میری منو بھائی کے ساتھ پہلی ملاقات 1996ءمیں ہوئی‘ میں نے تازہ تازہ کالم لکھنا شروع کیا تھا‘ میرے تیسرے یا چوتھے کالم پر منو بھائی کا ٹیلی فون آ گیا‘ وہ اٹک اٹک کر بولے ”جاوید میں منو بھائی بول رہا ہوں“ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی‘ وہ فون میری توقعات کی فہرست میں شامل نہیں تھا‘ وہ سچے دل سے تعریف کر رہے تھے‘ میں نے ملاقات کی اجازت طلب کی‘ وہ بولے ”بیٹا ضرور آﺅ‘ ضرور ملو“ اور میں اگلے
ہی دن چھٹی لے کر لاہور پہنچ گیا‘ میں ریواز گارڈن میں ان کے گھر گیا‘ وہ گرمیوں کے دن تھے ‘ وہ پسینے میں بھیگی قمیض کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے‘ میں ان کے گھٹنے کے ساتھ گھٹنا جوڑ کر بیٹھ گیا‘ وہ سیاسی انتشار کا زمانہ تھا‘ وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور صدر فاروق لغاری کے درمیان اختلافات جوبن پر تھے‘ میں نے پوچھا ”اس لڑائی کا کیا نتیجہ نکلے گا“ وہ فوراً بولے ”بی بی کی حکومت جائے گی اور نواز شریف آ جائے گا“ میرے لئے یہ جواب غیر متوقع تھا‘ میرا خیال تھا یہ لڑائی ختم ہو جائے گی اور حکومت اپنی مدت پوری کرے گی لیکن منو بھائی کے ایک فقرے نے میرے خیالات روند کر رکھ دیئے‘ میں ان دنوں آج سے زیادہ بے وقوف ہوتا تھا لہٰذا میں نے ان کے ساتھ سینگ پھنسا لئے‘ ان کا کہنا تھا‘ یہ بے نظیر اور فاروق لغاری کی لڑائی نہیں‘ یہ دو وڈیروں کی جنگ ہے اور وہ دو وڈیرے آصف علی زرداری اور سردار فاروق احمد لغاری ہیں‘ یہ دونوں وڈیرے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور یوں بے چاری بے نظیر ماری جائے گی‘ میں نے عرض کیا ‘میاں نواز شریف کیسے اقتدار میں آئیں گے‘ وہ مسکرا کر بولے‘ میاں نواز شریف وہ دوسرا کانٹا ہیں جو پہلا کانٹا نکالنے کےلئے اٹھایا جاتا ہے اور جب پہلا کانٹا نکل جاتا ہے تو پہلے کے ساتھ دوسرا کانٹا بھی پھینک دیا جاتا ہے‘ نواز شریف بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں‘ یہ جب پوری طرح استعمال ہو جائیں گے تو یہ بھی ڈمپ کر دیئے جائیں گے‘ میں
ادب کے ساتھ ان سے اختلاف کرتا رہا لیکن وہ ہنس کر ٹالتے رہے‘ انہوں نے مجھے لکھنے کے چند نسخے بھی عنایت کئے‘ ان کا کہنا تھا‘ کوئی لکھاری اس وقت تک کالمسٹ نہیں بن سکتا جب تک وہ بیس سال تک مسلسل نہ لکھ لے‘ تم نے بھی اگر بیس سال تھکے اور اکتائے بغیر لکھ لیا تو تم بہت اوپر جاﺅ گے لیکن اگر درمیان میں ہمت ہار گئے تو پھر باقی زندگی ماتم کرتے رہو گے‘ ان کا کہنا تھا‘ اچھا لکھنے کےلئے زیادہ پڑھنا اور زیادہ پھرنا ضروری ہے‘ تم پھرتے رہو اور پڑھتے رہو‘
تمہاری تحریر میں کشش پیدا ہو جائے گی‘ مطالعہ گنے کی طرح ہوتا ہے‘ آدھا گلاس رہو کےلئے پانچ فٹ کا گنا بیلنا پڑتا ہے‘ فرمایا‘ کالم نگاری فل ٹائم کام ہے‘ تم یہ بات ذہن سے نکال دو تم کالم نگاری کے ساتھ کوئی دوسرا کام کر سکو گے‘ یہ عشق جیسا جنون ہے‘ یہ بندے کو کسی دوسرے کام کے لائق نہیں چھوڑتا‘ میں نے ان کی نصیحتیں پلے باندھ لیں‘ ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور واپس آگیا۔میں چند ماہ میں منو بھائی کی سیاسی بصیرت کا قائل ہوگیا‘ فاروق لغاری نے واقعی بے نظیر بھٹو کی حکومت توڑ دی اور آصف علی زرداری کو جیل میں ڈال دیا‘ نئے الیکشن ہوئے اور میاں نواز شریف اقتدار میں آ گئے‘
