لوگ ہنس رہے ہیں لیکن میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہمت کی داد دیتا ہوں‘ یہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کےلئے انتہائی سنجیدہ ہیں‘یہ فنڈز بھی جمع کر رہے ہیں‘ ٹھیکیداروں کا بندوبست بھی کر رہے ہیں اور حکومت پر بھی مسلسل دباﺅ ڈال رہے ہیں‘ اگر یہ ڈیم بن گیا تو یہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کی مدد سے بننے والا دنیا کا پہلا ڈیم ہو گا اور دنیا دہائیوں تک اس کی مثال دے گی اور یہ اگر نہ بن سکا تو بھی قوم ڈیموں‘ پانی اور خشک سالی جیسے گھمبیر ایشوز سے واقف ہو جائے گی‘یہ واقفیت بھی چیف جسٹس کی چھوٹی خدمت نہیں ہو گی‘
ڈیم بنانا حکومتوں کا کام تھا لیکن حکومتوں کی نالائقی کی وجہ سے یہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو کرنا پڑ گیا‘سیاستدانوں کو اس خدمت پر چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے تھا لیکن یہ لوگ الٹا ان کا مذاق اڑا رہے ہیں‘ یہ زیادتی ہے‘ میری تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے ڈیم کے معاملے میں چیف جسٹس کا ساتھ دیں‘ یہ ڈیم انشاءاللہ بن کر رہے گا اور قوم چیف جسٹس کو کسی اور لقب‘ کسی اور نام سے یاد رکھے یا نہ رکھے لیکن یہ انہیں ”فادر آف ڈیمز“ کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔چیف جسٹس ڈیم کے ساتھ ساتھ انصاف کو یقینی بنانے کےلئے بھی بے تحاشہ کام کر رہے ہیں‘ آصف علی زرداری کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ ہو‘12مئی2007ءکے سانحے کی انکوائری ہو یا پھر بڑی مچھلیوں کے خلاف بڑے بڑے فیصلے ہوں یہ فیصلے کر رہے ہیں اور یہ فیصلے بھی قابل تعریف ہیں لیکن بدقسمتی سے بڑی مچھلیوں کے جال میں حنیف عباسی جیسی چھوٹی اور بے گناہ مچھلیاں بھی پھنس رہی ہیں اور یہ فیصلے قانون اور انصاف کا مذاق ثابت ہو رہے ہیں‘ چیف جسٹس صاحب کو اس ایشو پر بھی توجہ دینی چاہیے‘ ایفی ڈرین ایک قانونی کیمیکل ہے‘ وزارت صحت فارما سوٹیکل کمپنیوں کو یہ کیمیکل درآمد کرنے کا باقاعدہ کوٹہ دیتی ہے‘ کوٹے کی حد 500 کلو گرام ہے‘ فارما سوٹیکل کمپنیاں ایفی ڈرین سے دمہ‘ کف سیرپ اور بلغم خارج کرنے کی گولیاں بناتی ہیں‘ گریس فارما کے نام سے حنیف عباسی کی فارما سوٹیکل کمپنی تھی‘
کمپنی نے 2010ءمیں وزارت صحت سے قانون کے مطابق پانچ سو کلوگرام کوٹہ لیا‘ اس سال بے شمار دوسری کمپنیوں نے بھی کوٹے لئے‘ حنیف عباسی کی کمپنی نے ایفی ڈرین درآمد کی اور دوا بنا کر مارکیٹ میں بیچ دی‘ 2012ءمیں ایفی ڈرین کا سکینڈل سامنے آ یا‘ اینٹی نارکوٹکس فورس نے کوٹہ لینے والی تمام کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں‘ تحقیقات کے دوران پتہ چلا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی نے وزیرصحت مخدوم شہاب الدین کے ساتھ مل کر دو جعلی کمپنیوں برلیکس اور ڈاناس فارما کو ایفی ڈرین کے نو ہزار کلو گرام کے کوٹے دلوائے‘
یہ کوٹے مارکیٹ میں فروخت ہوئے اور یہ بعد ازاں غیر قانونی ادویات (منشیات) میں استعمال ہوئے‘ مخدوم شہاب الدین اور علی موسیٰ گیلانی کے خلاف مقدمات بن گئے‘ چیف جسٹس ثاقب نثار اس کیس کی تحقیقات کرائیں گے تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے مخدم شہاب الدین اور علی موسیٰ گیلانی اصل ملزم تھے اور یہ اصل کیس تھا اور اس کیس میں 232 گواہ ہیں لیکن چھ سال گزرنے کے باوجود آج تک یہ کیس شروع نہیں ہو ا‘ علی موسیٰ گیلانی اور مخدوم شہاب الدین نے مقدمات کے باوجود الیکشن بھی لڑے‘
