خواہ آپ

6  مئی‬‮  2018

چائے کے باغات ابراہیم کی زندگی کا پہلا چیلنج تھے‘ وہ کینیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا‘ والدین دہائیوں سے چائے کے باغوں میں کام کرتے تھے‘ والد‘ بھائی اور بہنیں چائے بوتے تھے‘ پودوں کی حفاظت کرتے تھے‘ پانی دیتے تھے اور پتیاں لگنے کا انتظار کرتے تھے جبکہ ماں چائے چنتی تھی‘ یہ لوگ گارے کے گھر میں جانوروں جیسی زندگی گزارتے تھے‘ کھانے کیلئے پوری خوراک‘ پہننے کیلئے مناسب کپڑے اور

مچھروں اور گرمی سے بچنے کیلئے پنکھا‘ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا‘ ابراہیم مکونگا نے ان حالات میں آنکھ کھولی اور وہ آنکھ کھولتے ہی چائے چننے میں مصروف ہو گیا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے لمبی ٹانگیں اور لمبا سانس دے رکھا تھا‘ وہ قدرتی طور پر ان تھک تھا‘ وہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کے باوجود تھکتا نہیں تھا‘ بے تحاشہ کام کرنا‘ مسکرانا اور دوڑنا اس کے خون میں شامل تھا‘ وہ چائے چننے کے بعد روزانہ دوڑ لگاتا تھا اور کوئی اسے پکڑ نہیں پاتا تھا‘ وہ دوڑ میں گھوڑوں‘ گدھوں اور خچروں کو شکست دے دیتا تھا‘ ابراہیم کے ساتھی گھوڑے پر بیٹھ جاتے تھے‘ وہ گھوڑے کو ایڑھ لگاتے تھے‘ گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگتا تھا اور ابراہیم اس ہوا سے باتیں کرتے گھوڑے کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگتا تھا‘ گھوڑا بھاگتے بھاگتے تھک جاتا تھا لیکن ابراہیم کا سانس نہیں ٹوٹتا تھا‘ یہ دوڑ اس کاشوق‘ اس کا پیشن تھی‘ وہ جوں ہی فارغ ہوتا تھا وہ کچی پگڈنڈیوں پر دوڑنا شروع کر دیتا تھا‘ وہ دوڑتے دوڑتے گاؤں کا ایتھلیٹ بن گیا‘ گاؤں کے لوگ اسے ”گھوڑا“ کہنے لگے‘ وہ دوڑتا رہا اور چائے کے باغوں میں کام کرتا رہا‘ کام کرتے کرتے اور بھاگتے بھاگتے ایک دن قسمت کی دیوی نے اس کے دروازے پر دستک دے دی‘ ٹائڈریک نرمے  گھومتا پھرتا ہوا چائے کے باغات دیکھنے اس کے گاؤں آگیا‘ نرمے اسٹونیا کا قومی چیمپیئن ہے‘ یہ ایتھلیٹ ہے اور اسٹونیا کے لوگ اسے دیوتا کی طرح چاہتے ہیں‘ یہ ابراہیم مکونگا کے گاؤں آیا‘ اس نے مکونگا

کو دوڑتے ہوئے دیکھا اور حیران رہ گیا‘ مکونگا واقعی گھوڑے کی طرح دوڑ رہا تھا‘ نرمے نے اس کے ساتھ دوڑ لگائی اور وہ اس کا ٹیلنٹ دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ نرمے کا خیال تھا مکونگا کو اگر اچھا ٹرینر مل جائے تو یہ پوری دنیا کو حیران کردے گا‘ نرمے نے اسے اسٹونیا آنے کی دعوت دی‘ مکونگا کیلئے یہ پیشکش حیران کن تھی‘ وہ حیرت کے عالم میں اپنے والدین کے پاس گیا لیکن والدین نے انکار کر دیا‘ وہ اپنے کماؤ پوت کو کھونے کیلئے تیار نہیں تھے‘ نرمے اس کے بعد مکونگا‘ اس کے والدین اور اسٹونیا کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کو ایک سال قائل کرتا رہا‘ وہ ہر جگہ سے انکار سنتا رہا لیکن ڈٹا رہاں یہاں تک کہ کو مکونگا اسٹونیا آگیا۔

اسٹونیا ابراہیم کی زندگی کا دوسرا چیلنج تھا‘ وہ کینیا میں پیدا ہوا تھا‘ تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی‘ سماجی لحاظ سے بھی بہت پیچھے تھا اور وہ انگریزی بھی نہیں جانتا تھا‘ نرمے کیلئے بھی ایک ایسے نوجوان کو ٹرینڈ کرنا خاصا مشکل تھا لیکن وہ ڈٹا رہا‘ مکونگا بے شمار مرتبہ دل برداشتہ ہوا‘ وہ لاتعداد مرتبہ مایوس بھی ہوا لیکن نرمے پیچھے نہ ہٹا‘ وہ اسے سمجھا بجھا کر دوبارہ ٹریک پر لے آتا تھا‘ نرمے کو ابرہیم میں ایک اور دلچسپ خوبی بھی نظر آئی‘ یہ فوکسڈ تھا‘

