سامری جادوگر کا نام بھی موسیٰ تھا‘ اسرائیلی کتابوں میں درج ہے سامری کی والدہ اس کی پیدائش کے بعد انتقال کر گئی‘ اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل ؑ نے اسے اٹھایا اور ایک غار میں اس کی پرورش کی‘ وہ خطرے سے نکل آیا تو اسے ایک نیک گھرانے کے حوالے کر دیا گیا‘ وہ بڑا ہوا تو منفی ذہنیت کا چالاک شخص نکلا‘ اللہ تعالیٰ نے اس دور میں دو موسیٰ پیدا کئے تھے‘پہلا موسیٰ فرعون کے محل میں پل کر جوان ہوا لیکن وہ فرعون کے سائے میں پرورش پانے کے باوجود اللہ کے نیک ترین بندے ثابت ہوئے‘
دوسرے موسیٰ نے حضرت جبرائیل امین کے سائے میں آنکھ کھولی‘فرشتوں کے سردار کی نگرانی میں بچپن گزارا لیکن وہ جوان ہونے کے بعد نہ صرف خود گمراہ ہوا بلکہ اس نے بنی اسرائیل کو بھی بھٹکا دیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں موساؤں کے ذریعے یہ پیغام دیا انسان کی فطرت تبدیل نہیں ہوتی خواہ موسیٰ بن عمران فرعون کی گود میں پرورش پائے یا پھر موسیٰ سامری حضرت جبرائیل کے سائے میں آنکھ کھولے‘ بائبل اور قرآن مجید کے مطابق حضرت موسیٰ ؑ نے توریت لینے کیلئے 40 دن کوہ طور پر قیام فرمایا‘ سامری جادوگر نے بنی اسرائیل کے زیورات جمع کئے‘ انہیں پگھلا کر سونے کا بچھڑا بنایا‘ اس کے منہ میں حضرت جبرائیل ؑ کے گھوڑے کے پاؤں کی مٹی رکھی‘ پڑھ کر پھونکا اور بچھڑے سے آواز آنا شروع ہوگئی‘ سامری نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا پر لگا دیا‘ حضرت ہارون ؑ نے قوم کو روکنے کی کوشش کی لیکن لوگ باز نہ آئے‘ حضرت موسیٰ ؑ تورات لے کر طور سے واپس آئے تو وہ قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھ کر دل گرفتہ ہو گئے‘ وہ حضرت ہارون ؑ سے سخت ناراض ہوئے‘ بعض روایات کے مطابق حضرت موسیٰ ؑنے ان کو گردن یا داڑھی مبارک سے بھی پکڑ لیا تھا‘ حضرت ہارون ؑ نے عرض کیا‘ میں نے قوم کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ لوگ میری جان کے درپے ہو گئے تھے‘ بہرحال قصہ مختصر حضرت موسیٰ ؑنے بچھڑے کو آگ لگا دی اور سامری جادوگر کو نکال دیا‘ یہ روایت بھی موجود ہے حضرت موسیٰ ؑنے سامری جادوگر کو قتل کر دیا تھا‘
ہم اگر پہلی روایت کو سچ مان لیں تو پھر تاریخ کے مطابق سامری جادوگر صحرائے سینا سے صلالہ آگیا تھا‘ وہ صلالہ کیوں آیا؟ اس کے تین امکانات ہو سکتے ہیں‘ صلالہ میں حضرت عمران ؑ کی قبر موجود ہے‘ مورخین کا خیال ہے یہ حضرت عمران ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے والد تھے اور سامری جادوگر کا خیال تھا حضرت موسیٰ ؑکبھی نہ کبھی اپنے والد کی قبر پر آئیں گے اور وہ یہاں ان سے بدلہ لے لے گا‘ میں نے لوگوں سے یہ بھی سنا یہ حضرت عمران ؑ حضرت مریم ؑ کے والد تھے اور یہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر فلسطین سے حضر موت (صلالہ) تشریف لے آئے تھے‘ یہ کون ہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے
تاہم میں نے اتوار کی صبح ان کے مزار پر حاضری دی اور دعا بھی کی‘ دوسرا امکان‘ یہ علاقہ لوبان کی وادی کہلاتا تھا‘ یہاں آج بھی لوبان کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور لوبان جادو میں استعمال ہوتا ہے‘ لوبان کا درخت جھاڑی نما ہوتا ہے‘ یہ گرم‘ ریتلی اور کم پانی والی زمین میں پیدا ہوتا ہے‘ اس کے تنے اور شاخوں سے گوند جیسا مواد نکلتا ہے‘ یہ مواد جلایا جاتا ہے اور اس کے دھوئیں سے خوشبو پیدا ہوتی ہے‘ مجھے اس سفر میں لوبان کے فارم پر جانے اور لوبان دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا
اور تیسرا امکان‘ صلالہ یمن کا حصہ تھا اور یمن کا یہ حصہ جادوگری کا گڑھ تھا چنانچہ سامری جادوگر یہاں آ گیا‘ صلالہ میں اس نے اپنا قلعہ اور جادو کی یونیورسٹی بنائی اور لوگوں کو جادو سکھانے لگا‘ وہ خواتین کے پاؤں کے نشان دیکھ کر ان پر جادو کر دیتا تھا اور وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھتی تھیں‘ خواتین نے سامری کے جادو سے بچنے کیلئے لمبے برقعے پہننا شروع کر دیئے‘ برقعے کا پلو زمین پر گھسٹتا رہتا تھا اور وہ زمین سے ان کے پاؤں کے نشان مٹاتا رہتا تھا‘ صلالہ کی خواتین آج تک زمین پر گھسٹنے والے لمبے برقعے پہنتی ہیں‘
صلالہ میں آج تک جادوگر بھی موجود ہیں‘ سامری صلالہ میں فوت ہوا تھا چنانچہ دنیا بھر کے جادوگر اپنے ”گرو“ کو سلیوٹ کرنے کیلئے صلالہ آتے ہیں‘ ہمیں سامری کی قبر پر جانے کا اتفاق بھی ہوا‘ قبر پر اداسی اور ویرانی تھی تاہم میں اس کے قلعے پر نہ جا سکا۔عمان میں پاکستان کی ایک نشانی بھی موجود ہے‘ عمان میں عیسائیوں کے دو چرچ ہیں‘ یہ دونوں چرچ پاکستانی کرسچین کمیونٹی نے قائم کئے‘ پروٹسٹنٹ چرچ بشپ آف لاہور تھامس والپے فرنچ نے 1891ء میں قائم کیا تھا‘ وہ زندگی کے آخری حصے میں تبلیغ کیلئے عمان آئے‘
چرچ قائم کیا اور مسقط کے مضافات میں انتقال کر گئے اور وہ مسقط میں مدفون ہوئے‘ عمان میں تین ہزار پاکستانی عیسائی اور ڈیڑھ ہزار پاکستانی ہندو ہیں‘ پاکستانی عیسائیوں نے آج سے 25 سال قبل صلالہ شہر میں ”چرچ آف پاکستان“بھی تعمیر کیا‘ یہ اپنی نوعیت کا منفرد چرچ ہے‘ عمان میں تین لاکھ پاکستانی مقیم ہیں‘ یہ عرب دنیا میں پاکستانیوں کی تیسری بڑی آباد کاری ہے لیکن آپ المیہ ملاحظہ کیجئے عمان کیلئے پی آئی اے‘ ائیر بلیو اور شاہین ائیر لائین نے فلائٹیں بند کر دی ہیں‘
پی آئی اے صرف مسقط تک محدود ہے جبکہ صلالہ سے کوئی فلائیٹ نہیں جس کی وجہ سے پاکستانی شدید مشکلات کا شکار ہیں‘ عمان کے ساتھ بڑا رابطہ عمان ائیر لائین ہے‘ یہ اکیلی اتنا زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتی‘ میری پی آئی اے‘ ائیر بلیو اور شاہین ائیر لائین سے درخواست ہے آپ مہربانی فرمائیں اور اپنی فلائیٹس بحال کریں تاکہ لوگوں کی تکالیف کم ہو سکیں۔میں نے صلالہ میں بے شمار زیارتیں کیں لیکن حضرت اویس قرنیؓ کے مقام پر پہنچ کر میرے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئیں‘ حضرت اویسؓ قرن کے رہنے والے تھے‘
یہ بستی صلالہ شہر اور جبل سے حضرت ایوبؑ کے مزار کے درمیان پڑتی تھی‘ یہ پہاڑوں کی اترائی پر چھوٹا سا گاؤں تھا‘ گاؤں کے آثار اب ختم ہو چکے ہیں‘ آپؓ اس گاؤں میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ والدہ کے علاوہ خاندان میں کوئی نہیں تھا‘ وہ بھی علیل اور بوڑھی تھیں‘ والد کا انتقال ہو چکا تھا‘ آپؓ نبی اکرمؐ کے دور رسالت سے تعلق رکھتے تھے‘ رواں رواں مسلمان اور عاشق رسولؐ تھا‘ آپ رسول اللہ ﷺکے قدموں میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن والدہ کی علالت اور بڑھاپا آڑے آ رہا تھا چنانچہ آپؓ عاشق ہونے کے باوجود زیارت رسولؐ سے بہرہ مند نہ ہو سکے‘
