دنیا کی تاریخ شیان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی‘ شاہراہ ریشم شیان سے شروع ہوتی تھی‘ شیان کی مسلم سٹریٹ ہزار سال سے دنیا بھر کے سیاحوں کو حیران کر رہی ہے اور آخر میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ٹیرا کوٹا وارئیرز‘ دیوار چین کا ایک بڑا حصہ بھی شیان میں تھا‘ یہ آثار بھی دیکھنے والوں کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلا دیتے ہیں چنانچہ شیان طویل عرصے سے میری ”وش لسٹ“ میں شامل تھا۔میں نے 24مئی کی صبح لہاسا سے شیان کی فلائیٹ لی‘
دو بجے شیان ائیرپورٹ اترا‘ شیان ایک طویل و عریض شہر ہے‘ آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ ہے‘فضا میں ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں زمانے سانس لیتے ہیں‘ محل وقوع اسلام آباد سے ملتا جلتا ہے‘ تین اطراف سرسبز پہاڑ ہیں‘ شہر کے مضافات میں باغ‘ جھیلیں اور دریا ہیں‘ باغ شہر کے اندر تک آ جاتے ہیں‘ سڑکیں کھلی‘ گلیاں صاف اور فضا معطر ہے‘ لوگ مطمئن اور خوش حال ہیں‘ ڈاﺅن ٹاﺅن یورپ اور امریکا کے بڑے شہروں سے ملتا جلتا ہے‘ شہر میں بس سروس بھی ہے اور زیرزمین ٹرین سسٹم بھی‘ یہ دونوں لاجواب اور جدید ہیں‘ ہمارے پورے ملک میں شیان ائیرپورٹ جیسا ائیرپورٹ نہیں‘ میں اپنا بیگ اٹھانے کےلئے کنویئر بیلٹ کے پاس رکا تو میں نے دیکھا تاحد نظر کنویئر بیلٹس تھیں اور دو تین ہزار لوگ ان سے اپنا سامان اٹھا رہے تھے‘ میں ائیرپورٹ سے باہر نکلا تو میرے پاس وقت کم تھا‘ ٹیرا کوٹا میوزیم پانچ بجے بند ہو جاتا ہے اور یہ ائیرپورٹ سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا‘ میں نے فوراً ٹیکسی تلاش کی‘ اسے منہ مانگی رقم دی اور ٹیرا کوٹا میوزیم کی طرف دوڑ پڑا‘ شہر کے اندر ہائی ویز‘ فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا جال بچھا تھا‘ پورا شہر رنگ روڈز کی آغوش میں بھی تھا‘ میں یہ جدید شہر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچ رہا تھا کیا ٹیرا کوٹا بنانے والے چینی بادشاہ نے سوچا تھا یہ شہر کبھی اتنا جدید‘ اتنا ماڈرن ہو جائے گا‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ شیان کن شی ہونگ کا شہر تھا‘ کن شی 210
قبل مسیح میں شیان کا حکمران تھا‘ یہ چین کا پہلا باقاعدہ بادشاہ تھا‘ بادشاہ کن کو کسی نے بتا دیا انسان کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے‘ دنیاوی زندگی اورآخری زندگی‘ وہ دنیاوی زندگی میں بادشاہ تھا‘ اس نے سوچا اسے آخری زندگی میں بھی بادشاہ ہونا چاہیے چنانچہ اس نے مجسمہ ساز اکٹھے کئے اور اپنے آٹھ ہزار محافظ فوجیوں‘ 130گھوڑا گاڑیوں‘ 520 گھوڑوں اور اپنے تمام وزیروں اور مشیروں کے مٹی کے مجسمے بنوانا شروع کردیئے‘ یہ مجسمے شاہی محل کے صحن میں سونے اور چاندی کی کانوں کے قریب بنائے جا رہے تھے‘
مجسمہ سازی کے اس کام پر سات لاکھ لوگ لگائے گئے‘ ہر مجسمہ دوسرے مجسمے سے خدوخال‘ رنگ‘ قد اور وزن میں مختلف تھا‘ بادشاہ نے گھوڑ سوار دستے کے گھوڑوں کے مجسمے بھی بنوائے‘ مجسمے جب مکمل ہو گئے تو بادشاہ نے یہ تمام مجسمے ہتھیاروں‘ چارے اور خوراک کے ساتھ زمین میں دفن کرا دیئے‘ ان کے ساتھ بادشاہ کا اپنا مجسمہ بھی تھا‘ بادشاہ نے سائیٹ کے قریب اپنا مقبرہ بھی تعمیر کرا دیا‘ بادشاہ کا انتقال ہوا‘ وہ مقبرے میں دفن ہوا اور پھر وقت آہستہ آہستہ مقبرے اور ٹیرا کوٹا مجسموں کے اوپر خاک ڈالتا چلا گیا‘ یہ سب زمین برد ہو گئے اور ان پر دیہات اور شہر آباد ہوتے چلے گئے‘
