اس وقت تک

6  جولائی  2018

”آپ ہماری گلیاں دیکھیں ‘کیا یہاں کوئی انسان رہ سکتا ہے“ نوجوان کی آواز میں تپش تھی‘ میں نے سامنے دیکھا‘ گلی سیوریج کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی‘ تعفن بھی تھا‘ مکھیاں بھی تھیں اور مچھر بھی تھے ‘ گھروں کی چوکھٹوں تک گندہ پانی تھا‘ لوگ پانی کے اندر سے گزر رہے تھے‘ گلی کے آخر میں سات آٹھ کنال کا احاطہ تھا‘ وہ احاطہ جوہڑ بن چکا تھا‘ گلی کا پانی وہاں جمع ہوتا تھا‘ میں نے اندازہ لگایا جوہڑ میں کم از کم دس فٹ پانی ہو

گا‘ یہ گلی پورا سال گندے پانی میں ڈوبی رہتی تھی‘ حکومت نے سیوریج کی لائین اور گٹڑ بھی بنا رکھے تھے لیکن علاقہ اس کے باوجود گندے پانی میں غرق تھا‘ غلیظ پانی نلکوں اور بورز کے ذریعے صاف پانی میں مل رہا تھا اور پورے علاقے میں ہائیپاٹائٹس سی پھیلا رہا تھا‘ لوگ مجھے بار بار گلی دکھاتے تھے‘ آنسو پوچھتے تھے اور گو نواز گو کے نعرے لگاتے تھے اور میں کبھی دائیں دیکھتا تھا اور کبھی بائیں۔یہ لاہور کا علاقہ کمال پارک تھا‘ یہ میاں نواز شریف کے حلقہ این اے 125 کا حصہ ہے‘ آبادی تیس ہزار اور ووٹرز ساڑھے سولہ ہزار ہیں اور یہ لوگ حالات سے حقیقتاً تنگ ہیں۔میں پورا ہفتہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں رہا‘ میں سیالکوٹ بھی گیا‘ نارووال‘ شکر گڑھ اور گوجرانوالہ بھی گیا اور مجھے میاں نواز شریف کا آبائی حلقہ بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ لوگوں کی حالت پتلی تھی‘ گلیوں میں بھی گند تھا‘ تجاوزات بھی تھیں اور لوگوں کے چہروں اور لباس سے غربت اور بیماری بھی جھلکتی تھی‘ یہ سنٹرل پنجاب کی صورت حال تھی‘ ہم اگر فیصل آباد‘ ملتان اور راولپنڈی سے آگے جاتے تو حالات یقینا مزید خراب ہوتے‘ لوگ وہاں ان سے بھی برے حالات میں ہوں گے لیکن سوال یہ ہے ان حالات کا ذمہ دار کون ہے اور یہ حالا ت کون ٹھیک کرے گا؟ میں ان حالات کے باوجود سمجھتا ہوں میاں شہباز شریف نے اپنے ادوار میں کام کیا‘ میں نے اپنی آنکھوں سے شکر گڑھ میں سرحد تک کارپٹڈ سڑکیں دیکھیں‘ فیصل آباد‘ سرگودھا‘

راولپنڈی‘ گوجرانوالہ اور ملتان میں بھی بے تحاشہ کام ہواجبکہ لاہور پر میاں شہباز شریف کا خصوصی فوکس تھا‘ آپ آج گاڑی میں بیٹھیں اور چاروں صوبوں میں جائیں آپ کو پنجاب باقی صوبوں سے بہتر ملے گاتاہم یہ بھی درست ہے لاہور 3جولائی کی بارش میں ڈوب گیا تھا‘ پاکستان کا پیرس ایک بڑی بارش سے وینس بن گیا لیکن ہم اگر جذبات سے بالاتر ہو کر دیکھیںتو لاہور میں چار گھنٹوں میں 252ملی میٹر بارش ہوئی تھی ‘

دنیا کے اصل پیرس میں 25 جنوری 2018ءکو 183 ملی میٹر بارش ہوئی اورپیرس لاہوربن گیا‘ آپ کو 1910ءکا پیرس بھی تاریخ کی کتابوں میں مل جائے گا‘1910ءمیں پیرس میں اڑھائی سو ملی میٹر بارش ہوئی‘ دریائے سین کا واٹر لیول 28 فٹ پر آ گیا اورپانی ایفل ٹاور کے ٹخنوں تک پہنچ گیا ‘آج بھی جب یورپ اور امریکا میں اڑھائی سو ملی میٹر بارش ہوتی ہے تو شہر کے شہر ڈوب جاتے ہیں‘ ٹرینیں اور فلائیٹس منسوخ ہو جاتی ہیں جبکہ لاہور پاکستان جیسے پسماندہ ملک کا ایک پسماندہ شہر ہے‘