اونٹ کے بالوں کے سخت کپڑے پہنتے تھے‘ جوکی سخت روٹی کھاتے تھے اور شدید گرمی میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے‘ آپؓ کوڑھ کے مرض میں بھی مبتلا رہے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے شفاء عنایت فرمائی لیکن آپؓ کے بدن پر درہم کے برابر کوڑھ کا نشان رہ گیا تھا‘یہ نشان آپ کی نشانی تھا‘ نبی اکرمؐ نے وصال سے قبل پوری دنیا میں حضرت اویس قرنیؓ کو اپنے خرقہ مبارک کیلئے چنا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو خرقہ مبارک پہنچانے اور امت کی بخشش کیلئے دعا کرانے کی ذمہ داری سونپی‘
یہ دونوں خلفاء وصال رسولؐ کے بعد قرن تشریف لائے‘ حضرت اویس قرنیؓ کو تلاش کیا‘ خرقہ مبارک پیش کیا اور نبی اکرمؐ کی طرف سے امت کیلئے بخشش کی دعا کی درخواست کی‘ یہ شاید کائنات کا سب سے بڑا اعزاز تھا‘ آپؓ نے نبی اکرمؐ کے خرقہ مبارک کو بوسا دیا اور ٹیلے کے پاس سجدہ ریز ہو کر امت کیلئے دعا فرمانے لگے‘ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو ان کے سوز اور وارفتگی نے حیران کر دیا‘ حضرت اویس قرنیؓ والدہ کے انتقال کے بعد حجاز تشریف لے گئے‘ وہ 657ء (37 ہجری) کو جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کے ساتھ جنگ میں بھی شریک ہوئے تھے‘
صفین آج کے عراق اور شام کی سرحد پر واقع ہے‘ آپ نے اس جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا اور صفین سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر شام کے شہر رقہ میں مدفون ہوئے‘ آپؓ کے مزار پر ایک شاندار مسجد تعمیر ہوئی لیکن بدقسمتی سے داعش نے یہ مسجد اور یہ مزار 2013ء میں تباہ کر دیا تاہم قبر آج بھی موجود ہے‘ دنیا میں اویسیہ کے نام سے ایک روحانی سلسلہ بھی پایا جاتا ہے‘ اویسیہ سلسلے کے لوگ عشق کو مذہب کے دیگر شعائر پر فوقیت دیتے ہیں‘ صلالہ میں بھی حضرت اویس قرنیؓ کا مزار ہے لیکن یہ مزار حقیقی نہیں‘
قرن کے لوگوں نے آپ کے گھر (کٹیا) میں آپ کا فرضی مزار بنا دیا تھا‘ گھر ختم ہو گیا لیکن مزار آج تک موجود ہے‘ قرن گاؤں بھی ختم ہو چکا ہے‘ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر اب درختوں‘ جھاڑیوں اور چھوٹے پودوں کے سوا کچھ نہیں‘ مزار بلند ہے اور وادی نیچے‘ آپ کو دور دور تک سبزہ دکھائی دیتا ہے‘ میں حضرت اویسؓ کے مزار کی پائنتی میں کھڑا ہو گیا‘ میرے دائیں بائیں اور سامنے اور پیچھے سبزہ بچھا ہوا تھا‘ میں نے مزار کا چکر لگایا‘ فضا میں حضرت اویسؓ کے عشق کی خوشبو ابھی تک موجود تھی‘
میں نے منہ کھول کر لمبی سانس لی اور یہ سوچ کر میرا پورا وجود سرشار ہو گیا حضرت اویس قرنیؓ بھی اس فضا میں سانس لیتے تھے‘ یہ ہوائیں ان کے بدن کی خوشبو سونگھتی تھیں اور اس خوشبو کو مقدس راز کی طرح لے لے کر پھرتی تھیں‘ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے آنسو چھپانے کیلئے سر جھکایا تو مجھے اپنے گناہ گار پاؤں دکھائی دیئے‘ میں نے اپنے آپ کو ملامت کیا اور خود سے کہا‘ اوبدبخت انسان! او گستاخ آدمی! تمہیں کس نے اجازت دی تم اپنے گستاخ پاؤں عشق کی زمین پر رکھ دو‘ بس یہ سوچ آنے کی دیر تھی اور میرے اندر ہچکیوں کا سونامی آ گیا اور میں اپنا سینہ تھامنے پر مجبور ہو گیا۔