میری مشتاق احمد یوسفی صاحب سے صرف ایک ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات بھی فقط تین منٹ پر محیط تھی‘ وہ کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے‘ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں بیٹھا تھا‘ یوسفی صاحب کھانے کے بعد روانہ ہوئے‘ وہ میرے قریب پہنچے تو میں احتراماً کھڑا ہو گیا‘ وہ مسکرائے‘ میرے پاس رکے‘ ہاتھ ملایا اور گرم جوشی سے بولے ”آپ وہی ہیں ناں جو میں سمجھ رہا ہوں“ میں
نے عرض کیا ”جی سر! میرا بھی یہی خیال ہے“ وہ اپنے مخصوص شرمیلے انداز سے مسکرائے اور بولے ”آپ کی شخصیت بڑی بابرکت ہے‘ میں اکثر دیکھتا ہوں آپ کے پروگرام میں اچھے خاصے سلجھے ہوئے معزز لوگ آتے ہیں لیکن ان پر آپ کی برکت کا سایہ پڑتا ہے اور وہ پانچ سات منٹ میں ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو جاتے ہیں“ میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے عرض کیا ”سر پولیٹیکل ٹاک شوز دوزخ کی طرح ہوتے ہیں‘ ان میں ہر شخص اپنی اپنی آگ ساتھ لاتا ہے“ یوسفی صاحب نے قہقہہ لگایا اور سردھننا شروع کر دیا‘ میں نے عرض کیا ”سر اگر آپ کو پسند نہیں تو میں پروگرام کا سٹائل بدل لیتا ہوں“ وہ فوراً بولے ”نہیں‘ نہیں‘ ہرگز نہیں! آپ لوگوں کی وجہ سے اس خرپسند قوم کو اپنی خر نوازی سے واقفیت ہو رہی ہے“ فقرے کی چستی پر میرے منہ سے بے اختیار واہ واہ نکل گیا‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ”پوری دنیا میں پارلیمنٹ گدھوں کی منڈی ہوتی ہے لیکن ہم پہلی قوم ہیں جس نے انہیں گھوڑے قرار دے دیا“ ان کا اشارہ ہارس ٹریڈنگ کی طرف تھا۔ ”ہمیں یقین ہے آپ لوگوں کی مہربانی سے قوم بہت جلد ایک قدم اور آگے بڑھائے گی اور یہ اسمبلیوں کو اصطبل قرار دے دے گی“ میں ہنستا چلا گیا‘ وہ بولے ”میں بہت کم ٹی وی دیکھتا ہوں‘ میرے دوست میری اس عادت کو میری طویل العمری کی وجہ قرار دیتے ہیں“ میں نے عرض کیا ”آپ سیاست کو کیسا دیکھتے ہیں“ وہ فوراً بولے ”سیاست دیکھنے نہیں
بھگتنے والی چیز ہوتی ہے‘ میں بھی سب کے ساتھ بھگت رہا ہوں“ یوسفی صاحب نے اس کے ساتھ ہی میرے ساتھ دوبارہ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور اپنے مہمانوں کے ساتھ رخصت ہو گئے۔یہ میری ان کے ساتھ پہلی اور آخری ملاقات تھی‘ میرے جیسے عام شخص کےلئے ایک لیجنڈ سے اتنی ملاقات بھی کافی تھی۔یوسفی صاحب ہمارے استاد اور بزرگ شکیل عادل زادہ صاحب کے بہت قریب تھے‘ یہ دونوں ”واکنگ ڈسٹینس“ پر بھی رہتے تھے اور ایک دوسرے کے دائمی ملاقاتی بھی تھے‘
شکیل صاحب نے مجھے ایک آدھ مرتبہ ان سے ملاقات کی ترغیب بھی دی لیکن میں یوسفی صاحب کے فارمولے ”قاری اور لکھاری کے درمیان کتاب بھر کا فاصلہ رہنا چاہیے“ کی وجہ سے ان کے پاس نہ جا سکا‘ میں سمجھتا ہوں میرے جیسے لاکھوں کروڑوں عامیوں کےلئے اتنا کافی ہے ہم ”عہد یوسفی“ میں سانس لیتے رہے ہیں‘ ہم نے اپنی آنکھوں سے یوسفی صاحب جیسا عظیم ادیب دیکھا بھی‘ سنا بھی اور پڑھا بھی اور یہ خوشی بختی کم نہیں‘ یوسفی صاحب نے 97سال کی عمر پائی اور صرف چار کتابیں تحریر فرمائیں‘
وہ اپنی آخری کتاب ”شام شعر یاراں“ کو اون نہیں کرتے تھے‘ یہ کتاب ان کے صاحبزادے نے زبردستی شائع کرا دی تھی‘ وہ اس کتاب کو سب سٹینڈرڈ بھی سمجھتے تھے اور اس سے نالاں بھی تھے‘ احباب نے کتاب کی اشاعت کے بعد اس کے انگریزی ترجمے کا مشورہ دیا‘ آپ نے چڑ کر جواب دیا ”جناب ترجمہ بھی وہی کریں گے جنہوں نے یہ شائع فرمائی“ یوسفی صاحب نے چار سو صفحات پر محیط ایک سفر نامہ بھی تحریر فرمایا تھا‘ وہ اس سے بھی مطمئن نہیں تھے چنانچہ یہ ان کی حیات میں شائع نہ ہو سکا‘
