”کیوں پھر تھک گئے“ ایک ٹھنڈی اور میٹھی آواز نے میری سماعت پر دستک دی‘ میں نے ہڑ بڑا کر آنکھیں کھولیں‘ وہ سرخ و سپید بوڑھا میری طرف دیکھ رہا تھا‘ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی مٹھاس‘ ایک انوکھا سا رچاؤ تھا۔ ”ہاں“ میں نے ٹھنڈا سانس بھرا اور ٹانگیں پھیلادیں‘ سامنے راول جھیل پر شام اتر رہی تھی‘ پانی کے کنارے آباد جنگلوں میں جاتی بہار کی ہوا خوشبو سمیٹ رہی تھی‘ بادبانی کشتیاں پھولوں پر لہراتی تتلیوں کی طرح
پانی پر ہولے ہولے دھیرے دھیرے ڈول رہی تھی اور جھیل پر جھکے پہاڑوں کا عکس رنگ بدل رہا تھا‘ بوڑھے نے اپنا شفیق ہاتھ میرے کندھے پر رکھااور پوچھا”کیوں“ میں نے اپنا ہاتھ اس کے خنک ہاتھ پررکھ دیا۔ اس کے ہاتھ کی نسوں میں خون کیچوے کی طرح سرک رہا تھا‘میں نے آہستہ آواز میں جواب دیا ”طبیعت ٹھیک نہیں‘ ایک ڈپریشن ہے جو تنور میں جلتی لکڑیو ں کا دھواں بن کر معدے سے اٹھتا ہے اورسیدھادماغ کی چوٹی پر جا ٹھہرتا ہے‘اندر میرے اندر ایک غبار‘ ایک آگ ہے‘ ایک لاوا ہے جوباہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے“۔ مجھے اپنی آواز اجنبی محسوس ہوئی‘ میں نے ٹانگیں سمیٹیں‘ آنکھیں بند کیں اور گردن پر ہاتھ رکھ کر پیچھے جھک گیا‘ بوڑھے نے میرے کندھے سے ہاتھ اٹھا لیا‘ مجھے محسوس ہوا جلتے صحرا میں برگد کا ایک درخت تھا جو میرے وجود سے جدا ہو گیا‘ میں نے پریشان ہو کر آنکھیں کھول دیں‘ بوڑھا ٹھوڑی چٹکی میں دبائے جھیل کی وسعت میں گم تھا‘ وہ مجھے اپنی طرف متو جہ پاکر مسکرایا اور اپنے ساتھ بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کرکے بولا ”یہ میرا چھوٹا بھائی احمد ہے‘ اس کے ساتھ ہم دونوں کا چھوٹا بھائی احسن بیٹھا ہے“ میں نے آگے جھک کر دیکھا‘ واقعی بینچ پر میرے بعد وہ بوڑھاتھا‘ اس کے ساتھ اس سے ملتا جلتا ایک اور بوڑھاتھا اور آخر میں ان دونوں سے نسبتاً کم بوڑھا سیاہ چشمہ لگا کر جھیل کو گھور رہا تھا‘ وہ تینوں ایک ہی سانچے سے بنے بوڑھے تھے‘ سرخ و سپید رنگت‘ مہندی رنگ کے بال‘ ٹائی اور کوٹ میں ملبوس دھلے دھلائے سے‘ میں نے چہرہ سیدھا کیا اور ان تینوں کی طرح اپنی نظریں جھیل پر جمادیں۔
”ہاں تو میں بتا رہا تھا‘ یہ دونوں میرے بھائی ہیں‘ ہم اپنے والدین کے تین ہی بچے تھے‘ میں‘ احمد اور احسن۔ ہم تینوں پیدائشی معذور ہیں‘ قدرت نے جب مجھے بنایا تو وہ میری ٹانگیں بنانا بھول گئی“ میں نے ہڑبڑا کر بوڑھے کی طرف دیکھا‘واقعی رانوں سے نیچے اس کی ٹانگیں غائب تھیں۔ ”احمد پیدا ہوا تو اس کے بازو نہیں تھے جبکہ احسن بصارت کی نعمت سے محروم پیدا ہوا“ بوڑھا اس رواں اور میٹھے لہجے میں بولتا چلا گیا‘ میں نے گھبرا کر اس سے آگے دیکھا‘
اس کے ساتھ بیٹھے بوڑھے کے کوٹ کے بازو پھٹے ہوئے جھنڈے کی طرح لٹک رہے تھے اور کونے میں بیٹھا بوڑھا سیاہ شیشے کی اوٹ سے ذات کی تاریکیاں ماپ رہا تھا۔ میں نے افسوس سے ٹھنڈا سانس بھرا‘ بوڑھے نے اپنا شفیق ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ ”ہمارے والدین فوت گئے‘ ہمارے لئے زمین جائیداد چھوڑ گئے‘ ہم نے شادی نہیں کی‘ میں اس وقت 80 سال کا ہوں‘ احمد 78اور احسن 76سال کا ہو چکا ہے۔ ہم مہینے میں ایک دن یہاں آتے ہیں‘ ایک دو گھنٹے یہاں بیٹھتے ہیں اور پھر ہمارا ڈرائیور ہمیں دوبارہ گھر لے جاتا ہے‘
ہم نے پوری زندگی اس معمول میں گزار دی لیکن کبھی ہمارے معدے میں لکڑیاں جلیں اور نہ ہی ان کا دھواں ہمارے دماغ تک پہنچا‘ احسن نے‘ احمد نے اور میں نے کبھی اپنے رب سے شکوہ نہیں کیا‘ ہم نے کبھی اس سے نہیں پوچھا‘ اے پروردگار! ہمارا کیا قصور تھا‘ ہمیں کس جرم‘ کس گناہ کی سزا دی گئی اور ایک تم ہو“ بوڑھا ہنسا‘ اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے سے اٹھا لیا ”اور ایک تم ہو‘ اپنے قدموں پر چلتے ہو‘ تم نے ذرا دیر پہلے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا‘