میں نے منو بھائی کو فون کیا‘ وہ دیر تک ہنستے رہے‘ وہ چند دن بعد اسلام آباد تشریف لائے‘ میں ملاقات کےلئے ہوٹل گیا‘ میں نے ان سے پوچھا‘ کیا میاں نواز شریف اپنی مدت پوری کر لیں گے‘ وہ ہنس کر بولے‘ مشکل لگتا ہے‘ میں نے وجہ پوچھی‘ وہ بولے‘ نواز شریف پھڈے باز ہیں‘ یہ باز نہیں آئیں گے‘ یہ بھی گھر جائیں گے‘ منو بھائی نے اس کے بعد ایک عجیب انکشاف کیا‘ وہ بولے ”بے نظیر بھٹو تیسری بار وزیراعظم بنے گی‘ یہ اس بار بدلہ لینے کےلئے اقتدار میں آئے گی اور عالمی طاقتیں اس کی سپورٹ کریں گی“ میں نے وجہ پوچھی‘
وہ بولے ”یہ بری طرح زخمی ہیں اور بھٹو جب زخمی ہوتے ہیں تو یہ خطرناک ہو جاتے ہیں چنانچہ یہ فوج سے انتقام کےلئے واپس آئے گی اور یہ ملک کےلئے اچھا نہیں ہو گا“ منو بھائی کا خیال تھا بے نظیر بھٹو دو اڑھائی سال میں واپس آ جائیں گی‘ ان کی یہ پیشن گوئی آدھی غلط ثابت ہو گئی‘ میاں نواز شریف فارغ ہو ئے لیکن جنرل مشرف نے اقتدار بے نظیر بھٹو کے حوالے نہ کیا‘ وہ جلا وطن رہیں‘ منو بھائی کا کہنا تھا‘ یہ ضرور واپس آئے گی اور اپنا ایجنڈا پورا کرے گی‘ محترمہ 2007ءمیں واپس آئیں لیکن وہ شہید ہو گئیں‘
منو بھائی کا خیال تھا ”مارنے والے بے نظیر کے ایجنڈے سے واقف تھے‘ بے نظیر کے بعد یہ کام اب میاں نواز شریف کریں گے“ ان کی یہ پیشن گوئی بھی غلط ثابت ہوئی‘ میاں نواز شریف 2008ءمیں حکومت نہ بنا سکے‘ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور وہ جیسے تیسے اپنی مدت پوری کر گئی‘ میں اس دوران انہیں ان کی پیشن گوئی یاد کراتا رہا‘ وہ ہر بار کہتے تھے نواز شریف ضرور آئے گا اور یہ بے نظیر کا ایجنڈا پورا کرے گا‘ میاں نواز شریف 2013ءمیں آئے‘ پھڈے شروع ہوئے اور یہ ڈس کوالی فائی ہو گئے‘
میری اگست میں ان سے بات ہوئی ‘ ان کا کہنا تھا نواز شریف کو اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی دی تو یہ چوتھی مرتبہ بھی آئے گا‘ بین الاقوامی طاقتیں اسے سپورٹ کریں گی اور یہ وہ کام کر جائے گا جو بھٹو اور بے نظیر نہیں کر سکی۔میں اکیس برسوں میں ان سے درجنوں مرتبہ ملا‘ میں نے انہیں ہر حال میں کمال انسان پایا‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں سیاسی بصیرت بھی دے رکھی تھی اور دانش ور کا دماغ‘ شاعر کی آنکھ‘ نثر نگار کا مشاہدہ اور ایک صوفی کا ظرف بھی‘ وہ حس مزاح سے بھی لبالب تھے‘
وہ روانی میں ایسا کاٹ دار فقرہ پھینک دیتے تھے کہ آپ پوری زندگی اس فقرے کا لطف لیتے رہتے تھے‘ کسی صاحب نے ان سے پوچھا ”کیا آپ کی بیگم بھی آپ کو بھائی کہتی ہیں“ وہ عینک کے پیچھے آنکھیں گھما کر بولے ”وہ پہلے پہل صرف کہتی تھی‘ اب بھائی سمجھتی بھی ہے“ وہ ایک دن فرمانے لگے ” 1947ءمیں صرف امیروں کا پاکستان بنا تھا‘ صرف جاگیردار‘ تاجر اور رئیس آزاد ہوئے تھے‘ غریب آدمی کا پاکستان ابھی نہیں بنا‘ غریب ابھی آزاد نہیں ہوئے“ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں لاہور میں ایک تقریب تھی‘
