جنرل گل حسن قائداعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی تھے‘ یہ اس وقت برطانوی فوج میں کیپٹن تھے‘ پاکستان بننے کے بعد پاک آرمی میں شامل ہوئے‘ وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش آرمی کے جنرل سلم کے اے ڈی سی تھے چنانچہ قائداعظم نے تجربے کی وجہ سے ان کو اپنا پہلا اے ڈی سی بنا دیا‘ مجھے 1994-95ءمیں ان سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا‘ وہ بہت شاندار انسان تھے‘ پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف رہے
لیکن پورے ملک میں ان کا کوئی پلاٹ تھا‘ گھر تھا اور نہ ہی زمین جائیداد ‘ جنرل صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد60 سال کی عمر میں آسٹرین خاتون سے شادی کی‘ ایک بیٹا پیدا ہوا‘ بیٹا اور بیگم ویانا میں رہتے تھے جبکہ جنرل صاحب راولپنڈی کے آرٹلری میس میں رہائش پذیر تھے‘ ان کا انتقال بھی اسی میس میں ہوا ‘ وہ وسیع المطالعہ شخص تھے‘ پورے کمرے میں کتابیں بکھری ہوتی تھیں‘واحد اثاثہ ایک سوزوکی مارگلہ کار اور ایک ڈرائیور تھا‘ پنشن نان نفقے کا واحد سہارا تھی‘ وہ 10 اکتوبر1999ءکو فوت ہوئے تو ان کے اکاﺅنٹ میں کوئی رقم نہیں تھی‘کار تین لاکھ روپے میں فروخت ہوئی‘وصیت کے مطابق ڈیڑھ لاکھ روپے بیگم اور بیٹے کو ویانا بھجوا دیئے گئے جبکہ باقی ڈیڑھ لاکھ روپے ڈرائیور‘ الشفاءآئی ہسپتال اور ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ میں تقسیم کر دیئے گئے‘وہ زندگی میں اپنے کفن دفن کےلئے ڈرائیور کے پاس دو ہزار دو سو روپے امانتاًرکھوا گئے تھے‘جنرل صاحب کی تدفین اسی رقم سے ہوئی‘جنرل گل حسن نے اپنے اس ”ترکے“ کی تقسیم کی ذمہ داری اپنے ایک پارسی دوست کو سونپی تھی‘یہ تمام بندوبست اسی پارسی دوست نے کئے‘ میں ملاقات کےلئے اکثر ان کے میس میں جاتا رہتا تھا‘ وہ اپنے کیریئر کے شاندار واقعات سنایا کرتے تھے‘ وہ عموماً قائداعظم کا تذکرہ کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتے تھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہتے تھے‘ ہمارے ملک میں ان جیسا کوئی شخص آیا اور نہ کبھی آئے
گا‘ وہ مجھے ہر ملاقات میں پاکستان کی پہلی کابینہ کے پہلے اجلاس کا قصہ ضرور سنایا کرتے تھے‘ ان کا کہنا تھا‘اگست 1947ءمیںکابینہ کا اجلاس تھا‘ میں نے وزراءکی آمد سے پہلے گورنر جنرل سے پوچھا ”سر ہم کابینہ کےلئے چائے کا بندوبست کریں یا پھر کافی کا“ قائداعظم نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ”چائے اور کافی کیوں؟ کیا یہ لوگ گھر سے کافی چائے پی کر نہیں آئیں گے“ قائداعظم اس کے بعد بولے ”سرکار کا پیسہ عوام کی امانت ہے‘
ہم عوامی نمائندے اس میں خیانت کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ وزراءعوام کے خادم ہیں‘ جس کو چائے یا کافی کی طلب ہو وہ گھر سے پی کر آئے“ جنرل گل حسن نے اس کے بعد فرمایا ”میںجب تک قائداعظم کے ساتھ رہا‘ ہم نے کابینہ کے کسی اجلاس میں کھانا تو دور چائے تک سرو نہیں کی‘ قائد مہمانوں کو بھی چائے کافی پیش نہیں کیا کرتے تھے‘ یہ سہولت صرف غیر ملکی مہمانوں کو حاصل تھی لیکن وہ بھی صرف وہ جنہیں چائے یا کھانے کی باقاعدہ دعوت دی جاتی تھی‘