یہ اب شائع ہوگا‘ سویرا 1950ءکی دہائی میں ملک کا مقبول ترین ادبی جریدہ تھا‘ یوسفی صاحب نے جوانی میں اس میں ایک طویل مضمون لکھا‘ جریدہ چھپ رہا تھا تو یوسفی صاحب کو محسوس ہوا مضمون معیاری نہیں چنانچہ انہوں نے جریدے کی تمام کاپیاں خرید کر ضائع کر دیں‘ ایک کاپی کسی ستم ظریف کے پاس رہ گئی‘ وہ اب یہ مضمون بھی شائع کر رہے ہیں‘ یوسفی صاحب پیشے کے لحاظ سے بینکار تھے‘وہ ملک کے تین بڑے بینکوں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے‘
بی سی سی آئی کے لندن میں مشیر بھی رہے‘ بہت سخت افسر تھے‘ مقدر کے مارے جس شخص نے بھی ان کی ماتحتی میں کام کیا وہ پوری زندگی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر انہیں بددعائیں دیتا رہا لیکن وہ دوست احباب‘ رشتے داروں اور مداحوں میں بالکل مختلف انسان تھے‘ عاجزی‘ رواداری اور شائستگی ان میں کوٹ کوٹ کربھری تھی‘ مطالعہ کثرت سے کرتے تھے‘ پوری زندگی کتابوں کے ڈھیر پر گزاری‘ پینٹنگز کے بھی شوقین تھے‘ اوریجنل پینٹنگ نہیں خرید سکتے تھے تو اس کا پرنٹ نکلوا لیتے تھے‘
لباس پوری زندگی صاف ‘ستھرا اور بے داغ پہنا‘ احباب نے انہیں ہمیشہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں دیکھا تاہم عمر کے آخری حصے میں شلوار قمیض پہنتے رہے‘ ملاقاتوں اور انٹرویوز سے پرہیز کرتے تھے‘ کھانے پینے کے بالکل شوقین نہیں تھے لیکن ان کی بیگم صاحبہ بہت اچھا کھانا بناتی تھیں‘ محور کے نام سے چھوٹا سا گروپ بنا رکھا تھا‘ گروپ کے تحت ہر مہینے گھر پر شعری نشست کا اہتمام کرتے تھے‘ نشست کےلئے کھانا بیگم صاحبہ تیار کرتی تھیں‘ محور میں ایک بار رضا چغتائی کو بلا لیا‘
شرکاءشعر سن سن کر بور ہو گئے‘ شکیل عادل زادہ صاحب بار بار کان پکڑ کر رضا چغتائی کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے لیکن وہ آنکھیں بند کر کے مسلسل پڑھتے رہے‘ نشست کے آخر میں شکیل صاحب نے یوسفی صاحب سے پوچھا ”آپ کو شاعر کیسے لگے“ یوسفی صاحب نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا ”بھائی مشکل سے مشکل شاعر بھی ایک آدھ گھنٹے میں کھل کر آ جاتا ہے“ لکھنے میں بہت محتاط تھے‘ پوری کتاب لکھ کر پانچ سات سال کےلئے رکھ دیتے تھے‘ آپ اسے پال کہتے تھے‘
کتاب کو پال کے بعد دوبارہ نکال کر پڑھتے تھے‘ اگر پسند آ جاتی تھی تو شائع کرا دیتے ورنہ ضائع کر دیتے‘ کتاب کے ہر ایڈیشن سے پہلے پرانے ایڈیشن کی غلطیاں ٹھیک کرتے تھے‘ لسانیات کے ماہر نہیں تھے لیکن زبان کا بہت خیال رکھتے تھے‘ بینک کی نوکری کی وجہ سے خوش حال زندگی گزاری‘ واک میں ریگولر تھے‘ صبح کے وقت کراچی سی ویو پر واک کرتے تھے‘ سیاسی ادراک تھا لیکن سیاست پر گفتگو نہیں کرتے تھے‘ آخر میں یادداشت پر اثر پڑا‘ کتاب پر آٹو گراف دیتے وقت تاریخ اور سن غلط لکھ دیتے تھے‘
باتیں اور چہرے بھی بھول جاتے تھے لیکن فقرے انتقال تک شاندار تخلیق کرتے رہے‘ زندگی کے آخری حصے میں اپنے ہر جاننے والے کو فارسی زبان کا ایک محاورہ سنا کر کہتے تھے ”بڑھاپا اچھا گزارنا ہو تو کم گفتگو کرو‘ کم کھاﺅ اور کم سوﺅ“ وہ خود بھی اس اصول پر کاربند رہے‘ بہت کم سوتے تھے‘ بہت کم کھاتے تھے اور بہت ہی کم بولتے تھے‘ عام زندگی میں بھی کمال فقرے باز تھے‘ ایک خاتون ملاقات کےلئے آئی‘ ذرا سا فری ہو کر بولی ”یوسفی صاحب آپ نے کبھی عشق کیا“