یہ دونوں آج تک آزاد پھر رہے ہیں‘عدالت اگر آج بھی ان کے خلاف سماعت شروع کر دے تو 232 گواہ بھگتاتے بھگتاتے دونسلیں مر کھپ جائیں گی لیکن کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکے گا‘ ایفی ڈرین کا کوٹہ (جائز اور ناجائز) لینے والی دوسری کمپنیوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ اگر کیس چلا تو وہ صرف حنیف عباسی کے خلاف چلا‘ حنیف عباسی 2012ءسے یہ کیس بھگتا رہے ہیں‘ یہ کیس کی وجہ سے 2013ءکا الیکشن ہار گئے اور یہ 2018ءکا الیکشن لڑ نہیں سکے‘
یہ جولائی 2018ءمیں این اے 60سے ن لیگ کے امیدوار تھے‘ ان کے خلاف اچانک روزانہ سماعت کا حکم ہوا اور اینٹی نارکوٹکس کورٹ نے 21 جولائی کی رات 11بجے انہیں عمر قید کی سزا سنا دی‘ یہ اس وقت اڈیالہ جیل میں بند ہیں‘ فیصلہ دینے والے جج محمد اکرم نے فیصلے میں لکھا ”ایفی ڈرین کا قانون میں بطور کنٹرولڈ یا منشیاتی چیز کا ذکر موجود نہیں‘ اس کے ماہر بھی نہیں ہیں چنانچہ عدالت گوگل کی مدد لینے پر مجبور ہو گئی“ یوں یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ”گوگل فیصلہ“ ہے‘
فیصلے میں گمان اور خیال کے الفاظ بھی موجود ہیں‘ مقدمے کے دوران حنیف عباسی بار بار کہتے رہے میری کمپنی نے دوا بنا کر مارکیٹ میں فروخت کی‘ انہوں نے دوا سازی اور فروخت کے ثبوت بھی دیئے لیکن استغاثہ نے یہ ثبوت اور یہ دعویٰ قبول نہیں کیا‘ استغاثہ نے دعویٰ کیا حنیف عباسی نے سمگلروں کو ایفی ڈرین فروخت کی لیکن یہ لوگ عدالت میں اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے‘ لاہور ہائی کورٹ کے دو ججز جسٹس صغیر احمد قادری اور جسٹس باقر نجفی نے 2012ءمیں ایفی ڈرین کیس میں حنیف عباسی کو ضمانت دی تھی‘
ججز نے اس فیصلے میں لکھا تھا حنیف عباسی کو اینٹی نارکوٹکس ایکٹ کے سیکشن 9 سی (اس سیکشن کے تحت ہیروئن کے سمگلروں کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جاتی ہے) کے مطابق سزا نہیں دی جا سکتی‘ یہ اگر مجرم بھی پائے جائیں توبھی ان پر سیکشن 16 لاگو ہو گا‘ یہ سیکشن قابل ضمانت بھی ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ ایک سال سزا ہو سکتی ہے‘ جسٹس صغیر احمد قادری ریٹائر ہو چکے ہیں‘ مجھے چند دن قبل ان کا ایک انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ جسٹس صاحب نے فرمایا‘ ملزم کوشک کافائدہ ملناچاہیے تھا‘ گمان کی بنیادپر گوگل ریسرچ پرملزم کو سزانہیں دی جاسکتی‘
یہ کہانی کی ایک سائیڈ تھی‘ آپ دوسری سائیڈ بھی ملاحظہ کیجئے‘ بینکوں نے حنیف عباسی کی کمپنی اور خاندان کے تمام اکاﺅنٹس منجمد کر دیئے ہیں‘ بینک خاندان اور کمپنی کے نئے اکاﺅنٹس بھی نہیں کھول رہے‘ کمپنی بیرون ملک سے ادویات سازی کےلئے مٹیریل بھی نہیں خرید سکتی اور کمپنی پر قرضہ لینے کی پابندی بھی لگ چکی ہے چنانچہ حنیف عباسی کا خاندان بھی شدید مالی اور سماجی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے‘ کیا یہ تمام سزائیں قانونی ہیں اور کیا ایک سیاسی ورکر کے ساتھ یہ رویہ مناسب ہے؟ چیف جسٹس صاحب کو نوٹس لینا چاہیے۔
میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ حنیف عباسی کے ایشو پر ہمدردانہ غور کریں‘ کوٹہ قانونی تھا‘ ایفی ڈرین اس دور میں ممنوعہ کیمیکل نہیں تھا‘ یہ خریدا اور بیچا جاتا تھااور یہ منشیات کے زمرے میں بھی نہیں آتی تھی‘ حکومت آج بھی کمپنیوں کو کوٹہ دے رہی ہے اور کمپنیاں ایفی ڈرین سے ادویات بنا کر بیچ رہی ہیں چنانچہ ایفی ڈرین کی بنیاد پر حنیف عباسی کو عمر قید دینا قرین انصاف نہیں‘ ہم اگر ان تمام دلائل کو سائیڈ پر رکھ کر یہ بھی فرض کر لیں حنیف عباسی نے واقعی یہ کیمیکل سمگلروں کو فروخت کر دیا تھا تو وہ سمگلر اور ان کا اعترافی بیان کہاں ہے اور فیصلے میں کیمیکل کی فروخت کے ثبوت کہاں ہیں؟
ہم اگر یہ سوال بھی چھوڑ دیں اور استغاثہ کے تمام گمانوں کو حقیقت مان لیں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے نو ہزار کلو گرام مارکیٹ میں بیچنے والے گھر بیٹھے ہیں‘ ان کے خلاف چھ سال بعد بھی مقدمہ شروع نہیں ہوا‘حنیف عباسی کی کمپنی کے ساتھ جن دوسری کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع ہوئی تھیں‘ وہ کمپنیاں اور ان کے مالکان بھی آزاد پھر رہے ہیں لیکن 500 کلوگرام کا قانونی کوٹہ لینے والا حنیف عباسی عمر قید بھگت رہا ہے‘ کیا یہ زیادتی نہیں؟ ہمارا قانون ہمیشہ ملزم کو شک کا فائدہ دیتا ہے‘
حنیف عباسی نے دوا بنانے اور فروخت کرنے کے ثبوت عدالت میں پیش کر دیئے تھے‘ عدالت نے سات ملزموں کو شک کا فائدہ دے کر رہا کر دیا لیکن حنیف عباسی کو یہ رعایت دینا تو دور اسے ہیروئن فروشی کی سزا دے دی گئی‘ چیف جسٹس صاحب خود سوچیں !کیا ایفی ڈرین ہیروئن ہے اور کیا حنیف عباسی یہ ہیروئن (ایفی ڈرین) فروخت کرتا پکڑا گیا تھا‘ کیا یہ زیادتی نہیں؟ سائنسی اور صنعتی طور پر بھی آج تک یہ ثابت نہیں ہو سکا ایفی ڈرین ہیروئن سازی میں استعمال ہوتی ہے یا یہ ایک مکمل نشہ ہے‘
یہ گوگل کا گمان ہے‘ ایفی ڈرین میتھم فیٹا مائن نامی منشیات میں استعمال ہو سکتی ہے‘ ہم اگر یہ گمان مان لیں تو پھر پانی بھی تمام منشیات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے‘ کیا پھر ہم گمان کی بنیاد پر منرل واٹر کمپنیوں کے مالکان کو بھی عمر قید دے دیں گے اور کیا حنیف عباسی کی سزا کے بعد ایفی ڈرین میتھم فیٹا مائن میں استعمال نہیں ہو سکتی‘اگر آج بھی اس سے منشیات بنائی جا سکتی ہیں تو پھروزارت صحت اس وقت یہ کوٹہ کیوں الاٹ کر رہی ہے اور دنیا کی سینکڑوں کمپنیاں یہ کیمیکل کیوں بنا رہی ہیں چنانچہ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ اگر ان حقائق کی تحقیقات کر لیں تو آپ کو حنیف عباسی پر ترس آ جائے گا اور یوں ایک بے گناہ سیاسی ورکر عمر قید کی سزا اور ایک خاندان معاشی خودکشی سے بچ جائے گا‘ یہ آپ کا بہت بڑا احسان ہو گا ۔
نوٹ: میں قارئین سے ایک بار پھر گزارش کر رہا ہوں میں ٹویٹر پر ایکٹو نہیں ہوں‘ میرے نام اور میری تصویر کے ساتھ جتنے ٹویٹس جاری ہو رہے ہیں یا وائرل کئے جا رہے ہیں یہ تمام جعلی ہیں‘ میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ میں یہ جعلی اکاﺅنٹ چلانے والوں سے بار ہا درخواست کر چکا ہوں لیکن یہ باز نہیں آ رہے چنانچہ میں نے اب ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ احباب اس سلسلے میں میرے ساتھ تعاون کریں۔