ہم سب بچپن سے دیکھ رہے ہیں ملک میں جب بھی اذان کا وقت ہوتا ہے تو تمام مساجد کے لاؤڈ سپیکر ایک کے بعد ایک ”آن“ ہو جاتے ہیں اور دس‘ پندرہ‘ بیس منٹ تک اذانوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے‘ ایک مسجد کی اذان ختم ہوتی ہے تو دوسری مسجد سے اذان شروع ہو جاتی ہے‘ وہاں ختم ہوتی ہے تو تیسری مسجد کا سپیکر آن ہو جاتا ہے‘ یہ تمام مساجد ایک دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتی ہیں چنانچہ اس ایک دو کلومیٹر میں بیٹھے شخص کی سرگرمیاں
قریباً معطل ہو کر رہ جاتی ہیں‘ گفتگو کرنے والے خاموش ہو جاتے ہیں‘ خریداری کرنے والے خریداری بند کر دیتے ہیں اور پڑھائی کرنے والے پڑھائی روک دیتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ صدر ایوب خان سے لے کر میاں نواز شریف تک ملک کی زیادہ تر حکومتوں نے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکیں لیکن مصر نے یہ ایشو 2010ء میں ہمیشہ کیلئے ”فکس“ کر دیا تھا‘ کیسے؟ ہم ذرا سی دیر کیلئے آٹھ سال پیچھے جائیں گے۔ قاہرہ شہر میں چار ہزار مساجد ہیں‘ ان مساجد میں دن میں پانچ بار اذانیں ہوتی ہیں اور اس وجہ سے شہر میں بعض اوقات ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے نوجوان اپنے علمائے کرام کی طرف حیرت سے دیکھنے لگتے تھے‘ مصری علماء نے طویل غور و فکر کے بعد اس کا بڑا دلچسپ حل نکالا‘ انہوں نے قاہرہ میں ”متحدہ اذان“ کا فارمولا طے کر لیا‘ یہ فارمولا گیارہ اگست 2010ء رمضان کے پہلے دن سے قاہرہ شہر میں نافذ ہو گیا‘ اس دن شہر کی تمام مساجد سے لاؤڈ سپیکر اتار دئیے گئے اور ساری مسجدوں کیلئے ایک ہی وقت میں اذان شروع ہوگئی‘ یہ ”متحدہ اذان“ ریڈیو سے بھی نشر ہونے لگی‘ علمائے کرام نے متحدہ اذان کیلئے خصوصی ریسیور تیار کروائے ہیں‘ یہ ریسیور ایک سو اسی مصری پاؤنڈز سے بازار سے خریدے جا سکتے ہیں‘ لوگ یہ ریسیور اپنے گھروں‘ دکانوں‘ گاڑیوں اور ٹیکسیوں میں لگا دیتے ہیں‘ یہ ریسیور اذان کے وقت خود بخود آن ہو
جاتے ہیں اور یوں ریڈیو سے نشر ہوتی ہوئی اذان کی آواز ریسیور کے مالکان تک پہنچ جاتی ہے‘ یہ بندوبست شروع میں صرف قاہرہ شہر تک محدود رہا لیکن پھر یہ اگلے رمضان سے آہستہ آہستہ دوسرے شہروں تک وسیع ہوتا چلا گیا یوں تمام شہروں میں متحدہ اذان شروع ہو گئی جس سے نماز کے اوقات میں بھی ایک نظم و ضبط پیدا ہو گیا اور لاؤڈ سپیکر کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل بھی ختم ہو گئے‘ علمائے کرام کے اس ”اینی شیٹو“ کے دو بڑے فائدے ہوئے‘
ایک‘ دینی طبقے اور جدید ذہن کے درمیان فاصلہ کم ہوگیا اورآج کا ”آئی فون مائینڈ“ علمائے کرام کی ذہانت اور اتحاد سے متاثر ہوگیا یوں لبرل اور دینی طبقے کے درمیان موجود خلیج کم ہو گئی۔ دو‘ مصری معاشرے میں یہ تاثر بھی ابھرا کہ دینی طبقے میں بھی لچک موجود ہے‘ یہ لوگ بھی عام لوگوں کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور یہ ان مسائل کو حل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام بھی مصری علمائے کرام کی طرح اجتہاد کر سکتے ہیں‘ یہ بھی ایسے مسائل کا کوئی جدید حل تجویز کر سکتے ہیں‘
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا لاؤڈ سپیکر‘ عید کا چاند اور متنازعہ بیانات تین ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج کا ذہن ہمارے دینی طبقے سے دور ہو رہا ہے‘ شہر کی مساجد میں ہائی پاور سپیکر کی وجہ سے شہری زندگی بہرحال متاثر ہوتی ہے‘ اس سے طالب علم‘ بیمار اور زندگی کے دوسرے تقاضوں میں مصروف لوگ متاثر ہوتے ہیں‘ ہماری مساجد میں بعض اوقات بیک وقت اذان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے اذان کے الفاظ اور آوازیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں اور یہ صوتی اور تقدس دونوں لحاظ سے اچھی صورتحال نہیں ہوتی۔
