وہ 1995ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے‘ وہ کانفرنسوں میں شرکت کےلئے یورپ اور امریکا جاتے رہتے تھے‘ وہ گورے طالب علموں سے ملتے تھے تو محسوس کرتے تھے پاکستانی طالب علم صلاحیت اور علم میں ان سے بہت آگے ہیں‘ ہماری یونیورسٹیاں اگر اپنے طالب علموں کو اعتماد دے دیں‘ ان کی زبان اور ابلاغ پر توجہ دیں اور یہ اگر ان کی بین الاقوامی سطح کی گرومنگ کر دیں تو پاکستانی نوجوان دنیا کو حیران کر سکتے ہیں چنانچہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے سکالرشپس کا کرائی ٹیریا منگوایا‘
فزکس ڈیپارٹمنٹ میں خصوصی کلاسز شروع کیں اور وہ طالب علموں کو یورپی سکالر شپس حاصل کرنے کی ٹریننگ دینے لگے‘ یہ کمیونی کیشن‘ پرسنیلٹی‘ نالج اور زبان کی ٹریننگ تھی‘ پروگرام 1999ءمیں شروع ہوا اور کامیاب ہو گیا‘ فزکس ڈیپارٹمنٹ کے 40 طالب علم اب تک اس پروگرام کے ذریعے بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی سکالرشپس حاصل کر چکے ہیں‘ یہ سٹوڈنٹس ملک اور بیرون ملک شاندار سائنس دان ثابت ہو رہے ہیں۔یہ پراجیکٹ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے شروع کیا تھا‘ یہ منصوبہ اتنا کامیاب ہوا‘ 2002ءمیں ملک میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنا اور اس نے ملک کو نئے پی ایچ ڈی دینا شروع کر دیئے‘ کنساس سٹیٹ یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے بین الاقوامی سکالر ڈاکٹر ٹم بولٹن پروفیسر مجاہد کامران سے اتنے متاثر ہیں یہ انہیں ”گولڈ مائین آف گریجویٹ سٹوڈنٹس“ قرار دیتے ہیں‘ کنساس سٹیٹ یونیورسٹی کا فزکس ڈیپارٹمنٹ انہیں پروفیسر آف پروفیسرزبھی کہتا ہے لیکن ہم انہیں کیا سمجھتے ہیں آپ کو یہ جاننے کےلئے 11 اکتوبر 2018ءکا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دیکھنا ہوگا‘ نیب نے اس دن پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چودھری کو باقاعدہ ہتھکڑیاں لگا کر لاہور کی نیب کورٹ میں پیش کیا‘ ان کے ساتھ مزید پانچ پروفیسرزبھی شامل تھے‘یہ پانچوں پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کے دور میں پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار رہے تھے‘یہ بھی ہتھکڑیوں میں عدالت میں پیش کئے گئے‘
ڈاکٹر مجاہد کامران پر دس الزامات لگائے گئے‘ نیب کا کہنا تھا وائس چانسلر نے 2013ءسے 2016ءکے دوران ساڑھے پانچ سو لوگوں کو کنٹریکٹ پر ملازمتیں دیں‘ یہ اس کنٹرکیٹ کو ”ری نیو“ بھی کرتے رہے‘ یہ تمام بھرتیاں سیاسی اور غیر قانونی تھیں‘ یہ پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے من پسند ٹھیکے داروں کو ٹھیکے بھی دیتے رہے‘ انہوں نے اپنی دوسری بیگم شازیہ قریشی کو لاءکالج کا پرنسپل بھی بنایا اور یہ اپنے من پسند طالب علموں کو سکالر شپ بھی دیتے رہے‘
یونیورسٹی کے رجسٹرار بھی اس ”خوفناک دھندے“ میں ان کے شریک تھے وغیرہ وغیرہ‘ نیب لاہور نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور ڈی آئی جی پولیس (آپریشنز) شہزاد اکبر رانا نے انہیں گرفتار کیا‘ ہتھکڑی پہنائی اور انہیں اسی حالت میں نیب کورٹ لاہور پہنچا دیا‘ یہ مناظر ٹیلی ویژن کے ذریعے پورے ملک نے دیکھے‘ عوام کی طرف سے شدید ردعمل آیا‘ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیئرمین نیب نے نوٹس لیا‘ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد اور ڈی آئی جی شہزاد اکبر کو عدالت میں طلب کر لیا گیا‘
