محمد معظم اورنگزیب عالمگیر کا تیسرا بیٹا تھا‘ وہ 1643ءمیں برہان پور میں پیدا ہوا‘ وہ اپنے دادا شاہ جہاں کے دور میں لاہور کا وزیر رہا اور اورنگ زیب کے زمانے میں دکن‘ آگرہ‘ کابل اور لاہور کا گورنر‘ وہ اپنے والد کے خلاف تھا‘ اس نے والدکو ہٹانے کےلئے بے شمار سازشیں کیں اور وہ ہر سازش کے آخر میں گرفتار ہوا اور جیل میں ڈالا گیا لیکن والد اس سے محبت کرتا تھا چنانچہ وہ اسے ہر بار معاف کر کے دوبارہ کسی نہ کسی عہدے پر بٹھا دیتا تھا‘ وہ چند ماہ سعادت مند رہتا تھا لیکن پھر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر دوبارہ سازشیں شروع کر دیتا تھا‘
وہ سات سال مرہٹوں کی قید میں بھی رہا‘ 1707ءمیں اورنگ زیب عالمگیر کا انتقال ہو گیا‘ وہ اس وقت کابل کا گورنر تھا‘ بادشاہ کے انتقال کے بعد شہزادہ معظم کے دو بھائی محمد کام بخش اور محمد اعظم شاہ بادشاہت کے دعوے دار ہوگئے‘ شہزادہ معظم فوج لے کر دارالحکومت پر حملہ آور ہوا‘ بھائیوں اور ان کے بیٹوں کو قتل کیا اور 19 جون 1707ءکو بہادر شاہ اول کے نام سے تخت پر بیٹھ گیا‘ وہ ہندوستان کا ساتواں مغل بادشاہ تھا‘ بہادر شاہ اول (شہزادہ محمد معظم) نے 27 فروری 1712ءتک چار سال 8ماہ حکومت کی‘ وہ لاہور میں تھا‘ معدے میں تکلیف ہوئی‘ بیمار ہوا اور انتقال کر گیا‘ لاش دہلی پہنچائی گئی اور موتی مسجد میں دفن کر دیا گیا‘ مورخین بہادر شاہ اول کو مغل سلطنت کی تباہی کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہیں‘ اس کے بعد سلطنت کا شیرازہ بکھرا اور پھر بکھرتا چلا گیا یہاں تک کہ1757 ءمیں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کو شکست دی اور پھر انگریز پورے ہندوستان کو ہڑپ کر گیا اور یوں وہ عظیم سلطنت ختم ہو گئی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ءمیں رکھی تھی اور جو اورنگ زیب عالمگیر تک پہنچ کر دنیا کی مضبوط‘ طویل اور خوش حال ترین ریاست بن گئی تھی‘ آپ ہندوستان کی خوش حالی کا اندازہ کیجئے شاہ جہاں نے 1632ءمیں تاج محل بنانے کا فیصلہ کیا تو اس نے محل کا گنبد بنانے کےلئے اٹلی سے معمار منگوائے تھے‘ تاج محل ہندوستان میں گنبدوالی پہلی عمارت تھی‘ اورنگ زیب کے دور میں ہندوستانی روپیہ برطانیہ کے 60پونڈز کے برابر ہوتا تھا‘
برطانیہ کے125بڑے تاجروں نے ہندوستان سے تجارت کرنے کےلئے مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی تھی لیکن پھر بہادر شاہ اول آیا اور مغل سلطنت تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگی‘ مغلوں کا انفراسٹرکچر‘ فوج اور خزانہ مضبوط تھا چنانچہ سلطنت نے گرتے گرتے بھی231 سال لگا دیئے ورنہ مغلیہ سلطنت کے سپوتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔بہادر شاہ اول میں ایسی کیا خرابی تھی جس کا خمیازہ مغلوں کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کو بھی بھگتنا پڑا؟ بہادر شاہ اول میں تین خرابیاں تھیں‘ وہ نالائق تھا‘
وہ ناتجربہ کار تھا اور وہ متکبر تھا اور تاریخ بتاتی ہے یہ تینوں چیزیں جب بھی اور جہاں بھی اکٹھی ہوتی ہیں تباہی وہاں کا راستہ دیکھ لیتی ہے‘ بہادر شاہ اول میں سلطنت چلانے کی قابلیت نہیں تھی‘ وہ اکثر اوقات اپنی رائے کو حالات اور حقائق سے زیادہ اہم سمجھتا تھا‘ وہ اگر کسی سے نفرت کرتا تھا تو پھر قیامت تک اپنی رائے نہیں بدلتا تھا اور وہ اگر کسی کو پسند کرتا تھا تو پھر مرنے تک اس کا ہاتھ نہیں چھوڑتا تھا‘ وہ ہمیشہ جی حضوریوں اور خوشامدیوں میں بھی گھرا رہتا تھا‘