قائداعظم ہر شخص کے سامنے چائے یا کافی کا کپ نہیں رکھتے تھے‘ ملاقات کا ایجنڈا اوروقت طے ہوتا تھا‘ قائد صرف اسی موضوع پر گفتگو کرتے تھے‘ مہمان اگر دائیں بائیں نکلنے کی کوشش کرتا تھا تو آپ فرما دیا کرتے تھے ہمارا یہ ایشو نہیں‘ آپ اگر اس پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس کےلئے الگ ملاقات طے کر لیتے ہیں‘ سردست ہمیں اپنے موضوع پر رہنا چاہیے‘ وہ ملاقات کا وقت ختم ہوتے ہی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور دروازے کی طرف چلنا شروع کر دیتے تھے‘
مہمان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں بچتا تھا چنانچہ وہ بھی برآمدے میں آ جاتا تھا‘ قائد اس کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے تھے اور واپس کمرے میں آ جاتے تھے تاہم ملاقاتوں کے دوران سادے پانی کی سہولت دستیاب ہوتی تھی‘ مہمان کے دائیں بائیں تپائی پر پانی کا گلاس رکھا ہوتا تھا‘ وہ اگر پانی پینا چاہتا تھا تو وہ چپ چاپ گلاس اٹھا کر پی لیتا تھا‘ سٹاف اپنا لنچ گھر سے لے کر آتا تھا‘ ہم لوگ لنچ کے وقت اپنا اپنا کھانا نکال کر کھا لیتے تھے‘ قائداعظم کھانے کے وقفے کے دوران کسی کو تنگ نہیں کرتے تھے‘
وہ سرکاری دفاتر کے دوروں کے دوران بھی خود چائے کافی لیتے تھے اور نہ کسی کو لینے دیتے تھے‘ ہم کسی کو سرکاری رقم سے ٹپ بھی نہیں دے سکتے تھے‘ جنرل گل حسن کے بقول 1971ءتک سرکاری دفتروں میں سرکاری چائے‘ کافی اور کھانوں کا کوئی تصور نہیں تھا‘ صدر ایوب خان اور صدر یحییٰ خان تک ایوان صدر کے کچن کے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے‘ یہ اپنی فیملی کے کھانوں اور چائے کافی کے پیسے بھی سرکاری خزانے میں جمع کراتے تھے اور صدر کی فیملی کا کوئی شخص ایوان صدر کی گاڑی‘ ٹیلی فون اور سٹیشنری استعمال نہیں کر سکتا تھا‘
جنرل یحییٰ خان نشے کی حالت میں بھی ذاتی دستخط ذاتی پین اور سرکاری دستخط سرکاری پین کے ساتھ کرتا تھا“ جنرل صاحب کا کہنا تھا” سرکاری چائے ‘کافی اور کھانے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوئے اور جنرل ضیاءالحق نے اسے سرکاری حیثیت دے دی ورنہ یہ اس سے پہلے بددیانتی سمجھے جاتے تھے‘ فورسٹار جنرل بھی ذاتی کپڑے سرکاری لانڈری سے نہیں دھلوا سکتے تھے‘ تمام جنرلز گیراج میں سرکاری اور غیر سرکاری گاڑی رکھتے تھے‘ سرکاری گاڑی سرکاری کاموں اور غیر سرکاری کار ذاتی کاموں کےلئے استعمال ہوتی تھی“۔
مجھے جنرل گل حسن مرحوم کی باتیں اس وقت بھی عجیب لگتی تھیں اور میں آج بھی جب ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میں حیرت میں چلا جاتا ہوں‘مجھے چند دن قبل وزیراطلاعات فواد چودھری کی پریس کانفرنس دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ فواد چودھری نے انکشاف کیا ”میاں نواز شریف کے دور میں وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز‘ حسن نواز اور مریم نواز سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے‘ وزیراعظم کے زیر استعمال دو جہاز ہیں‘ جی فور اور جی فور فائیو زیرو ‘
یہ دونوں جہاز وزیراعظم کی فیملی کو بے شمار مرتبہ لاہور لے کر گئے اور واپس لے کر آئے‘ لاگ بک کے مطابق نواز شریف کی فیملی کی آمدورفت پر ایک کروڑ 71 لاکھ 48 ہزار 6 سو3 روپے خرچ ہوئے جبکہ ہیلی کاپٹروں کے فیملی استعمال پر 62 لاکھ 30 ہزار روپے کے اخراجات آئے‘ یہ رقم مجموعی طور پر 2 کروڑ 33 لاکھ 78 ہزار 6 سو تین روپے بنتے ہیں‘ حکومت نے میاں نواز شریف اور ان کے بچوں سے یہ رقم وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘
ہم یہ بل نواز شریف اور ان کی فیملی کو بھجوا رہے ہیں“میرے لئے یہ اطلاعات حیران کن تھیں‘ میں نے مزیدتحقیق کی تو پتہ چلا پنجاب حکومت بھی میاں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے زیر استعمال سرکاری ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کا بل تیار کر رہی ہے‘ یہ بل بھی میاں شہباز شریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو بھجوائے جائیں گے‘ یہ رقم اگر ادا ہو گئی تو ٹھیک ورنہ حکومت شریف فیملی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی‘حکومت شریف فیملی کو ملنے والے تحائف کی فہرستیں بھی تیار کر رہی ہے اور پارٹی فنڈز کے بارے میں بھی تحقیقات ہو رہی ہیں‘
یہ بل بھی شریف خاندان کو بھجوائے جائیں گے‘ میں حکومت سے ہزار اختلافات کے باوجود اس فیصلے کو درست سمجھتا ہوں‘ ملک کے سابق حکمرانوں نے اگر سرکاری سہولتوں کا غلط اور غیر قانونی استعمال کیا تو انہیں یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانی چاہیے‘ یہ ایک مقروض اور غریب قوم کے پیسے ہیں‘ یہ لوگ ان پیسوں کے چوکیدار تھے اور انہیں اس امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے تھی‘ یہ رقم ان سے وصول ہونی چاہیے تاہم میری حکومت سے درخواست ہے یہ سلسلہ صرف شریف خاندان تک محدود نہیں رہنا چاہیے‘
آپ پچھلے بیس سال کا احتساب کریں اور 1999ءسے 2018ءتک ملک کے تمام سابق حکمرانوں کو بل بھجوائیں اور ان سے وصولیاں کریں‘ آپ جنرل پرویز مشرف‘ میر ظفر اللہ جمالی‘ شوکت عزیز‘یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی سے بھی بل وصول کریں‘ یوسف رضا گیلانی کے دور میں 7 ستمبر2010ءکو ہالی ووڈ کی اداکارہ انجلینا جولی سیلاب زدگان کی مدد کےلئے پاکستان آئیں‘ وزیراعظم نے فوٹو سیشن کےلئے سرکاری جہازملتان بھجوا کر اپنی فیملی اسلام آباد بلوائی‘
انجلینا جولی سیلاب زدہ ملک میں یہ عیاشی دیکھ کر ناراض ہو گئیں‘ وزیرداخلہ رحمن ملک صدارتی جہاز لے کر امداد کےلئے سعودی عرب چلے گئے اور سعودی شاہ کنگ عبداللہ بھیک مانگنے کے اس سٹائل پر دیر تک تاسف کا اظہار کرتے رہے‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جہاز کی یہ سہولت اداکاراﺅں تک کو حاصل تھی‘حکومت ان تینوں سے بھی بل وصول کرے‘ نیب میں آج بھی عمران خان کی طرف سے کے پی کے حکومت کے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا کیس زیر تفتیش ہے‘
عمران خان سے بھی یہ بل وصول ہونا چاہیے اور یہ عیاشی بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بند ہونی چاہیے‘ دوسرا حکومت تمام سرکاری اداروں اور دفتروں کا انٹرٹینمنٹ بجٹ بھی ختم کر دے‘ سرکاری ملازمین دفتروں میں کام کرنے آتے ہیں چائے اور کافی پینے اور بسکٹ اور سینڈوچ اڑانے نہیں تاہم حکومت سرکاری دفتروں میں پرائیویٹ اداروں کی مدد سے چائے اور کافی کی مشینیں لگوا دے‘ چپڑاسی سے لے کر سیکرٹری تک مشین میں ذاتی نوٹ ڈال کر کافی اور چائے لے اور عیاشی کرے‘
سرکاری ملازمین اپنی طلب سرکار کی رقم سے کیوں بجھاتے ہیں اور آخری بات آپ سرکاری بینکویٹ بھی بند کر دیں‘ صدر اور وزیراعظم غیرملکی مہمانوں کو کھانا کھلائیں اور روانہ کر دیں‘ دو دو سو لوگوں کی بارات کو سرکاری کھانا کھلانے کی کیا تُک ہے! کیا ان کے گھروں میں کھانا نہیں پکتا‘ غریب کا ٹیکس حکمرانوں کے کھانوں پر کیوں خرچ ہو؟ نئے پاکستان کو نیا لگنا چاہیے‘ یہ عیاشیاں بھی بند ہونی چاہئیں۔