آپ کو اگر اس شہر میں ایک ایسا ڈرینج سسٹم چاہیے جو 252ملی میٹر بارش میں بھی چوک نہ ہو تو پھر آپ کو پورا شہر کھودنا پڑے گا اور اس پر کم از کم پانچ ارب ڈالر خرچ ہوں گے‘کیا وہ قوم جسے میٹرو اور اورنج لائین عیاشی محسوس ہوتی ہیں اور وہ جو 21 ویں صدی میں بھی سڑکوں‘ انڈر پاسز اور اوورہیڈ پلوں کے خلاف جلوس نکالتی ہے کیا وہ یہ عیاشی افورڈ کر سکے گی؟ آپ لاہور کے چالیس سے ساٹھ سال کے شہریوں سے پوچھ لیجئے‘ یہ آپ کو بتائیں گے پنجاب میں جب بھی بارشیں ہوتی تھیں لاہور کا ملک سے رابطہ ٹوٹ جاتا تھا‘

لوگوں کو شاہدرہ اور مریدکے پہنچنے میں بھی آٹھ گھنٹے لگ جاتے تھے‘ میں نے خود اپنی آنکھوں سے بارش کے بعد ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے ذریعے لاہور کے لوگوں تک خوراک پہنچتے دیکھی چنانچہ آپ آج کو جب ماضی کے ساتھ کمپیئر کریں گے تو آپ کو حالات میں بہتری نظر آئے گی‘ میرا خیال ہے اگر پشاور اور کراچی میں لاہور سے آدھی بارش ہو جائے تو ہم ان دونوں شہروں میں ایمرجنسی نافذ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جبکہ لاہور میں تین جولائی کو طوفانی بارش ہوئی اور 5 جولائی کو نوے فیصد لاہور کلیئر ہو گیا‘

صرف نشیبی علاقے متاثر ہیں اور آپ اگر امریکا کی حکومت بھی لے آئیں تو وہ بھی نشیبی علاقوں کو بالائی علاقے نہیں بنا سکے گی‘ وہ بھی گڑھوں میں مکان بنانے والوں کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکے گی۔یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہمارے لوگوں کی حالت واقعی پتلی ہے‘ ملک میں بیماریاں بھی ہیں‘ بے روزگاری بھی ہے اور انفراسٹرکچر کی حالت بھی اچھی نہیں لیکن سوال یہ ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا حکومتیں ذمہ دار ہیں‘ ہمارے حکمرانوں کو عوام کو جہالت‘ بیماری اور بے روزگاری کے جہنم سے نکالنا چاہیے تھا

چنانچہ ہم حکومتوں کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے لیکن کیا یہ اکیلی ذمہ دار ہیں؟کیاہم عوام اس ذمہ داری میں شامل نہیں ہیں؟ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے ہم نے آج تک کام کس کو کرنے دیا؟ جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے ادوار میں بجلی بنی‘ ڈیم بنے اور نہ ہی سڑکیں‘ انڈر پاسز اور پبلک ٹرانسپورٹ بنی‘ کراچی اور فاٹا کے حالات کیسے تھے؟ دہشت گردی اور لاءاینڈ آرڈر کی کیا پوزیشن تھی؟ کیا ہم نے ان دونوں سے پوچھا؟نواز شریف برا ہو گا لیکن یہ برا ہونے کے باوجود کچھ نہ کچھ کر رہا تھا‘

اسحاق ڈار بھی برے اور کرپٹ سہی لیکن انہوں نے معیشت کنٹرول کر رکھی تھی‘ ڈالر بھی 103 روپے کا تھا اور پٹرول اور گیس کی قیمتیں بھی کم تھیں لیکن آج اسحاق ڈار برے ہیں اور وہ لوگ جو ڈالر کو 126 روپے‘پٹرول کو100 روپے اور ڈیزل کو 119 روپے تک لے آئے وہ اچھے ہیں‘ شہباز شریف شوباز شریف ہی سہی لیکن یہ بارشوں میں بوٹ پہن کر پانی میں کھڑا ہو جاتا تھا‘ یہ پوری سرکاری مشینری کو پانی نکالنے پر لگا دیتا تھا‘ یہ برا ہے اور وہ لوگ جو 3جولائی کو سی ایم ہاﺅس میں بارش کو انجوائے کرتے رہے ‘

جو کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر کافی پیتے رہے ‘ وہ اچھے ہیں‘ ملک ریاض کی ہاﺅسنگ سکیموں میں کمال پارک جیسی ایک بھی گلی نہیں‘یہ اپنے رہائشیوں کو سیکورٹی‘ فائر بریگیڈ‘ سیوریج‘ لوڈ شیڈنگ سے پاک بجلی ‘ گیس‘ سکول‘ ہسپتال‘ شاپنگ سنٹر‘ پارک اور صاف پانی بھی دیتا ہے لیکن یہ پورے ملک میں چور مشہور ہے‘ میں اسے 25برسوں سے عدالتوں میں دھکے کھاتے دیکھ رہا ہوں اور وہ لوگ جنہوں نے چالیس برسوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی میں کوئی سرکاری سیکٹر ڈویلپ نہیں کیا