شراب‘ شباب اور موسیقی کا رسیا تھا چنانچہ پست کردار لوگ دربار تک پہنچ جاتے تھے‘ وہ ہمیشہ اہم عہدوں پر نالائق لوگوں کا تقرر کرتا تھا‘ اس کی قوت فیصلہ بھی غیر متوازن تھی‘ وہ ایک فیصلہ کرتا تھا اور پھر فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے اپنا فیصلہ بدل دیتا تھا چنانچہ فیصلہ لکھنے والے فیصلہ لکھنے کے بعد احتیاطاً اس فیصلے سے الٹ بھی ایک فیصلہ لکھ لیتے تھے‘ وہ جلد باز بھی تھا اور وہ خوابوں کو حقیقت سمجھنے اور حقیقت بنانے کے خبط میں بھی مبتلا تھا‘
یہ اس کی پہلی خامی تھی‘ اس کی دوسری خامی ناتجربہ کاری تھی‘ اورنگ زیب بہادر شاہ اول کو بہت پسند کرتا تھا ‘وہ اگر اس پسندیدگی کا فائدہ اٹھا لیتا اور بادشاہ کے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے دربار میں کوئی اعلیٰ عہدہ لے لیتا تو وہ رموز سلطنت سیکھ لیتا اور یوں اس کےلئے حکومت آسان ہو جاتی لیکن اس نے اپنی ساری جوانی سازشوں میں ضائع کر دی لہٰذا وہ جب تخت پر بیٹھا تو وہ ٹھیک ٹھاک ناتجربہ کار تھا اور ناتجربہ کاری نے اس سے ایسے ایسے خوفناک فیصلے کرائے جنہوں نے پوری مغلیہ سلطنت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور اس کی آخری خامی اس کا تکبر تھا‘ وہ ایک انتہائی متکبر انسان تھا‘ دوسروں کو نیچا دکھانا اس کی فطرت تھی‘ وہ مغلیہ تاریخ کا واحد بادشاہ تھا جس نے خود کو سید ڈکلیئر کر دیا تھا اور وہ باقاعدہ سید کہلاتا بھی تھا‘
تکبر ایک ایسی خوفناک بیماری ہے جو انسان کو اندر اور باہر دونوں سائیڈ سے نقصان پہنچاتی ہے‘ یہ اسے دونوں طرف سے چاٹ جاتی ہے‘یہ بھی حقیقت ہے دنیا کا کوئی ذہین‘ تجربہ کار اور سمجھ دار انسان متکبر شخص کے قریب نہیں پھٹکتا‘ ہمیشہ غبی‘ مفاد پرست اور خوشامدی لوگ اس کا گھیراﺅ کر لیتے ہیں اوراس کے بعد اس کی تباہی میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی‘ بہادر شاہ اول کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ سمجھ دار لوگ دربار سے غائب ہو گئے اور خوشامدی اور مفاد پرستوں نے قبضہ جما لیا چنانچہ نتیجہ وہی نکلا جو عموماً ایسے حالات میں نکلتا ہے ‘ وہ بھی تباہ ہو گیا اور سلطنت بھی۔
عمران خان بہادر شاہ اول نہیں ہیں‘ یہ ملک فتح کر کے نہیں بلکہ باقاعدہ ووٹ لے کر وزیراعظم بنے ہیں‘ کروڑوں پاکستانی ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ ان کی حکومت کو کامیاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں‘ میں خود بھی سمجھتا ہوں عمران خان کی کامیابی ملک کی بقا کےلئے ضروری ہے‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے سندھ تک محدود ہو چکی ہے‘ شریف برادران نیب کے کیسوں‘ انتقامی کارروائیوں اور اپنے دوستوں کی بے وفائی سے اندر سے زخمی ہو چکے ہیں‘
یہ اب اگر اقتدار میں آئے تو یہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کریں گے‘ یہ بھی صرف پانچ سال پورے کریں گے اور ملک اب ”تیری باری میری باری“ کے اس کھیل کا متحمل نہیں ہو سکتا اور دوسری وجہ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد دوسری بار کسی لیڈر کےلئے باہر نکلے ہیں‘ عمران خان کی ناکامی عوام کا دل توڑ دے گی جس کے بعد اقتدار صرف میوزیکل چیئر بن کر رہ جائے گا اور عوام درمیان سے نکل جائیں گے‘ ایک پارٹی آئے گی‘ فالودے والوں اور انتقال شدگان کے نام پر اکاﺅنٹس کھولے گی‘
