احقاف قوم عاد کا مسکن تھا‘ عربی میں ریت کے لمبے اور اونچے ٹیلوں کو حقف کہا جاتا ہے‘ احقاف حقف کی جمع ہے اور یوں اس کا مطلب ہوتا ہے ریت کے اونچے اور لمبے ٹیلوں کی زمین‘ یہ علاقہ یمن اور عمان کے درمیان بکھرا ہوا تھا‘ قوم عاد یہاں ساڑھے آٹھ ہزار سال قبل آباد تھی‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرسبز کھیتیاں بھی دے رکھی تھیں‘ جانور بھی‘ پانی بھی اور وافر خوراک بھی‘ نعمتوں کی اس فراوانی نے انہیں بھٹکا دیا‘ وہ اللہ کے باغی ہو گئے‘ ہدایت کےلئے حضرت ہود ؑکو بھجوایاگیا‘
وہ انہیں تبلیغ کرنے لگے لیکن عاد ان کا مذاق اڑانے لگے‘ وہ شرک سے پیچھے ہٹنے کےلئے راضی نہ ہوئے‘ شداد اس قوم کا بادشاہ تھا‘ یہ دو بھائی تھے‘ شدید اور شداد‘ شدید پہلے بادشاہ بنا‘ وہ فوت ہوا تو شداد نے اقتدار سنبھال لیا‘ وہ ایک وسیع سلطنت کا حکمران تھا‘ حکومت یمن سے عراق اور بعض روایات کے مطابق ایران تک پھیلی تھی‘ حضرت ہود ؑ نے اسے بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کا دل بھی بند تھا‘ دونوں کے درمیان مکالمہ ہوا‘ شداد نے حضرت ہود ؑ سے پوچھا‘ میں اگر ایمان لے آﺅں تو مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ حضرت ہود ؑ نے فرمایا تم پر جنت حلال ہو جائے گی‘ شداد نے پوچھا جنت کیا ہے؟ حضرت ہود ؑ نے اسے جنت کا نقشہ بتایا‘ شداد نے دعویٰ کردیا یہ کیا بڑی بات ہے‘ میں بھی ایسی جنت بنا سکتا ہوں‘ حضرت ہود ؑ نے اسے اس کفر اور اس شرک سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آیا‘ اس نے سلطنت کے تمام بڑے معمار اکٹھے کئے اور احقاف میں ارم کے مقام پر 20 کوس لمبی اور چوڑی جنت بنوانی شروع کر دی‘ جنت میں سونے اور چاندی کی اینٹیں بھی لگائی گئیں اور جواہرات بھی لٹکائے گئے‘ اس نے شہد‘ دودھ اور پانی کی نہریں بھی رواں کر دیں اور دنیا جہاں کے درخت‘ پودے اور پھول بھی لگوا دیئے‘ قوم عاد بلند ستونوں پر محلات بنانے کی ماہر تھی‘ شداد کی ارم (جنت) میں یہ فن عروج پر تھا‘ ریت کے ٹیلوں کے درمیان بلند ستون تھے اور ان ستونوں پر سونے اور چاندی کی عمارتیں کھڑی تھیں‘ شداد نے فیصلہ کیا تھا وہ جنت کی تکمیل کے بعد اس میں قدم رکھے گا‘
معماروں نے جب اسے جنت کی تکمیل کی اطلاع دے دی تو وہ تیار ہوا‘ اپنی فوج لی اور جنت کی انسپکشن کےلئے نکل کھڑا ہوا‘ وہ جنت کے دروازے پر پہنچا‘ گھوڑے سے نیچے اترنے لگا‘ ابھی اس کا ایک پاﺅں زمین اور دوسرا گھوڑے کی رکاب پر تھا کہ ملک الموت آ گیا‘ شداد نے اس سے صرف جنت میں قدم رکھنے کی مہلت مانگی لیکن فرشتے کا جواب تھا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے میں تمہیں تمہاری جنت میں قدم نہ رکھنے دوں‘ وہ بہت گڑگڑایا لیکن ملک الموت نے اس کی جان قبض کر لی‘
وہ زمین پر دوسرا قدم نہ رکھ سکا‘ شداد کی موت کے بعد حضرت جبرائیل امین نے چیخ ماری اور شداد کی پوری جنت زمین میں دھنس کر غائب ہو گئی‘ شداد کا انجام قوم عاد کےلئے کافی تھا لیکن جب انسان کی عقل پر غرور کا پردہ پڑتا ہے تو شداد ہو یا شدید اسے کسی کا انجام دکھائی نہیں دیتا‘ حضرت ہود ؑ قوم کو شداد کا انجام بتا بتا کر ڈراتے رہے لیکن عاد نہ مانے یہاں تک کہ وہ مایوس ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں ساتھیوں کے ساتھ علاقے سے نکلنے کا حکم دے دیا اور وہ قوم کو آخری بار سمجھا کر احقاف سے نکل گئے‘
اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد عاد پر خوفناک آندھیاں مسلط کر دیں‘ وہ آندھیاں سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہیں یہاں تک کہ پوری قوم اپنے بلند ستونوں اور سونے اور چاندی کی عمارتوں سمیت زمین میں دفن ہو گئی‘ قوم عاد کا نشان تک نہ رہا‘ پوری وادی ریت کے صحرا میں گم ہو گئی‘ پانی کے ذخیرے بچے اور نہ ہی درخت‘ پودے‘ جانور اور کھیتیاں‘ صرف ریت کے لمبے اور اونچے ٹیلے بچ گئے‘ قوم عاد کے بعد ثمود کا دور آیا‘یہ لوگ موجودہ سعودی عرب کے علاقے مدائن صالح میں آباد ہوئے‘ پہاڑ تراش کر گھر بنائے‘
اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی رزق‘ پانی اور سبزے سے نوازہ‘ وہ لوگ قدآور اور مضبوط بھی تھے‘ وہ کھڑے درخت اکھاڑ کر پھینک دیتے تھے‘یہ طاقت انہیں کفر کی طرف لے گئی‘ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کےلئے حضرت صالح ؑ بھجوائے‘ وہ انہیں سمجھاتے رہے لیکن وہ بھی باز نہ آئے‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت کے راستے پر لانے کےلئے اونٹنی اور اس کا بچہ بھی بھجوایا لیکن وہ ہدایت پانے کی بجائے اونٹنی کے دشمن ہو گئے‘ انہوں نے ایک دن اونٹنی پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا‘
اونٹنی کا بچہ ڈر کر پہاڑ کی طرف دوڑا‘ پہاڑ شق ہوا اور وہ اس میں گم ہو گیا‘ یہ واقعہ قوم ثمود کی تباہی کا باعث بنا‘ حضرت جبرائیل نے چیخ ماری اور مدائن صالح سے لے کر حضر موت تک پانچ سو کلو میٹر کے پہاڑ چھوٹی چھوٹی کاشوں میں تقسیم ہو گئے یوں قوم ثمود بھی برباد ہو گئی‘ حضرت صالح ؑ قوم کی تباہی کے بعد حضرت ہود ؑ کے علاقے احقاف میں آگئے‘ پہاڑوں میں آباد ہوئے‘ انتقال فرمایا اور پہاڑ کی چوٹی پر مدفون ہوئے۔احقاف کایہ علاقہ اس وقت عمان میں موجود ہے‘
قوم عاد اور قوم ثمود(باقی ماندہ لوگ) دونوںکے لوگ صلالہ شہر کے مضافات میں آباد تھے‘ حضرت ہود ؑ اور حضرت صالح ؑ کے مزارات بھی صلالہ میں واقع ہیں‘ ناسا کو 1992ءمیں عمان کے صحرا میں ریت سے 13 میٹر نیچے ایک شہر دکھائی دیا‘ یہ ایک حیران کن دریافت تھی‘ اس پر کام شروع ہوا اور شہر کا سرا مل گیا لیکن شہر کھودا نہ جا سکا‘ وجہ گندھک تھی‘ وہ شہر پورے کا پورا گندھک کے جوہڑ میں غرق تھا‘ آرکیالوجسٹس نے پائپ لگا کر پانی نکالنے کی کوشش کی لیکن یہ آسان کام نہیں تھا چنانچہ یہ لوگ 26سال گزرنے کے باوجود ریت میں گم شہر کی صرف ایک چٹان کھود سکے اور یہ چٹان شداد کی جنت کا سرا تھی ‘
میں اس جنت گم گشتہ کی تلاش میں جمعہ 28 ستمبر کو صلالہ پہنچا‘ یہ علاقہ ماضی میں یمن کا حصہ ہوتا تھا‘ تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام حضر موت تھا‘ علماءاور آرکیالوجسٹس صدیوں سے اس کی تلاش میں تھے‘ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورة ہود‘الفجر‘ الاعراف“ الشعرائ‘ المومنون‘ الاحقاف‘ حٰم سجدہ ‘ الذاریات‘القمر‘ النمل‘ الشمس اور بنی اسرائیل میں قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر فرمایا‘ اس ذکر نے بھی اس تلاش کو مہمیز کر دیا‘ یہ علاقہ 1843ءمیں سب سے پہلے ایک جرمن فوجی نے دریافت کیا تھا‘