تم نے میری نسوں میں سرکتے لہو کی سرسراہٹ محسوس کی تھی‘ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو‘ میں بڑی دیر سے دیکھ رہا ہوں‘ تم بار بار پانی میں پہاڑوں کا عکس دیکھتے ہو‘ تم سامنے بادبانی کشتیوں کے بادبان بھی دیکھتے ہو‘ تم نے ذرا دیر پہلے جنگلوں میں بڑھتی پھیلتی تاریکی کا مشاہدہ بھی کیا تھا‘ دیکھو میرا وہ بھائی“ بوڑھے نے انگلی سے بنچ کے سرے پر بیٹھے بوڑھے کی طرف اشارہ کیا ”میرا وہ بھائی شام کی بڑھتی تاریکی دیکھ سکتا ہے‘ نہ جنگل‘ نہ بادبان‘ نہ کشتیاں اور نہ ہی رنگ بدلتے عکس‘
اس کی زندگی کا صرف ایک ہی رنگ ہے گہرا سیاہ‘ تاریک اور کالا رنگ اور وہ میرا دوسرا بھائی“ اس نے دوسرے بوڑھے کی طرف اشارہ کیا‘ بوڑھے نے چمکتی آنکھوں سے میری طرف دیکھا ”وہ چھونے کی لذت سے محروم ہے‘ اسے معلوم ہی نہیں ہاتھ جب ہاتھوں کو چھوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے‘ جب کوئی کسی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھتا ہے تو ہاتھ کیا محسوس کرتا ہے اور پیشانی کیا کیا محسوس کرتی ہے اور رہا میں“ بوڑھے نے اپنی ادھوری رانوں پر ہاتھ پھیرا۔
”ہاں رہا میں تو میں وہ بدقسمت شخص ہوں جسے معلوم ہی نہیں قدم کیا ہوتے ہیں‘ مسافتیں کیا ہوتی ہیں‘ فاصلے کسے کہتے ہیں‘ وہ جو بولتے تھے دس ہزار کلومیٹر لمبے سفر کا آغاز ایک قدم سے ہوتا ہے وہ سچ کہتے ہوں گے لیکن میرے سفر کا تو آغاز ہی نہیں ہو سکتا میرے تو پاؤں ہی نہیں ہیں“ بوڑھا سانس لینے کے لئے رکا۔میں نے لمبا سانس لے کرپھیپھڑوں میں تازہ ہوا بھری‘ بوڑھا پھر گویا ہوا ”ڈپریشن تو ہمیں ہونا چاہیے، ہم ادھورے لوگوں کو جو تین مل کر بھی پورا ایک نہیں ہو سکتے تم پر تو خدا کا کرم ہے،
تمہارے پاس تو ہاتھ ہیں‘ آنکھیں ہیں اور پاؤں ہیں‘ تم صحت مند ہو، جوان ہو‘ با صلاحیت اور ذہین بھی دکھائی دیتے ہو‘ قدرت نے تمہارے جسم‘ تمہارے وجود میں کوئی کمی‘ کوئی خامی نہیں چھوڑی لہٰذا پھر مجھے تمہاری مایوسی‘ ڈپریشن اور خود ترسی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی“ میں نے کسمسا کر جواب دیا ”میں کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن حالات‘ وقت اور نظام موقع نہیں دے رہا“ بوڑھے نے قہقہہ لگایا‘ ہاتھوں پر ہاتھ ملے اور اسی میٹھی آواز میں بولا ”بس یہ مسئلہ ہے‘ لو پھر میں تمہیں ایک نسخہ بتاتا ہوں‘
اس پرعمل کرو‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مایوسی سے نکل جاؤ گے‘ میرے بچے چپ سے بڑی آواز اور خاموشی سے بڑا کوئی احتجاج نہیں ہوتا‘ جب ساری آوازیں بے اثر ہو جائیں اور سارے احتجاج بے معنی ہوکررہ جائیں تو چپ سادھ لیا کرو‘ خاموش ہو جایا کرو‘ لوگ جب خاموش ہو جاتے ہیں تو پھر قدرت کی آواز بلند ہوتی ہے‘ تم خاموش ہو کر‘ تم چپ سادھ کر قدرت کی آواز کا انتظار کیا کرو‘تم تک قدرت کی آواز ضرور پہنچے گی“ بوڑھا خاموش ہوا‘ اس نے گردن ہلائی اور سرگوشی میں بولا ”چپ سے بڑی بددعا بھی کوئی نہیں‘
تم چپ کی بددعا دے کر اپنا حساب اللہ پر چھوڑ دیاکرو‘ پر سکون ہو جاؤ گے‘ مطمئن ہوجاؤ گے“۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا‘ اس کا ہاتھ‘ ہاتھ میں لیا‘ اسے بوسا دیا اور اٹھ کر جانے لگا‘ وہ مسکرایا اور بولا ”اور ہاں یاد رکھو‘ شکوے سے پہلے شکر کو اپنی عادت بنا لو‘ تم کبھی خسارے میں نہیں رہو گے“۔