دوسرا‘ ایک کے بعد دوسری مسجد اور دوسری کے بعد تیسری مسجد سے اذان شروع ہو جاتی ہے چنانچہ لوگ اذان کے احترام میں کام کاج اور بات چیت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آج کے لوگ اس صورتحال پر بار بار علمائے کرام کی طرف دیکھتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں ہم اگر ایک شہر میں‘ ایک وقت میں‘ ایک اذان پر متفق نہیں ہو سکتے تو ہم پورے اسلام پر کیسے متفق ہوں گے؟۔ ہم رمضان اور عید کے تعین پر بھی ہر سال پوری دنیا میں مذاق بن جاتے ہیں‘
ہمارے ملک میں اکیسویں صدی میں تین تین عیدیں ہوتی ہیں‘ہم نے اس سال بھی دو عیدیں منائیں‘ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک تھا جس میں جمعہ 15جون کو عید نہیں تھی‘ بھارت کے مسلمانوں نے بھی ہماری تقلید کی جبکہ ہمارے ہمسائے افغانستان‘ ایران‘ ترکی اور تاجکستان تک میں جمعہ کو عید تھی‘ لوگ اس مسئلے پر بھی علمائے کرام کی طرف دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں وہ علماء جو چاند کا فیصلہ نہیں کر سکتے وہ زندگی کے باقی معاملات میں ہماری کیا رہنمائی کریں گے اور تیسرا ہم نے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے آج کا ذہن اس پر بھی پریشان ہے‘
ہمارے نوجوان ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ہم کس اسلام پر عمل کریں کیونکہ ہر دوسرے فرقے کا کوئی نہ کوئی عالم کسی نہ کسی شخص کو کافر قرار دے رہا ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا ہمارے مذہبی طبقات اعتراضات کو اختلافات اور اختلافات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیتے ہیں لہٰذا اس کا نتیجہ داتا دربار‘ امام بارگاہوں‘ مساجد اور قبرستانوں میں خود کش حملوں کی شکل میں نکل رہا ہے‘ ان خود کش حملوں سے جہاں انسانی جانوں کا نقصان ہو تا ہے وہاں پوری دنیا میں اسلام بھی بدنام ہوتا ہے‘
میں ہر گز عالم دین نہیں ہوں‘ اسلام کی تشریح اور اجتہاد کا فیصلہ بہرحال ہمارے علمائے کرام نے ہی کرنا ہے‘ کیا پورے شہر یا پورے ملک میں ایک وقت میں اذان دی جا سکتی ہے‘ پورے ملک میں ایک ہی دن رمضان اور عید کس طرح ممکن ہے اور ہم مختلف فرقوں کے درمیان نفرت کو کس طرح کنٹرول کر سکتے ہیں؟ یہ سارے فیصلے بھی ہمارے علمائے کرام نے ہی کرنے ہیں اور ان تبدیلیوں کی اسلام میں کس قدر گنجائش موجود ہے اس کا فیصلہ بھی علمائے کرام ہی کریں گے لیکن جہاں تک ہم عام لوگوں کا معاملہ ہے ہم لوگ اپنے علمائے کرام سے پوچھنا چاہتے ہیں اگر مصر کے علماء ”متحدہ اذان“ کا ”اینی شیٹو“ لے کر اجتہاد کا دروازہ کھول سکتے ہیں تو ہم یہ کیوں نہیں کر سکتے‘
ہم گناہ گاروں کے ذہن میں بار بار یہ سوال بھی آتا ہے پاکستان میں ہر سال رمضان اور عیدپر کنفیوژن کیوں شروع ہوجاتی ہے‘ پوری دنیا کے لوگ ہم پر کیوں ہنستے ہیں‘آج کے دور میں جب سائنس نے مریخ سے لے کر چاند تک دنیا کی تمام بڑی”مسٹریز“ حل کر لی ہیں‘ جب مریخ پر گاڑیاں تک پہنچائی جا چکی ہیں اور جب یہ ریسرچ ہو رہی ہے مریخ کے کس کس حصے میں پانی موجود تھا‘ ہم اس دور میں رمضان المبارک کے چاند کے لیے ایک دوسرے سے کیوں لڑتے ہیں؟۔