چیف جسٹس نے سلیم شہزاد کی گوشمالی کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ سلیم شہزاد نے بعدازاں عدالت اور پروفیسروں (شاید) سے تحریری معذرت کر لی‘ سپریم کورٹ نے یہ معذرت قبول کر لی اور یوں یہ مسئلہ ختم ہو گیا لیکن سوال یہ ہے کیا اس معافی کے بعد ریاست اور عوام کا اساتذہ کے ساتھ رویہ بھی بدل جائے گا‘ میرا خیال ہے نہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ایک علم اور معلم دشمن معاشرے میں رہ رہے ہیں‘ ہم عالم‘ لکھاری اور استاد کو اچھا معاوضہ دیتے ہیں اور نہ ہی عزت‘ ہماری نظر میں کتابیں لکھنے‘ پڑھنے اور پڑھانے والے تینوں قسم کے لوگ فالتو‘ بے معنی اور کمی کمین ہیں‘
آپ کسی دن ریکارڈ نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو بلوچستان کے وہ سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی جن کے گھر سے 65 کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے‘ نیب انہیں صاف کپڑے‘ گھر کا کھانا‘ شیو کا سامان بھی فراہم کرتا رہا‘ راﺅ انوار پر 444لوگوں کے قتل کا الزام ہے‘ نقیب اللہ محسودکا قتل تقریباً ثابت ہو چکا ہے لیکن یہ اس کے باوجود نہ صرف پولیس کے پروٹوکول میں عدالت آتے ہیں بلکہ یہ ٹہلتے ہوئے آتے ہیں اور ٹہلتے ہوئے چلے جاتے ہیں‘ یہ 21 مارچ 2018ءکو پہلی بار سپریم کورٹ پیش ہوئے تو یہ ججز گیٹ سے عدالت میں لائے گئے‘
انہیں عزت اور تہذیب کے ساتھ مخاطب بھی کیا گیا اور انہیں جہاز میں کراچی بھی پہنچایا گیا‘ ایان علی پرپانچ لاکھ ڈالر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنا‘ ایف آئی اے نے انہیں14 مارچ 2015ءکو اسلام آباد ائیرپورٹ پر ڈالرز کے ساتھ گرفتار کیا‘ یہ بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ عدالتوں میں پیش ہوتی رہیں‘ پولیس اہلکار ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنواتے تھے‘ ڈاکٹر عاصم پر 479ارب روپے کا الزام تھا‘ یہ ہمیشہ عزت کے ساتھ عدالت لے جائے گئے‘ شرجیل میمن پرپونے چھ ارب کا الزام تھا‘
یہ بھی نہ صرف عزت اور احترام کے ساتھ عدالتوں میں پیش کئے جاتے ہیں بلکہ انہیں ہسپتالوں میں صدارتی سویٹ کی سہولت بھی حاصل ہو تی ہے‘ ہسپتالوں میں انہیں شہد اور زیتون کی فراہمی بھی جاری رہتی ہے اور اگر چیف جسٹس ان کے کمرے پر چھاپہ مار لیں تو زیتون واقعی زیتون اور شہد واقعی شہد نکلتا ہے‘ شرجیل میمن کا کیس بہت دلچسپ تھا‘ یہ بواسیر کے مرض میں مبتلا ہیں‘ ڈاکٹروں نے انہیں سختی سے ”زیتون اور شہد“ سے پرہیز کا حکم دے رکھا تھا چنانچہ چیف جسٹس کے حکم پر جب ان کا طبی معائنہ کیا گیا تو ان کا خون واقعی کلیئر نکلا‘ کیوں؟کیونکہ انہوں نے دس دن سے ”شہد“ استعمال کیا تھا اور نہ ہی زیتون‘
