دکاندارضرورت مندوں کو ذاتی طور پر جانتے ہوں گے‘
اس سے فراڈ کے امکان کم ہو جائیں گے ہاں البتہ چائے اور کھانا کوئی بھی شخص کھا سکے گا‘ کھانے اور چائے کیلئے ریستوران کے ملازمین ایک خصوصی اہتمام کریں‘ یہ مسکینوں اور غریبوں کو واش روم لے کر جائیں‘ ان کے ہاتھ اور منہ دھلوائیں‘ کنگھی کروائیں اور اس کے بعد انہیں ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا کر کھانا کھلائیں‘ اس سے ان لوگوں کو ہاتھ‘ منہ دھونے‘ صاف ستھرا رہنے اور میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت بھی ہو جائے گی اور یہ بہت بڑا انقلاب ہو گا‘
مخیر حضرات ادویات کی دکانوں پر بھی اضافی پے منٹ کر سکتے ہیں‘ کیمسٹ حضرات ضرورت مندوں کو اس پے منٹ سے مفت ادویات دے سکتے ہیں تاہم یہ خصوصی اہتمام کریں‘ یہ ضرورت مند مریضوں کو صرف ایک یا دو دن کی دوا دیں‘ سیرپ‘ انجیکشن‘ کیپسول اور گولی کی پیکنگ پھاڑ دیں یا ڈھکن کی سیل توڑ دیں تا کہ مریض یا جعلی مریض یہ ادویات بازار میں فروخت نہ کر سکیں‘ اس سے مسکین مریضوں کو ادویات بھی مل جائیں گی اور مخیر حضرات کی امداد بھی صحیح جگہ پر لگ جائے گی‘
کپڑوں کے معاملے میں اہل خیر کپڑا خرید کر درزیوں کے حوالے کر دیں یا پھر بوتیکس کو امدادی رقم دے دیں‘ درزی مسکینوں کے ناپ کے مطابق کپڑے سی کر دیں اور بوتیکس کے مالکان ضرورت مندوں کو لیبل اتار کر کپڑے دیں‘ اس سے بھی فراڈ کم ہو جائے گا اور ضرورت مندوں کی باقاعدہ مدد بھی ہو جائے گی۔ہمیں دوسری سٹیج پر مسکینوں کو غریبوں کی فہرست اور غریبوں کو لوئر مڈل کلاس میں لانے کیلئے کام کرنا ہو گا‘ ملک کے تمام قصبوں اور شہروں کے مخیر حضرات اپنی اپنی سطح پر روزگار سکیمیں بنا سکتے ہیں‘
یہ فنڈ جمع کریں‘ سروے کریں‘ علاقے میں کتنے لوگ مسکین اور غریب ہیں‘ یہ سٹڈی کریں ان لوگوں کا خاندانی پیشہ کیا تھا کیونکہ غربت اور مسکینی کا پیشوں کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے‘ معاشرے میں جب بھی کوئی پیشہ دم توڑتا ہے تو یہ بیسیوں خاندانوں کو غریب کر جاتا ہے‘ مثلاً آج سے چوبیس سال پہلے پاکستان کے ہرشہر میں تانگے ہوتے تھے‘ یہ تانگے شہروں کے بیسیوں خاندانوں کا ذریعہ روزگار تھے‘ یہ ختم ہوئے تو یہ سینکڑوں ہزاروں خاندانوں کو غریب اور مسکین بنا گئے‘
ملک میں اسی طرح موچیوں‘ نائیوں اور ترکھانوں کا فن زوال پذیر ہوا‘ قصبوں میں ڈھول اور باجوں والے ہوتے تھے‘ سٹریٹ تھیٹرز‘ مداری اور سٹریٹ سرکس سے بھی ہزاروں لوگ وابستہ ہوتے تھے‘ گلیوں اور محلوں میں چائے خانے ہوتے تھے‘ یہ چائے خانے بھی ختم ہو گئے‘ شہروں سے کھوتی ریڑھی بھی ختم ہو گئی اور چنے اور بھٹے والے بھی بے روزگار ہو گئے‘ سوئیاں بنانے‘ اچار چٹنی اور مربے والے بھی بے روزگار ہوگئے اور تنور والے بھی غربت میں چلے گئے‘
یہ تمام فن شہر بھر کا روزگار ہوتے تھے‘ قصبوں اور شہروں کے مخیر حضرات یہ فن دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں‘ ہم سب کے گھروں میں روٹی پکتی ہے‘ ہم اگر ایک روٹی پر خرچ ہونے والی توانائی‘ وقت اور سرمائے کا تخمینہ لگائیں تو یہ بازار سے ملنے والی روٹی سے دوگنی اور تین گنا مہنگی نکلے گی‘ ہمارے مخیر حضرات اگر ہر محلے میں تنور لگوائیں‘ یہ تنور مسکین فیملیوں کو دے دیں اور یہ فیصلہ کر لیں تمام لوگ ان تنوروں سے روٹی خریدیں گے تو چند ماہ میں قصبے کے سینکڑوں لوگ مسکینی سے نکل آئیں گے‘