یہ اگر کوئی چیز ٹھان لیتا تھا تو یہ پھر دائیں بائیں نہیں ہوتا تھا‘ یہ ”گیو اپ“ نہیں کرتا تھا‘ یہ اس ٹارگٹ کو اچیو کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹتا تھا‘ نرمے نے ہمیشہ اس کی اس خوبی کو جگائے رکھا‘ یہ اسے ہر بار ”رننگ ٹریک“ پر لے کر آتا اور پھر اس سے کہتا ”تم اب بتاؤ تم نے کینیا واپس جانا ہے یا پھر دوڑنا ہے“ اور یہ چپ چاپ دوڑنا شروع کر دیتا‘ نرمے اور ابراہیم چار سال پریکٹس کرتے رہے یہاں تک کہ ابراہیم مکونگا پروفیشنل ایتھلیٹ بن گیا‘ یہ اس دوران یورپ میں رہنا‘

میڈیا کو ہینڈل کرنا اور انگریزی بولنا بھی سیکھ گیا‘مکونگا نے مئی 2015ء اور مئی2016ء کی میرا تھن ریس جیت لی لیکن یہ2017ء میں پوری دنیا میں پاپولر ہو گیا‘کیسے؟ ہم اب اس طرف آتے ہیں‘ اسٹونیا میں 7مئی 2017ء کو ہاف میراتھن ریس تھی‘ یہ ریس ”تا رتوہاف میرا تھن“ کہلاتی ہے اور یہ ہر سال ہوتی ہے‘ دنیا کے مختلف ملکوں کے کھلاڑی اس ریس میں حصہ لیتے ہیں‘ ابراہیم مکونگا بھی اس ریس میں شامل تھا لیکن ریس سے عین پہلے اس کی زندگی کا تیسرا چیلنج آ گیا۔

یہ تیسرا چیلنج جوتے تھا‘ ایتھلیٹس کے جوتے عام جوتوں سے مختلف ہوتے ہیں‘ یہ دوڑ کے دوران تلوؤں‘ انگلیوں اور ایڑھیوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ ہمارے پاؤں بہت حساس ہوتے ہیں‘ ہم اگر ایک خاص حد سے زیادہ چل لیں یا پھر دوڑ لیں تو ہمارے تلوے پھٹ جاتے ہیں‘ ہمارے پاؤں کی انگلیوں کے نچلے حصے بھی زخمی ہو جاتے ہیں اور پاؤں کے دائیں بائیں ہونے یا مڑنے سے ایڑھی میں موچ بھی آ جاتی ہے اور یوں ہم چلنے کے قابل نہیں رہتے چنانچہ سپورٹس کمپنیاں ان ایشوز کو سامنے رکھ کر ایتھلیٹس کیلئے جوتے بناتی ہیں‘

یہ جوتے ریس کے مختلف دورانیے کیلئے مختلف ہوتے ہیں‘ چھوٹی ریس کے جوتے الگ ہوتے ہیں اور بڑی ریس یعنی میراتھن کیلئے الگ‘ ایتھلیٹس اپنے ان جوتوں کی بہت حفاظت کرتے ہیں‘ ابراہیم مکونگا بھی اپنے جوتوں کے معاملے میں بہت حساس تھا چنانچہ اس نے ریس سے پہلے اپنے جوتے حفاظت کیلئے انتظامیہ کے ایک شخص کے پاس رکھوا دیئے اور خود ننگے پاؤں ورزش کرنے لگا‘ میراتھن کا وقت ہوگیا‘ مکونگا جوتے پہننے کیلئے آیا تو پتہ چلا وہ شخص اس کے جوتوں سمیت غائب ہو چکا ہے‘

مکونگا پاگلوں کی طرح اسے تلاش کرنے لگا لیکن وہ شخص ملنے کیلئے غائب نہیں ہوا تھا‘ وہ اسے ریس میں ہروانے کیلئے غائب ہوا تھا چنانچہ وہ نہیں ملا‘ مکونگا نے انتظامیہ کو بتایا لیکن انتظامیہ عین وقت پر اس کیلئے کچھ نہیں کر سکتی تھی لیکن اس کے باوجود انتظامیہ نے سٹیڈیم میں اعلان کرایا ”ہمارے ایک کھلاڑی کے پاس رننگ شوز نہیں ہیں‘ آپ میں سے اگر کسی کے پاس سات سائز کے جاگرز ہیں تو مہربانی فرما کر اسے دے دیں‘ ہم ریس کے بعد یہ جوتے واپس کر دیں گے“