ہسپتال سے برآمد ہونے والی دونوں بوتلیں بھی ان کی نہیں تھیں‘ یہ دونوں نعمتیں چھاپے سے پچھلی رات سندھ کے ایک وزیر اور ایک سیاستدان لے کر آئے تھے‘ اس رات ہسپتال کے کمرے میں کچھ اور بھی ہوا تھااور وہ اور کیا تھا‘ آپ پچھلی رات آنے والے مہمانوں کے بارے میں تحقیقات کرا لیں آپ کے سارے طبق روشن ہو جائیں گے لیکن ریاست یہ حقائق جاننے کے باوجود خاموش ہے‘ ہمارے ملک میں این آئی سی ایل کاپانچ ارب روپے کا سکینڈل آیا‘ اوگرا کا 82ارب روپے کا سکینڈل آیا‘وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کا25 کروڑ روپے کا حج سکینڈل اور 7 سے 21ارب روپے کا ایفی ڈرین سکینڈل آیا‘ 1996ءسے اصغر خان کیس بھی چل رہا ہے‘
شیخ رشیدپر بھی زمین چھپانے کا الزام لگا‘ جہانگیر ترین پر ”ان سائیڈر ٹریڈنگ“سکیم میں73 ملین روپے جرمانہ ہوا‘ 124ملزموں پر ماڈل ٹاﺅن میں 14 لوگوں کے قتل کا مقدمہ بنا اور پانامہ سکینڈل میں ساڑھے پانچ سو لوگوں کے نام آئے لیکن ریاست نے ان میں سے کسی کو ہتھکڑی لگائی اور نہ ہی انہیں اس طرح عدالتوں میں رسوا کیا‘ اگر رسوا کیا گیا‘ اگر ہتھکڑی لگائی گئی تو29 اکتوبر 2015ءکو بہاﺅالدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو لگائی گئی یا پھر 11 اکتوبر کو دو سابق وائس چانسلرز اور پانچ بزرگ پروفیسروں کو لگائی گئی۔
یہ واقعات کیا ثابت کرتے ہیں‘ یہ ہماری علم اور معلم دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں ہماری ویلیوز میں پروفیسروں‘ اساتذہ اور عالموں کی کوئی گنجائش نہیں‘ ہم انہیں کمیوں کے برابر بھی نہیںسمجھتے ‘ آپ مشتاق رئیسانی سے لے کر جہانگیر ترین تک تمام لوگوں کی کوالی فکیشن نکال کر دیکھ لیجئے‘ ایان علی صرف میٹرک اور راﺅ انوارسمپل گریجویٹ ہیں‘ شرجیل میمن نے بھی پوری زندگی سکینڈ کلاس سے زیادہ نمبر نہیں لئے اور یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادوں نے بھی ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر تعلیم مکمل کی لیکن یہ تمام لوگ اربوں روپے کے ٹیکے لگانے کے باوجود معزز ہیں‘
یہ نوٹوں کے بریف کیس اور بوریاں بھر کر لے جاتے رہے لیکن کسی نے انہیں انگلی تک نہ لگائی مگر پروفیسر مجاہد کامران کو یونیورسٹی میں لیکچررز اور ٹیکنیکل سٹاف کو کنٹریکٹ پر نوکریاں دینے کے جرم میں ہتھکڑیاں لگا دی گئیں‘ کیا یہ لوگ ملک سے فرار ہو رہے تھے یا یہ اپنی عظیم کرپشن کے ثبوت مٹا رہے تھے‘ یہ آخر کیا کر رہے تھے جس کی وجہ سے نیب نے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا‘ عوام کی طرف سے جب دباﺅ آیا تو ڈی جی نیب لاہور نے اپنی آنکھیں گیلی کر کے جان چھڑا لی اور قصہ ختم ہو گیا‘ کیا یہ ملک اس طرح چل سکے گا‘ کیا ہم پروفیسروں‘ اساتذہ اور وائس چانسلروں کو ذلیل کر کے ایک باوقار قوم بن سکیں گے؟
شاید ہم بن جائیں‘ شاید ہم تاریخ کا دھارا بدل دیں اور شاید ہم تاریخ میں ثابت کر دیں دنیا میں ایک ایسی قوم بھی تھی جو علم اورعالم کی توہین کے باوجود ترقی کرتی رہی‘ جس نے ثابت کر دیا تھا ریاستوں کےلئے مجاہد کامران جیسے پروفیسر ضروری نہیں ہوتے‘ ایان علی جیسی سائنس دان اہم ہوتی ہیں‘ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں‘ ہم اگر کامیاب ہو گئے تو ہم تاریخ کےلئے عظیم مثال بن جائیں گے اور اگر ناکام ہو گئے تو پھر میری چیف جسٹس‘ حکومت اور پارلیمنٹ تینوں سے درخواست ہے پاکستان میں یہ قانون بنا دیا جائے ملک میں آج کے بعد کسی استاد کو ڈنڈا لگے گا اور نہ ہی ہتھکڑی۔