ہم ان تنوروں پر چولہے رکھوا کر چپاتی بھی بنوا سکتے ہیں‘ پراٹھے بھی‘ نان بھی اور مولی اور ساگ والی روٹیاں بھی۔ مخیر حضرات شہر میں موچیوں کی گلی آباد کرا سکتے ہیں یا چھوٹا سا موچی بازار بنوا سکتے ہیں اور یہ فیصلہ کر لیں قصبے کا ہر خاندان ہر مہینے ان سے ایک جوتا خریدے گا‘ بڑے شہروں اور بیرون ملک سے آنے والے لوگ جوتوں کے نئے ڈیزائن لے آئیں اور موچیوں کو یہ ڈیزائن کاپی کیلئے دے دیں‘ قصبے کے لوگ فیصلہ کر لیں قصبے کی ہر شادی اور ہر تقریب میں صرف اور صرف مقامی ڈھولچی ہی ڈھول بجائیں گے‘
قصبے یا شہر میں ہر ہفتے کی شام سٹریٹ تھیٹرز کا بندوبست کیا جائے‘ یہ تھیٹر سرکس‘ مداری تماشا‘ گانے بجانے اور جمناسٹک کے کھیلوں پر مشتمل ہو‘ اس سے قصبے اور شہر بھر کو تفریح بھی ملے گی اور ان پیشوں سے وابستہ لوگوں کے چولہے بھی جلنے لگیں گے‘ پاکستان میں صدیوں سے چائے خانوں کی روایت چلی آ رہی تھی‘ ملک کے تمام شہروں اور قصبوں میں درجنوں چائے خانے ہوتے تھے‘ لوگ شام کے وقت ان چائے خانوں میں بیٹھ جاتے تھے‘ گپ لگاتے تھے‘
ریڈیو سنتے تھے اور تاش اور شطرنج کھیلتے تھے‘ یہ چائے خانے تفریحی اور سوشل گیدرنگ کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہوتے تھے اور شہر کے غریبوں کی آمدنی کا بھی‘ یہ چائے خانے اب ختم ہو گئے ہیں‘ شہر کے مخیر حضرات کو ہر گلی‘ ہر محلے میں ایسے چائے خانے بنوانے چاہئیں‘ میونسپل کمیٹیاں اور سیاستدان بھی یہ ”اینی شیٹو“ لے سکتے ہیں‘ مخیر حضرات قصبوں کے انتہائی غریب خاندانوں کے بچوں کیلئے ووکیشنل ٹریننگ کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں‘
یہ اس سلسلے میں سرکاری سکولوں کی مدد لے سکتے ہیں‘ ہمارے سرکاری سکول دو بجے کے بعد بند ہو جاتے ہیں‘ مخیر حضرات ان سکولوں میں شام چار بجے سے آٹھ بجے تک ووکیشنل کلاسز شروع کرا دیں‘ ان کلاسز میں مسکین اور غریب خاندانوں کے بچوں اور خواتین کو مختلف کام سکھائے جائیں‘ مخیر حضرات ”اخوت“ کی طرح چھوٹے قرضوں کی سکیمیں بھی شروع کر سکتے ہیں‘ یہ قرضے صرف علاقے کے لوگوں کو دیئے جائیں‘ ان کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرائے جائیں تاکہ یہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں‘ شہر کے مزدوروں‘ ترکھانوں‘ لوہاروں اور مستریوں کو دس‘ دس پندرہ پندرہ دنوں کی جدید ٹریننگ دلائی جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے شہر یا قصبے کی تمام تعمیرات انہیں لوگوں سے کرائی جائے گی
تاہم شہر بھر کیلئے ان کے ریٹس ضرور طے کر دیئے جائیں‘ شہر اور قصبے کے اندر بگھی یا جدید طرز کے تانگے چلائے جائیں‘ اس سے پلوشن بھی کنٹرول ہو گا‘ تیل اور گیس کی بچت بھی ہو گی اور روزگار کے نئے ذرائع بھی پیدا ہوں گے‘ اگر یورپ کے شہروں میں تانگے اور بگھیاں چل سکتی ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے اور شہر کے تمام مخیر حضرات اپنی دکانوں‘ گھروں اور ورکشاپس پر غریب اور مسکین خاندانوں کے بچوں کو نوکری دیں‘ یہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کریں‘ انہیں کوئی ہنر بھی سکھائیں اور ان کی تنخواہ کا بندوبست بھی کریں‘ اس سے بھی غربت کم ہو جائے گی۔