لیکن سٹیڈیم میں سے کوئی شخص ابراہیم مکونگا کی مدد کیلئے نہیں نکلا‘ ریس کا وقت ہو گیا چنانچہ انتظامیہ نے اسے ٹریک سے باہر جانے کا اشارہ کر دیا‘ مکونگا کے پاس اب دس سیکنڈ کا وقت تھا‘ اس نے ان دس سیکنڈز میں ایک فیصلہ کرنا تھا‘ یہ میرا تھن سے باہر چلا جائے اور اگلے سال کا انتظار کرے یا پھر یہ جوتوں کے بغیر ریس میں شریک ہو جائے‘ دوسرا آپشن تقریباً ناممکن تھا‘ کیوں؟ کیونکہ جوتوں کے بغیر 23 کلو میٹر دوڑنا خالہ جی کا گھر نہیں تھا‘ ریس کے دوران پکی سڑک بھی آتی تھی‘

کچا راستہ بھی اور پگڈنڈیاں بھی اور ان سب کو ننگے پاؤں عبور کرنا آسان نہیں تھا چنانچہ اس کے پاس صرف ایک ہی آپشن بچتا تھا یہ میراتھن سے باہر چلا جائے لیکن انتظامیہ سمیت پورا سٹیڈیم اس وقت حیران رہ گیا جب ابراہیم مکونگا نے جرابوں میں دوڑنے کا اعلان کر دیا‘ انتظامیہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ”تم اگلے سال بھی میرا تھن میں شریک ہو سکتے ہو لیکن اگر اس دوڑ کے دوران تمہارا پاؤں فریکچر ہوگیا یا پھر پاؤں‘ ایڑھی اور پنڈلی کا کوئی مسل خراب ہو گیا تو تم پوری زندگی کیلئے ”ان فٹ“ ہو جاؤ گے‘

تم پھر کبھی ریس میں شریک نہیں ہو سکو گے“لیکن وہ نہیں مانا‘ اس کا کہنا تھا میں اگر آج باہر نکل گیا تو پھر میں کبھی ٹریک پر واپس نہیں آ سکوں گا‘ انتظامیہ نے بے بس ہو کر اسے اجازت دے دی۔ابراہیم مکونگا میراتھن میں شریک ہوگیا‘ ریس میں 3262کھلاڑی شامل تھے‘ یہ تمام کھلاڑی ٹرینڈاور صحت مند گورے تھے‘ یہ ان کھلاڑیوں میں واحد غریب کسان تھا‘ یہ غریب کسان جرابوں میں بھاگنا شروع ہوا اور اس نے کمال کر دیا‘ اس نے نہ صرف ننگے پاؤں 23 کلو میٹر فاصلے طے کر لیا بلکہ اس نے پہلی پوزیشن بھی حاصل کر لی‘

مکونگا نے یہ فاصلہ ایک گھنٹے‘ تیرہ منٹ اور 23 سیکنڈ میں طے کیا اور وہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے کھلاڑیوں سے چار منٹ آگے رہا‘ دوڑ کے دوران اس کی جرابیں بھی پھٹ گئیں لیکن وہ بغیر رکے دوڑتا رہا یہاں تک کہ اس نے دنیا میں دو ریکارڈ بنا دیئے‘ یہ دنیا کا پہلا کھلاڑی تھا جس نے جرابوں میں میرا تھن ریس جیتی اور اس نے 23 کلو میٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے‘ تیرہ منٹ اور 23 سیکنڈ میں طے کیا‘ یہ دونوں ریکارڈز تھے‘

ریس جیتنے کے بعد جب ابراہیم مکونگا سے اس کمال کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا ”جرابوں میں بھاگنا مشکل تھا‘ مجھے شروع شروع میں مشکل پیش آئی لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو یقین دلا دیا‘ میں نے پاؤں میں رننگ شوز پہن رکھے ہیں اور میں دوسروں کی طرح دوڑ رہا ہوں“ وہ رکا اور پھر بولا ”میں نے اپنی ساری توانائیاں جیت پر فوکس کر لیں‘ ریس کے دوران میں صرف اور صرف جیتنا چاہتا تھا‘ میری خواہش تھی میں کبھی خود کو یہ نہ کہہ سکوں میں جرابوں کی وجہ سے ہار گیا چنانچہ میں بھاگتا چلا گیا یہاں تک کہ میری جرابیں بھی پھٹ گئیں اور میرے پاؤں براہ راست سڑک اور مٹی کو محسوس کرنے لگے‘

مجھے درمیان میں یہ بھی محسوس ہونے لگا میں شاید اس ریس کے بعد کبھی چلنے کے قابل نہ رہوں لیکن میں دوڑتا رہا یہاں تک کہ میں جیت گیا“ وہ رکا اور بولا ”اور ہاں میں محسوس کرتا ہوں میرے پاؤں میں اگر جوتے ہوتے تو شاید میں نہ جیت پاتا لیکن جب میرے جوتے چھن گئے تو میں نے اپنے آپ سے کہا‘ مکونگا تمہارے پاس اب جیتنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا“ اس کا کہنا تھا ”آپ اگر جیتنے کیلئے جیت کا فیصلہ کر لیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص آپ کو ہرا نہیں سکتا خواہ آپ ننگے پاؤں ہی کیوں نہ ہوں“۔آپ بھی اگر جیتنا چاہتے ہیں تو آپ بھی ابراہیم مکونگا بن جائیں‘ دنیا میں کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…