ملک لوٹے گی اور پانچ سال بعد برطانیہ اور دوبئی چلی جائے گی‘ اس کے بعد دوسری پارٹی آئے گی اور وہ بھی تتر بتر ہو جائے گی‘ عوام نہ پہلی پارٹی کو ووٹ دیں گے اور نہ دوسری پارٹی کو اور یہ ملک کےلئے اچھا نہیں ہوگا چنانچہ عمران خان کا کامیاب ہونا ضروری ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے عمران خان کی ٹیم میں بے شمار بہادر شاہ اول ہیں‘ یہ لوگ نالائق بھی ہیں‘ ناتجربہ کار بھی ہیں اور یہ انتہا درجے کے متکبر بھی ہیں‘ آپ پچھلے 65 دنوں میں وزراءکا رویہ دیکھ لیجئے‘
حکومت کا جو بھی کارندہ منہ کھولتا ہے وہ اپنی نالائقی سے پورے ملک میں بھونچال کھڑا کر دیتا ہے‘ لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں‘ عمران خان کو ان بہادر شاہوں پر توجہ دینا ہو گی‘ یہ انہیں جلد سے جلد تبدیل کر دیں یا پھر ان کے بولنے پر پابندی لگا دیں‘یہ وزراءناتجربہ کار بھی ہیں‘ وزیراعظم کو چاہیے یہ ان کے ساتھ تجربہ کار مشیر اور تجربہ کار بیورو کریٹس لگا دیں‘ یہ لوگ انہیں ٹرینڈ کر دیں گے اور وزراءکا تیسرا ایشو تکبر ہے‘ میڈیا نے پاکستان تحریک انصاف کی پرورش میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا‘
میڈیا کی سپورٹ نہ ہوتی تو شاید تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی پارٹی بن کر نہ ابھرتی لیکن وزراءکے تکبر نے تیس دنوں میں پورے میڈیا کو حکومت کے خلاف کر دیا‘ آج آپ کو ملک کا کوئی چینل‘ کوئی پروگرام اور کوئی اینکر حکومت کی جائز سپورٹ کرتا بھی دکھائی نہیں دیتا‘ عمران خان کو چاہیے یہ وزراءکے تکبر کوبھی کنٹرول کریں‘ یہ اپنے میڈیا سیل کو ایکٹو کریں اور وزراءکو ہدایت کریں یہ میڈیا میں حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کریں کیونکہ تکبر کا یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو یہ حکومت بہت جلد پاکستان پیپلز پارٹی بن جائے گی اور یہ پی ٹی آئی اور ملک دونوں کےلئے بہتر نہیں ہوگا‘
آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان رابطے شروع ہو چکے ہیں‘ یہ دونوں حکومت گرانے کےلئے متفقہ لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں‘ آصف علی زرداری زیادہ معاملہ فہم ہیں‘ یہ نواز شریف کو تحریک عدم اعتماد کےلئے تیار کر لیں گے اور آخر میں حکومت کو ریلیف دے کر این آر او لے لیں گے‘ یہ اپنے کیس ختم کرا کر نکل جائیں گے‘ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے یا آصف علی زرداری این آر او لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو دونوں صورتوں میں حکومت اور ملک زخمی ہو جائیں گے چنانچہ میری میاں نواز شریف سے درخواست ہے آپ یہ نہ کریں‘ قوم نے عمران خان کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے‘
حکومت ان لوگوں کا حق ہے‘ آپ ان کا یہ حق نہ چھینیں‘ آپ سسٹم کو چلنے دیں‘ حکومت اگر ڈیلیور نہ کر سکی تو اقتدار خود بخود مریم نواز یا میاں شہباز شریف کو مل جائے گا‘آخر جلدی کس چیز کی ہے؟ آپ کی جلد بازی ملک کو نئے بحرانوں میں دھکیل دے گی‘ ملک حکمرانی کے قابل نہیں رہے گا چنانچہ یہ لوگ اگر بہادر شاہ اول بھی ہیں تو بھی آپ ان کی مدد کریں‘ یہ مدد ملک کی مدد ہو گی اور یہ مدد آخر میںآپ کے کام بھی آئے گی‘ آپ کو حکمرانی کےلئے ایک توانا اور مضبوط ملک ملے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کو بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح کوئے یار میں دو گز زمین نصیب نہیں ہو گی۔