قہقہہ لگا کر جواب دیا ”بی بی آپ تو ابھی ٹھیک سے بیٹھی بھی نہیں ہیں اور یہ مطالبہ“ کسی نے غالب کا مصرعہ سنا دیا ”قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں“ فوراً تصحیح فرمائی ”قید حیات و بنت عم اصل میں دونوں ایک ہیں“ کسی صاحب نے کم آمیزی کا شکوہ کیا اور کہا ”آپ باہر آتے جاتے نہیں ہیں“ فرمایا ”بھائی انسان اس وقت تک کلچرڈ نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی ہی کمپنی کو انجوائے کرنا نہ سیکھ لے“۔دنیا مشتاق احمد یوسفی صاحب کو اردو کا سب سے بڑا مزاح نگار سمجھتی ہے
لیکن میں انہیں آج کے دور کا سب سے بڑا پاکستانی فلاسفر سمجھتا ہوں‘ وہ مزاح ہی مزاح میں ایسی خوفناک اور سنجیدہ حقیقت بیان کر دیتے تھے جو انسان کو اندر سے ہلا دیتی تھی مثلاً ایک بار فرمایا ”اسلام آباد در حقیقت جنت کا نمونہ ہے‘ یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم ؑ کی طرح نکالا جاتا ہے“ مثلاً ”موسم‘ معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے“ مثلاً ”مرد پہلے بحث کرتے ہیں‘ پھر لڑتے ہیں‘ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور پھر بحث کرتی ہیں“
مثلاً ”ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگ خونی پیچش کاعلاج بھی تعویز گنڈوں سے کرتے ہیں‘ ہمیں اس علاج پر غصہ نہیں آتا‘ غصہ اس بات پر آتا ہے یہ لوگ واقعی اچھے بھی ہو جاتے ہیں“ مثلاً ”جو لوگ اپنا ماضی یاد نہیں رکھنا چاہتے وہ یقینا لوفر رہے ہوں گے“ مثلاً ”حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اور گالی پر قابو پالے وہ یا تو ولی اللہ ہوتا ہے یا پھر وہ خود ہی حالات حاضرہ کا ذمہ دار ہوتا ہے“ مثلاً”میرا تعلق اس بھولی بھالی نسل سے ہے جو خلوص دل سے سمجھتی تھی بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں“
مثلاً ”فرضی بیماریوں کےلئے یونانی دوائیں تیر بہ ہدف ہوتی ہیں“ مثلاً ”خون‘ مشک‘ عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی“ مثلاً ”آسمان کی چیل‘ چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے‘ یہ انسان کو ننگا کر کے چھوڑتے ہیں“ مثلاً ”جس دن بچے کی جیب سے فضول چیزوں کی بجائے پیسے برآمد ہوں اس دن سمجھ لینا چاہیے اسے اب کبھی بے فکری کی نیند نصیب نہیں ہو گی“ مثلاً ”آپ راشی‘ زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق‘ ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیونکہ یہ نخوت‘ سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ کرہی نہیں سکتے“
مثلاً ”فقیر کےلئے آنکھیں نہ ہونا بڑی نعمت ہوتی ہے“ مثلاً ”مرض کا نام معلوم ہو جائے تو تکلیف دور نہیں ہوتی لیکن الجھن ضرور دور ہو جاتی ہے“ اور مثلاً ”امریکا کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں“۔آپ یہ فقرے پڑھئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے کیا یہ فقرے صرف مزاح ہیں؟ جی نہیں! یہ فلاسفی ہیں‘ ایک ایسی فلاسفی جس کی کوکھ سے لاکھوں حقیقتیں جنم لیتی ہیں اور مشتاق احمد یوسفی ان حقیقتوں کے موجد ہیں‘ یہ یوسفی صاحب کا اصل عہد یوسفی ہے اور یہ عہد یوسفی کبھی ختم نہیں ہوگا‘ یہ ہمیشہ زندہ رہے گا خواہ ہم رہیں یا نہ رہیں۔