اس کا کہنا تھا علاقے کی ریت باریک سفوف کی طرح تھی اور اس میں جو بھی چیز گر جاتی تھی وہ چند لمحوں میں ریت میں دفن ہو جاتی تھی‘ اس کا خیال تھا ریت کے نیچے زمین نہیں‘ یہ علاقہ ریت کی دلدل ہے‘ شداد کی جنت آج کل اوبار کہلاتی ہے‘اوبار ریت کے سمندر میں چھوٹا سا شہر ہے‘ شہر سے باہر نکلیں تو دائیں بائیں ریت کے ٹیلے ہیں اور یہ ٹیلے ایک طرف سے سعودی عرب اور دوسری طرف سے یمن کے بارڈر تک چلے جاتے ہیں‘ میں اسلام آباد سے اوبار پہنچا تھا جبکہ میرے دوست ڈاکٹر کاشف مصطفی جنوبی افریقہ سے صلالہ آئے تھے‘
ڈاکٹر کاشف مصطفی دل کے سرجن ہیں‘ یہ بھی مذہبی سیاحت کے جنونی ہیں‘ یہ تورات‘ انجیل اور قرآن کے مقامات تلاش کرتے رہتے ہیں‘ یہ چند برس قبل اسرائیل گئے اور ”دیوار گریہ کے آس پاس“ کے نام سے شاندار کتاب لکھی‘ میں نے یہ کتاب پڑھنے کے بعد ڈاکٹر کاشف مصطفی کو تلاش کیا اور یوں ان کے ساتھ دوستی ہو گئی‘ ہمیں اس سفر کے دوران محسوس ہوا جیسے ہم ایک ہی ذات کے دو ٹکڑے ہیں اور قدرت نے ہمیں ملا کر ہم پر عظیم احسان کیا‘
ہم ہفتہ 29 ستمبر کی دوپہر صلالہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اوبار پہنچ گئے‘میں آپ کو اوبار کے بارے میں بتانے سے پہلے حضرت ہود ؑ اور حضرت صالح ؑکے بارے میں بتاتا چلوں‘ یہ دونوں انبیاءصلالہ میں مدفون ہیں‘ حضرت صالح ؑ شہر سے دو سو کلو میٹر دور سیاہ خشک پہاڑ پر آرام فرما رہے ہیں جبکہ حضرت ہود ؑشہر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر دفن ہیں‘ حضرت ہود ؑ کا ایک مزار یمن میں برہوت کے مقام پر بھی موجود ہے‘ حضرت علیؓ نے اس مزار کی نشانی بتائی تھی‘ وہ سرخ ٹیلے پر واقع ہے اور حضرت ہود ؑ کے سرہانے جھاڑ کا درخت ہے‘ یہ دونوں نشانیاں صلالہ میں موجود ہیں‘بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔
ہم سخت گرمی میں اوبار پہنچ گئے‘ ہمارے سامنے شداد کی جنت کے آثار موجود تھے‘ وہ ایک وسیع میدان تھا‘ میدان کے درمیان میں چونے کے پتھر بکھرے ہوئے تھے‘ ہم پتھروں کے درمیان سے ہوتے ہوئے آخری سرے پر پہنچے‘ وہاں اچانک ایک وسیع گڑھا دکھائی دیا‘ ہم گڑھے میں لڑھکتے ہوئے نیچے پہنچے‘ سامنے چٹان تھی اور چٹان کے درمیان سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں‘ ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے گئے‘ سیڑھیاں ایک چھوٹے سے کمرے میں جا کر ختم ہو گئیں‘
اندر گندھک کی بو پھیلی ہوئی تھی‘ پانی کا پمپ اور پائپ بھی موجود تھا‘ کمرے میں اندھیرا تھا‘ شداد کی جنت اس کمرے کے نیچے کہیں دفن تھی‘ اس سے نیچے کھدائی نہیں کی گئی تھی‘ ہمارا دل گھبرا گیا‘ ہم باہر آ گئے‘ ہمارے اوپر چٹان جھکی ہوئی تھی‘ چٹان پر درزیں تھیں اور وہ درزیں منہ سے عبرت کا سیاپا کر رہیں تھیں‘ چٹان آج بھی آہستہ آہستہ نیچے کھسک رہی ہے گویا آج ساڑھے آٹھ ہزار سال بعد بھی شداد کی جنت زمین میں دھنس رہی ہے‘ ہم نے اوپر چٹان کی طرف دیکھا‘
چٹان کے اوپر گرم ہوا بہہ رہی تھی اور ہوا کے درمیان آسمان ہچکولے لے رہا تھا‘ پوری کائنات اس وقت تین نقطوں میں سمٹ آئی تھی‘ آسمان‘ ہوا اور ریت کا قبرستان‘ ماضی‘ حال اورمستقبل اور تینوں کے درمیان ہم تھے‘ خوف‘ وحشت اور عبرت کی زمین پر کھڑے چھ ہونق لوگ اور وہ ہونق لوگ کبھی آسمان کی طرف دیکھتے تھے‘ کبھی ریت کی طرف اور کبھی چٹان کے نیچے دفن شداد کی جنت کی طرف اور کبھی یہ سوچتے تھے‘ وقت کے اس احقاف جس میں شداد جیسے لوگ دفن ہو گئے‘ اس میں ہم جیسے لوگوں کی کیا اہمیت‘ کیا حیثیت ہے!۔