ہنری پرسی پوئنگ ڈیسٹر کا والد لی ہنری برطانوی فوج میں کرنل تھا‘ وہ 1851ءمیں جمیکا میں تعینات تھا‘ ہنری پرسی 28 دسمبر 1851ءکو جمیکا میں پیدا ہوا‘ والد نے بیٹے اور بیوی کو لندن بھجوا دیا‘ ہنری پرسی نے لندن وولوچ کی رائیل ملٹری اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی اور 1871ءمیں بیس سال کی عمر میں رائل آرٹلری جوائن کر لی‘ ہندوستان آیا‘ 16بنگال کیولری میں کام کیا‘ پنجاب کمیشن کا حصہ بنا‘ صوبہ سرحد میں کرم ایجنسی میں سپیشل
ڈیوٹی کی‘ میرانزئی ہنگو میں پولیٹیکل ایجنٹ بنا اور آخر میں پنجاب میں کمشنر تعینات ہو گیا‘ وائسرائے نے اسے 1901ءمیں ملتان کا پہلا کمشنر بنا دیا‘ یہ ملتان پہنچا تو اس نے ملتان میں پہلا کمشنر ہاﺅس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا‘ ابدالی روڈ پر 61 کنال رقبہ پسند کیا اور اس پر برطانوی سٹائل کا کمشنر ہاﺅس بنا دیا‘ یہ ایک وسیع اور خوبصورت عمارت تھی‘ اس میں کمشنر کی شاہی خواب گاہ بھی تھی اور شاہی ڈرائنگ روم بھی‘ سٹڈی بھی‘ رائل باتھ رومز بھی‘ نہانے کا تالاب بھی‘ پورچ بھی‘ گارڈ روم بھی‘ کمشنر کے 21 ملازمین کے کوارٹر بھی‘ گھوڑوں کا اصطبل بھی‘ باغ بھی اور لکڑیاں‘ غلہ اور پانی کے سٹور بھی ‘ ہنری پرسی 1907ءمیں ریٹائر ہوا‘ لندن واپس گیا اور 1928ءمیں اس کا انتقال ہو گیا‘ہنری پرسی کے بعد ملتان میں کمشنر آتے رہے اور جاتے رہے‘ ہر کمشنر اسی عمارت میں مقیم رہا اور وہ اس عمارت میں اضافہ کرتا رہا یہاں تک کہ یہ ملتان کی خوبصورت‘ شاہانہ اور قیمتی ترین عمارت بن گئی‘ 1947ءمیں انگریز ہندوستان سے چلا گیا‘ پاکستان بن گیا‘ یہ عمارت اس کے بعد بھی قائم رہی اور دیسی کمشنرز کی رہائش گاہ بنتی رہی‘ 2004ءمیں چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ یہ ملتان کے دورے پر آئے‘ لوگوں نے بتایا‘ جنوبی پنجاب میں دل کے امراض کا کوئی ہسپتال موجود نہیں‘ مریضوں کو لاہور لے جایا جاتا ہے اور یہ راستے میں انتقال کر جاتے ہیں‘ چودھری پرویز الٰہی جانتے تھے کمشنر
ہاﺅس ملتان کی مہنگی ترین پراپرٹی ہے‘ یہ ملتان کی مرکزی شاہراہ ابدالی روڈ پر واقع ہے اور اس کا رقبہ 61 کنال ہے‘ چودھری پرویز الٰہی نے کمشنر ہاﺅس کی جگہ ”ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی“ بنانے کا اعلان کر دیا‘ عمارت گرائی گئی اور وہاں 279 بیڈز کا جدیدترین ہسپتال بنا دیا گیا‘ ہسپتال پر ایک ارب 37 کروڑ روپے لاگت آئی‘ ہسپتال کے سامنے 40 کنال پر محکمہ انہار کے دفاتر تھے‘ وزیراعلیٰ نے وہاں کارڈیالوجی سنٹر کے ڈاکٹروں کےلئے رہائش گاہیں بنا دیں‘
یہ ہسپتال 2006ءمیں مکمل ہوااور اس سے نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ ملتان سے ملحقہ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے مریض بھی مستفید ہونے لگے‘ 2017ءمیں اس کی ایمرجنسی وارڈ میں ایک لاکھ 33 ہزار 827 مریض لائے گئے‘ آﺅٹ ڈور مریضوں کی تعداد پونے پانچ لاکھ تھی‘ 7 ہزار 36 مریضوں کی انجیو گرافی اور 3ہزار 27 مریضوں کی انجیو پلاسٹی ہوئی‘ 532 مریضوں کے دل کے آپریشن ہوئے اور 3 لاکھ 85 ہزار مریضوں کو مفت ادویات دی گئیں۔