آپ سائنس کا کمال ملاحظہ کیجئے‘ناسا نے کچھ عرصہ پہلے چاند پر دو راکٹ داغے تھے‘پہلے راکٹ کے بعد چاند کے ایک گڑھے سے مٹی اڑی‘ دوسرے راکٹ نے اس مٹی کا تجزیہ کیا اور ناسا کے ماہرین کو بتایا چاند کی زمین میں پانچ فیصد کے حساب سے پانی موجود ہے‘اسی تجربے کے دوران پتہ چلا چاند پر 155 کلوگرام پانی کے بخارات اڑے تھے جن سے حساب لگایاگیا چاند کی ایک ٹن مٹی سے گیارہ سے بارہ گیلن پانی حاصل کیا جا سکتا ہے‘اس تجربے کے بعد چاند پر زندگی کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں‘
جاپان کے سائنسدانوں نے اس سے بھی بڑا کمال کر دیا‘ایک جاپانی ادارے شیروزکارپوریشن نے چاند سے ایک لاکھ تیس ہزار ٹیٹرا واٹ بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ بنا لیا‘یہ بجلی مائیکرو ویو کے ذریعے زمین پر لائی جائے گی اور یہ آدھی دنیا کی ضرورت پوری کرے گی‘ دنیا یہاں تک پہنچ چکی ہے لیکن ہم لوگ ابھی تک رمضان کا چاند تلاش کر رہے ہیں‘ آج کے سائنسی دور میں آپ دس ہزار سال پیچھے جا کر چاند کی پوزیشن کا اندازہ کر سکتے ہیں اور آپ مستقبل میں سن 4011ء تک چاند کی حرکات و سکنات اور اینگلز کا تخمینہ لگا سکتے ہیں‘
اس وقت بھی چاند کی زیادہ تر پوزیشنز انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں‘آپ تھوڑی سی محنت سے اپنی لوکیشن اور اس لوکیشن پر چاند کی پوزیشن معلوم کر سکتے ہیں‘پاکستان کی قریباً تمام یونیورسٹیز میں ریاضی اور فلکیات کے شعبے موجود ہیں‘یہ شعبے بھی علمائے کرام کے ساتھ مل کر چاند کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کر سکتے ہیں لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے‘اس چھوٹے سے کام کیلئے بھی ہمارے علمائے کرام‘ سائنس دانوں اور حکومت کے پاس وقت نہیں چنانچہ ہر سال لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا رمضان بھی خراب ہوتا ہے اور عید بھی‘آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو یہ سلسلہ صدر ایوب خان کے دور میں شروع ہوا تھا‘
صدر ایوب خان کے دور میں ایک بار عید جمعے کے روز ہو رہی تھی‘اچانک رات کسی نے صدر صاحب کو یہ بتا دیا اگر کل دو خطبے ہو گئے تو آپ کا اقتدار زوال پذیر ہو جائے گا‘صدر ایوب خان نے عید رکوانے کا حکم دے دیا اور یوں رات بارہ بجے اگلے دن روزہ رکھنے کا اعلان کر دیا گیااور اس اعلان کے ساتھ ہی یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔یہ حالات کبھی عیسائی دنیا میں بھی ہوتے تھے‘یورپ کے مختلف ممالک میں کرسمس مختلف دنوں میں منائی جاتی تھی لیکن پھر ویٹی کن سٹی نے اینی شیٹو لیا‘
پوپ نے 25 دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن ڈکلیئر کر دیااور اس کے بعد پوری عیسائی دنیا میں کسی جگہ کوئی کنفیوژن دکھائی نہیں دیا‘ہمارے موجودہ کیلنڈر کو بھی آپ دیکھ لیجئے‘یہ کیلنڈر پوپ دیت گوئی نے 1582ء میں طے کیا تھااور اسے عیسائی دنیا اور اس کے بعد پوری دنیا نے تسلیم کر لیا‘ ہمارے علماء کرام ایسا اینی شیٹو کیوں نہیں لیتے؟یہ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں‘اسلام میں سحری اور افطار کے لیے نشانیاں دیکھنے یعنی روشنی کی لکیر اورافق کی لالی کے مشاہدے کا حکم ہے لیکن ہم میں سے کوئی شخص یہ نشانیاں نہیں دیکھتا‘
ہم سحر اور افطار کے لیے سائرن اور اذان پر اکتفا کرتے ہیں‘تمام نمازوں کے لیے بھی نشانیاں طے ہیں لیکن ہم نماز پڑھنے کے لیے ہمیشہ کیلنڈر اور طے شدہ اوقات کا سہارا لیتے ہیں‘ہم اگر نمازوں اور سحرو افطار کے لیے سائنس کی مدد لے رہے ہیں تو پھر ہم چاند دیکھنے کے لیے جدید ترین سائنس کی مدد کیوں نہیں لیتے‘ ہم ہر رمضان پر پوری دنیا کو اپنا مذاق اڑانے کا موقع کیوں دیتے ہیں‘ہم کب تک چاند تلاش کرتے رہیں گے؟۔