وہ تمام ایماندار ہیں ‘ یہ ہے ہماری اپر وچ‘ ہم لوگ کام نہ کرنے والوں کو کچھ نہیں کہتے لیکن ہم کام کرنے والوں کوعبرت کی نشانی بنا دیتے ہیں‘ ہم انہیں گالی بھی دیتے ہیں اور سزا بھی‘ یہ اپروچ ہماراپہلا المیہ ہے جبکہ ہمارا دوسرا المیہ ہم لوگ خود ہیں۔آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کیا حکومت ہمیں نشیبی علاقوں میں گھر بنانے سے نہیں روکتی اور کیا ہم سٹے آرڈر لے کر‘ رشوت دے کر گڑھوں میں گھر نہیں بنا لیتے ؟آپ جواب دیجئے کیا ہم سیوریج کےلئے ڈھلوان کا خیال رکھتے ہیں‘

کیا ہم اپنے گھر کا کوڑا گلی میں نہیں پھینکتے ‘کیا اپنا گھر دوسرے گھروں سے اونچا نہیں بناتے‘کیاہماری دہلیز اور ریمپ آدھی گلی تک نہیں جاتے‘کیا ہم گھر میں ہوا اور روشنی کا خیال رکھتے ہیں‘کیا گلیوں میں دکانیں نہیں بناتے‘کیا راستے میں گاڑیاں کھڑی نہیں کرتے‘کیا سنگل فیز پر تین تین اے سی نہیں چلاتے‘کیا موٹر لگا کر پورے محلے کی گیس نہیں کھینچتے‘کیا گندہ پانی نہیں پیتے‘ کیانائی کے گندے استرے سے شیو نہیں کراتے‘کیا ہسپتالوں اور گلیوں میں نہیں تھوکتے‘کیا دودھ میں جوہڑ کا پانی نہیں ملاتے‘

کیاگندے تیل میں کھانا پکا کرنہیں بیچتے‘ کیااندھا دھند چکنائی استعمال نہیں کرتے‘کیا ورزش اور واک سے پرہیز نہیں کرتے اورکیا تعویذوں سے کینسر کا علاج نہیں کراتے؟ہم وہ لوگ ہیں جو بچوں کو سکول نہیں بھجوائیں گے‘ ہمارے بچوں کے استاد سکول نہ آئیں توہم شکایت نہیں کریں گے‘ ہماراجمعدار کوڑا اٹھانے نہیں آتا تو ہم کبھی میونسپل کمیٹی کو نہیں بتائیں گے‘ ہسپتال میں ڈاکٹر یا نرس نہ ہو تو ہم کبھی ٹیلی فون کر کے اطلاع نہیں کریں گے‘ ٹھیکیدار گلی اور سڑک میں مٹیریل پورا نہ ڈالے تو ہم کبھی آواز نہیں اٹھائیں گے اور اگر ہماری وجہ سے ہماری گلی کی نالی بند ہو جائے تو ہم اسے کھولنے کی ”گستاخی“ بھی نہیں کریں گے‘

ہمیں وضو کا پانی اور سرکا خضاب بھی حکومت سے چاہیے لیکن ہم بدلے میں ریاست کو گالی کے سوا کچھ نہیں دیں گے‘ یہ 21 کروڑ لوگوں کا ملک ہے ‘ٹیکس صرف 14 لاکھ لوگ دیتے ہیں اور حکومتیں کشکول لے کر در در پھرتی ہیں‘ یہ قرضے لے کر سڑکیں بناتی ہیں اور بدلے میں گالی کھاتی ہیں‘ کیا کیا جائے؟ آخر ہونا کیا چاہیے؟ کیا حکومت سر پر کھڑے ہو کر سکول بنائے‘ پھر استاد تعینات کرے‘ پھر روزآ کر دیکھے کیا استاد آئے ہیں اور کیا یہ پڑھا رہے ہیں‘

حکومت طالب علموں کو بھی سکول لے کر آئے اور اگر خدانخواستہ امتحان میں پرچہ مشکل آ جائے توحکومت طالب علموں کو لوگوں کی گاڑیاں توڑنے کا موقع بھی دے‘ریاست آخر کیا کرے؟ عوام تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن انہیں ہنر سیکھنے سے کس نے روکا ہے‘ لوگ اگر بے ہنر ہوں گے تو انہیںروزگار کون دے گا؟ کیا حکومت 21 کروڑ لوگوں کو گھر بٹھا کر لاکھ لاکھ روپے تنخواہ دے دے ‘ کیا یہ گلیاں بناتی رہے اور لوگ انہیں توڑتے رہیں اور کیا حکومتیں کچھ کرنے کی جسارت میں گالیاں کھاتی رہیں‘

ہم عوام بھی جب تک اپنی ذمہ داری نہیں سمجھیں گے ہمارے مسئلے اس وقت تک حل نہیں ہوںگے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں ملک میں جب تک کمال پارک کے لوگ نہیں بدلتے‘ یہ جب تک اپنی گلی کو ”اون“ نہیں کرتے یہ گلیاں اس وقت تک گندے پانی میں ڈوبی رہیں گی‘ ہم جب تک خود کچھ نہیں کریں گے ہمارے حالات اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گے اور ہم جب تک کام کرنے والوں کو عزت نہیں دیں گے ملک میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘ یہ ملک اس وقت تک اسی طرح پھٹا پرانا رہے گا۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…