یہ ایک کمشنر ہاﺅس کی کہانی تھی‘ پاکستان میں اس وقت ایسے 29 ڈپٹی کمشنر‘ کمشنر اور ڈی آئی جی ہاﺅسز موجود ہیں‘ یہ برطانوی دور کی نشانیاں ہیں اور یہ 16 سے 70 کنال پر محیط ہیں‘ آپ صرف پنجاب میں ڈی آئی جی ہاﺅسز کی مثال لے لیجئے‘ پنجاب میں اس وقت انگریز دور کے سات بڑے ڈی آئی جی ہاﺅس ہیں‘ ڈی آئی جی ہاﺅس ڈیرہ غازی خان کا رقبہ 70 کنال ہے جبکہ ڈی آئی جی ہاﺅس ملتان 16 کنال‘ ڈی آئی جی ہاﺅس سرگودھا 40 کنال‘ ڈی آئی جی ہاﺅس فیصل آباد 20 کنال‘ ڈی آئی جی ہاﺅس گوجرانوالہ 70 کنال‘
ڈی آئی جی ہاﺅس لاہور تین کنال اور ڈی آئی جی ہاﺅس راولپنڈی 20 کنال پر محیط ہے‘ عمران خان ملک میں سادگی قائم کرنے کی نیت سے حکومت میں آئے ہیں‘ یہ خود وزیراعظم ہاﺅس میں ملٹری سیکرٹری کے تین بیڈز کی رہائش گاہ میں رہیں گے‘ صدر عارف علوی بھی ایوان صدر میں رہائش پذیر نہیں ہوں گے اور گورنرز بھی گورنر ہاﺅسز میں نہیں رہیں گے‘ یہ بہت اچھی بات ہے‘غریب ملکوں کے حکمرانوں کوشہنشاہ دکھائی نہیں دینا چاہیے‘ سادگی ہماری ضرورت بھی ہے اور ہمارا ایمان بھی‘
میری حکومت سے درخواست ہے آپ چند قدم آگے بڑھائیں اور فوری طور پر ان عمارتوں کے کچن اور ائیرکنڈیشنڈ پلانٹس بھی بند کرا دیں‘ ایوانوں کے اصل اخراجات اے سی‘ کھانوں اور گاڑیوں پر آتے ہیں‘ آپ یہ تینوں اصراف بند کر کے بہت بچت کر لیں گے‘ آپ اس کے بعد تمام سرکاری دفاتر میں اے سی کا دورانیہ طے کر دیں‘ گرمیوں میں اے سی 12بجے آن ہوں اور یہ تین بجے بند کر دیئے جائیں‘ بجلی کی بچت بھی ہو گی اور اخراجات بھی کم ہو جائیں گے‘ حکومت تمام سرکاری عمارتوں پر سولر پینل بھی لگوائے‘
یہ پینل عمارت کی برقی ضروریات کے مطابق ہونے چاہئیں‘ یہ کام 2019ءکی گرمیوں تک مکمل ہو جانا چاہیے‘ ملک میں عام اے سی اور عام ٹی وی پر پابندی لگا دیں‘ صرف انورٹراے سی اور ایل ای ڈی ٹی وی کی اجازت ہو‘ یہ اے سی اور یہ ٹی وی ملک میں بجلی کی کھپت 25فیصد کم کر دیں گے‘ وزیراعظم نے وزیراعظم ہاﺅس میں ریسرچ یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا‘ یہ فیصلہ بھی خوش آئند ہے‘ آپ ملک کے تمام گورنر ہاﺅسز میں بھی ریسرچ یونیورسٹیاں بنا دیں‘
یہ یونیورسٹیاں غربت‘ پانی‘ آبادی‘ ماحولیات‘ روزگار‘ صحت اور ہاﺅسنگ پر ریسرچ کریں‘ یہ ریسرچ پرائیویٹ اور حکومتی اداروں کو فراہم کی جائیں اور سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس ریسرچ کے مطابق پالیسیاں بنائیں تاہم میری درخواست ہے نام نہاد مشیروں اور کنسلٹنٹس کو ان یونیورسٹیوں سے دور رکھا جائے‘ ہمارے ملک میں دو قسم کے مشیر ہیں‘ پہلی قسم میں ایسے مشیر آتے ہیں جن میں صرف دو خوبیاں ہوتی ہیں‘ یہ شاندار انگریزی بولتے ہیں اور دوسرا یہ خوف پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں‘
یہ پریذنٹیشن کے دوران ایسا خوف پیدا کرتے ہیں کہ حاضرین کا پیشاب تک خشک ہو جاتا ہے اور حکومت کو محسوس ہوتا ہے یہ صاحب نہ ہوئے تو ہم اور ملک دونوں ڈوب جائیں گے چنانچہ ان لوگوں کو ہائرکر لیا جاتا ہے‘ یہ کرسی پر بیٹھتے ہیں اور باقی مدت ”ہم نے حالات کو کنٹرول کر لیا“ اور ”ملک کے تمام اشارے بہتری کی طرف جا رہے ہیں“وغیرہ وغیرہ کا راگ الاپتے رہتے ہیں ‘یہ اپنی مدت ملازمت کے دوران کیا کرتے رہے؟اس کا اندازہ ان کے جانے کے بعد ان جیسے نئے ایڈوائزرز کی پریذنٹیشن سے ہوتا ہے اور دوسری قسم کے مشیر مرغی کو انڈہ اور بھینس کو دودھ دینے کا طریقہ بتاتے ہیں‘