ان کے اوپر درخت‘ کھیت اور کھلیان بھی پھلتے پھولتے رہے اور یوں بادشاہ کن اور اس کے محافظ سپاہی تاریخ کے حافظے میں منجمد ہو گئے‘ بادشاہ کی سلطنت بھی ختم ہو گئی اور شہر بھی تاریخ کے صفحوں میں جذب ہو گیا‘ 1974ءمیں گاﺅں کے ایک شخص نے کنواں کھودا اور دو ہزار دو سو سال بعد ٹیرا کوٹا وارئیرز دنیا کے سامنے آ گئے یوں دنیا کا آٹھواں عجوبہ دنیا کو مل گیا۔میں ساڑھے تین بجے ٹیرا کوٹا پہنچا‘ اپنا بیگ دو گھنٹوں کیلئے ایک دکاندار کے پاس پچاس یوآن کے عوض رکھوایا‘
ٹکٹ لیا اور اندر داخل ہو گیا‘ یہ ایک طویل کمپاﺅنڈ تھا‘ پہلی عمارت تک پہنچنے میں دس منٹ لگ گئے‘ سردست ٹیرا کوٹا کے تین گڑھے دریافت ہوئے ہیں‘ یہ تینوں حیرت کدہ تھے‘ میں عمارت میں داخل ہوتا تھا اور سامنے قطار اندر قطار مٹی کے سپاہی دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا‘ تمام سپاہی مسلح تھے‘ یہ اپنے اپنے گھوڑوں کے ساتھ کھڑے تھے اور یہ اس قدر اصلی محسوس ہوتے تھے کہ یوں لگتا تھا ابھی بگل بجے گا اور یہ حرکت کرنا شروع کر دیں گے‘ سائیٹ پر ابھی مٹی کی بے شمار ڈھیریاں موجود تھیں‘
ان ڈھیریوں کے اندر مزید سپاہی چھپے بیٹھے ہیں‘ آثار قدیمہ کے ورکرز ڈھیریاں کھود رہے تھے‘ ہال نمبر ون میں ٹیرا کوٹا وارئیرز کی بیک گراﺅنڈ‘ کھدائی کی تاریخ‘ آلات اور دیگر تفصیلات درج تھیں‘ گائیڈ سیاحوں کو سب سے پہلے وہاں لے کر جاتے تھے اور پھر اصل سائیٹس پر‘مجسمے مٹی کے بنے تھے اور یہ لشکر کی طرح ترتیب کے ساتھ کھڑے تھے جسے بادشاہ حکم دے گا اور یہ دشمن پر پل پڑیں گے‘ بادشاہ کن مر گیا‘ اس کی سلطنت‘ مال و دولت اور شان وشوکت ہر چیز تاریخ کا رزق بن گئی لیکن اس کا آرٹ 22 سو سال بعدبھی زندہ ہے‘اس آرٹ نے اسے بھی زندہ کر دیا‘
ہم دنیا میں جو تخلیق کر جاتے ہیں وہ کارنامے بن کر ہمارے بعد ہماری زندگی بن جاتے ہیں‘ ٹیرا کوٹا وارئیرز اس حقیقت کی تازہ ترین مثال ہیں۔میرا ہوٹل شیان کے ”وال سٹی“ میں تھا‘ یہ شہر کا قدیم ترین علاقہ ہے‘ میں نے ہوٹل جانے کیلئے ٹیکسی کی بجائے بس اورپھر انڈر گراﺅنڈ ٹرین لی‘بس میوزیم کے سامنے کھڑی تھی‘ یہ شہر کے ایک تہائی حصے سے گزر کر سنٹر تک پہنچی یوں مجھے شہر کو دیکھنے کاموقع مل گیا‘ سنٹر میں بہت رونق تھی‘ سینکڑوں سیاح پھر رہے تھے‘
میں ہوٹل کا ایڈریس دکھا دکھا کر چلتا رہا‘ لوگ ہاتھ سے آگے چلنے کا اشارہ کر دیتے تھے اور میں اسی ڈائریکشن میں چل پڑتا تھا‘ میں سامان گھسیٹتا ہوا انڈر گراﺅنڈ ٹرین تک پہنچا‘ ٹکٹ کیپر کو ایڈریس دکھایا‘ کیپر نے بتایا ”آپ چوم لو سٹیشن پر اتر جائیں“ سٹیشن کا نام فحش تھا لیکن یہ یاد رہ گیا‘ ٹرین کے تمام سٹیشن چینی زبان میں تھے‘ میں نے بس چوم لو کے نام پر کان لگائے رکھے‘ میرے کانوں نے جوں ہی اس سے ملتی جلتی آواز سنی میں فوراً نیچے اتر گیا‘ میرا ہوٹل اب زیادہ دور نہیں تھا۔