پاکستان کو دونوں قسم کے مشیرنہیں چاہئیں‘ ہمیں پوری دنیا میں ایسے لوگ تلاش کرنے چاہئیں جو پاکستان آئیں‘ پاکستان کے مسائل اور وسائل پر تحقیق کریں اور حکومت کو سالڈ تجاویز دیں‘ یہ تحقیق اور یہ تجاویز وزیراعظم اور گورنر ہاﺅسز کی ریسرچ یونیورسٹیوں میں تیار کی جائیںاور پوری قوم ان پر عمل کرے۔میں واپس سرکاری ہاﺅسز کی طرف آتا ہوں‘میری حکومت سے درخواست ہے اگر وزیراعظم اور گورنرزیہ سرکاری ہاﺅسز استعمال نہیں کر رہے تو پھر ڈپٹی کمشنرز‘ کمشنرز‘ ڈی پی اوز اور ڈی آئی جیز سے بھی شاہانہ رہائش گاہیں واپس لے لینی چاہئیں‘
آپ کمشنر ہاﺅس ملتان کی طرح پورے ملک کے ہاﺅسز کا ڈیٹا جمع کریں اور دس کنال سے اوپر تمام پرانی سرکاری عمارتیں محکمہ صحت یا محکمہ تعلیم کے حوالے کر دیں ‘ محکمہ صحت چالیس کنال سے بڑے ہاﺅسز میں ملتان جیسا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور چھوٹے ہاﺅسز میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی رہائش گاہیں اور ہاسٹل بنا دے یا پھران میں لیبارٹریاں بنا دی جائیں‘ یہ فیصلہ ملک کے لاکھوں مریضوں کی زندگی بدل دے گا‘ آپ اسی طرح پورے ملک میں موجود سرکاری زمینوں‘ ہاﺅسز‘ ہائی وے‘ ریلوے‘ واپڈا‘ فوجی فارم ہاﺅسز‘ وقف عمارات‘ مغلوں کے دور کی سرائیں اور دریاﺅں‘ ندیوں‘ نالوں اور جھیلوں کے گرد موجود سرکاری رقبوں کا ڈیٹابھی جمع کریں‘ یہ ڈیٹا وفاق کے پاس ہونا چاہیے‘
وفاق ان عمارتوں‘ زمینوں اور رقبوں کو ہسپتال‘ سکول اور سٹیڈیمز کےلئے وقف کر دے‘ یہ قانون بنا دیا جائے ملک میں حکومت کوئی بھی آئے یہ شہروں اور شہروں کے مضافات میں موجود سرکاری زمینوں کو سٹیڈیم‘ سکول اور ہسپتال کے علاوہ کسی استعمال میں نہیں لا سکتی‘ یہ ڈیٹا مستقبل میں شہری‘ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو انفراسٹرکچر کے معاملے میں گائیڈ لائین دے گا‘ کوٹ مٹھن کی آبادی میں اگر بیس فیصد اضافہ ہو جائے گا تو وفاقی حکومت اسلام آباد میں بیٹھ کر جان لے گی ہم کس کس جگہ کتنا بڑا سکول‘ ہسپتال یا سٹیڈیم بنا سکتے ہیں‘
حکومت اس کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری عمارتوں کا سائز اور ڈیزائن بھی طے کر دے‘ قصبے میں تھانہ کتنا بڑا بنے گا‘ کچہری کتنی بڑی ہو گی اور اے سی‘ ڈی سی‘ ڈی ایس پی اور ایس پی کے دفاتر اور رہائش گاہیں کتنی بڑی ہوں گی‘ آپ ان کا ڈیزائن بھی طے کر دیں یوں یہ مسئلہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حل ہو جائے گا اور عوام بھی صرف عمارت کی شکل دیکھ کر اندازہ کر لیں گے یہ کس محکمے کی عمارت ہے یوں یہ ایشوزبھی مستقل طور پر ختم ہو جائیں گے۔
حکومت بن چکی ہے‘ صرف نیا پاکستان بننا باقی ہے‘ ہمیں حکومت کو چھ ماہ دینے چاہئیں‘ یہ خواہ سردار عثمان بزدار اور محمود خان کو چیف منسٹر بنائے یا پھر عشرت حسین یا بابر اعوان جیسے پارسا اور عظیم لوگوں کو مشیر کی کرسی پر بٹھا دے‘ ہمیں حکومت کو سپورٹ کرنا چاہیے‘ ملک تبدیل ہو گیا تو عوام عمران خان کے جوتے بھی عرق گلاب میں دھوئیں گے اور اگریہ ناکام ہو گئے تو پھر او‘ ہو‘ہو‘ ہو ‘یہ لوگ جوتے پہننے کے قابل بھی نہیں رہیں گے ‘باقی جو اللہ کرے۔