میرا ہوٹل مسلم سٹریٹ اور شاہراہ ریشم کے نقطہ آغاز کے قریب تھا‘ میں نے سامان ہوٹل میں رکھا اور مسلم سٹریٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ مسلم سٹریٹ بنیادی طور پر فوڈ سٹریٹ ہے‘ یہ گلی مسلمانوں نے ہزار سال قبل آباد کی تھی‘سٹریٹ اور سٹریٹ کی بغلی گلیوں میں مسلمانوں کے سینکڑوں ریستوران‘ قہوہ خانے‘ فروٹ پارلرز‘ سویٹ ڈش کارنرز اور جوس کے ٹھیلے ہیں‘ میں نے جوں ہی مسلم سٹریٹ میں قدم رکھا میں چند قدم بعد الہ دین کے دور میں چلا گیا‘ وہ کیا سٹریٹ تھی‘
کیا ریستوران تھے اور کیا ذائقے تھے‘ یہ لوگ خاندانی کک ہیں‘ میں نے جس سے بھی پوچھا‘ اس نے جواب دیا‘ میرے خاندان نے تین سو سال پہلے یہ کام شروع کیا تھا‘ میں آٹھویں نسل ہوں یا میرے پردادا کے پردادا ترکی سے آئے اور 1404ءمیں یہاں یہ ریستوران شروع کیا‘ پتہ چلا ان ریستورانوں کی ریسی پیز بھی خاندانی ہیں‘ ایک نسل دوسری نسل کو کھانا پکانے کا طریقہ سکھا جاتی ہے اور وہ نسل اسے ورثہ سمجھ کر اگلی نسل کے حوالے کر جاتی ہے‘ ریستورانوں میں خواتین زیادہ تھیں‘
تمام کے سروں پر سکارف تھے اور وہ السلام و علیکم کہہ کر گاہک کا استقبال کرتی تھیں‘ میں وہاں دو گھنٹے پھرتا رہا اور میں نے وہاں ان دو گھنٹوں کو بہت انجوائے کیا‘ مسلمان سٹریٹ کی فضا ہی مختلف تھی‘ وہ کہہ رہے تھے” ہم نے ہزار سال سے یہاں شراب نہیں آنے دی“ یہ واقعی قابل تعریف بات تھی۔شاہراہ ریشم کا نقطہ آغاز بھی میرے ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا‘ میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا وہاں پہنچ گیا‘ یہ ایک پگوڈا نما عمارت تھی‘ ماضی میں یہاں سے وہ عظیم شاہراہ شروع ہوتی تھی جو10ہزارکلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی تھی اور 47ملکوں کو ٹچ کرتی تھی‘
شیان سے تجارتی قافلے ریشم‘ مصالحے‘ چائے‘ برتن‘ ادویات‘ خوشبو‘ بارود اور قیمتی پتھر لے کر نکلتے تھے اور یہ سونا‘ چاندی‘ گھوڑے‘ ہتھیار‘ چمڑہ‘ شیشہ‘ سوتی کپڑا‘ اونٹ اور غلام لے کر واپس آتے تھے‘ مارکوپولو جیسے سیاح بھی اسی شاہراہ پر سفرکر کے چین پہنچے تھے‘ یہ شاہراہ ترکوں نے 1453ءمیں استنبول کی فتح کے بعد بند کر دی جس کے نتیجے میں یورپ بحری راستے کھولنے پر مجبور ہو گیا اور یوں دنیا میں ”کلونیل ایج“ شروع ہو گئی‘
شاہراہ ریشم کی بندش نے یورپ میں صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی اور یورپی اپنی ضرورت کی تمام اشیاءیورپ میں بنانے لگے‘ میں رات کے پچھلے پہر وہاں پہنچا‘ آسمان پر چاند چمک رہا تھا اور زمین پر وقت ٹھہرا ہوا تھا‘ بنیاد کے دائیں بائیں ہر چیز تبدیل ہو گئی تھی‘ پگوڈا انڈر پاسز اور میٹرو سٹیشن کے اوپر کھڑا تھا‘ سامنے ایک نوجوان گلوکار گانا گا رہا تھا اور دوسرے نوجوان اسے داد دے رہے تھے اور ٹریفک بھی رواں دواں تھی‘ پورے شہر کی روشنیاں مل کر شاہراہ ریشم کی بنیاد کو گدگدا رہی تھیں
لیکن اس کے باوجود وہاں ابھی تک گئے وقتوں کی باس موجود تھی‘ وہاں ریشم اور چائے کی خوشبو بھی زندہ تھی‘ تاریخ بھی بال کھول کر وہاں بیٹھی تھی اور وہ ہرگزرنے والے کا دامن پکڑ کر کہہ رہی تھی دنیا کی ہر چیز عارضی‘ ہر چیز ناپائیدار ہے بس زوال کو استحکام ہے‘ بس موت کو ثبات ہے‘ میں نے جھرجھری لی اور ہوٹل واپس آگیا لیکن شیان وہیں پڑا رہ گیا‘ اپنی خوشبو اور اپنے رنگوں کے ساتھ۔