چیف منسٹر مہمان خصوصی تھے‘ منو بھائی اور میں ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھ گئے‘ میرے ہاتھ میں کتاب تھی‘ منو بھائی نے کتاب لی اور ورق گردانی کرنے لگے‘ اتنے میں پرویز الٰہی آ گئے‘ وہ رکے اور بولے ”چا چا جی تسی تے اج بھی پڑھنے پے او“ منو بھائی نے پرویز الٰہی کو دیکھا اور ہنس کر بولے ”بھتیجے میں اس بھیڑی عادت دی وجہ نال سی ایم نہیں بن سکا“ (بھتیجے میں اس بری عادت کی وجہ سے سی ایم نہیں بن سکا) چودھری پرویز الٰہی نے قہقہہ لگایا اور جھک کر ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا‘
میں نے ایکسپریس جوائن کیا تو میں نے انہیں دعوت دی آپ بھی ہمارے پاس آ جائیں‘ ہنس کو جواب دیا ”مرد جب بیوی بدلنے کے قابل نہ رہے تو اسے نوکری نہیں بدلنی چاہیے“ وہ اکثر کہتے تھے ”یہ ملک پرانی گاڑیوں کے گیئر کی طرح پھنس گیا ہے‘ اب گیئر ٹوٹے گا یا پھر گاڑی“ وہ جسم کے ایک ایک بال تک جمہوریت پسند تھے‘ وہ سمجھتے تھے یہ ملک جب بھی بدلے گا ووٹ کے ذریعے بدلے گا‘ آمریت اس ملک کو کھا جائے گی‘ وہ کہتے تھے‘ جنرل ضیاءالحق کے سارے جرائم معاف کر دیئے جائیں تو بھی اس کا ایک جرم معاف نہیں کیا جا سکتا‘ جنرل ضیاءالحق نے مولویوں کو باہر لا کر ملک کا بیڑہ غرق کر دیا‘
وہ بھٹو کے شیدائی تھے‘ وہ نظریاتی لحاظ سے لبرل کمیونسٹ تھے‘ وہ ملک میں انصاف اور برابری دیکھنا چاہتے تھے‘ وہ یہ خواہش لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ملک میں برابری آئی اور نہ ہی انصاف۔منو بھائی صحافی بڑے تھے‘ ادیب‘ شاعر‘ دانش ور یا پھر ڈرامہ نگار یہ فیصلہ کبھی نہیں ہو سکے گا‘ وہ پارس کا قلم لے کر پیدا ہوئے تھے‘ وہ ادب کی جس جس صنف کو چھوتے رہے‘ وہ سونا بنتی رہی یہاں تک کہ ادبی سونے کا انبار لگ گیا اور منو بھائی‘ منو بھائی نہ رہے وہ اردو ادب بن گئے‘
اردو ادب اور اردو صحافت آنے والے وقت میں کہیں بھی پہنچ جائے‘ یہ کسی بھی بلندی تک چلی جائے منو بھائی اس کی جڑ بن کر ہمیشہ زندہ رہیں گے‘ یہ منو بھائی سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکے گی‘ منو بھائی بہت بڑے انسان بھی تھے‘ وہ سندس فاﺅنڈیشن سے وابستہ ہوئے اور آخری سانس تک اس کا ساتھ نبھایا‘ سندس فاﺅنڈیشن تھیلیسیما کے شکار بچوں کےلئے تازہ خون کا بندوبست کرتی ہے‘ منو بھائی اپنی اضافی آمدنی بھی اسے دے دیتے تھے اور اس کےلئے رقم بھی جمع کرتے تھے‘ میری ان سے آخری مرتبہ بات ہوئی تو ان کی آواز میں نقاہت تھی‘ وہ بار بار کہہ رہے تھے ”جاوید میرے بعد میرے بچوں کا خیال رکھنا‘ سندس فاﺅنڈیشن بند نہیں ہونی چاہیے‘
یہ لوگ جب بھی تم سے رابطہ کریں تم نے انہیں انکار نہیں کرنا“ میں نے ان سے وعدہ کر لیا‘ منو بھائی 19 جنوری کو 84سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ہم ہمیشہ رخصت ہونے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں ”یہ خلاءکبھی پُر نہیں ہو گا“ میں منو بھائی کے بارے میں یہ لکھنا چاہتا ہوں لیکن لکھ نہیں پا رہا‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا میں ہر خلاءپُر ہو جاتا ہے مگر خلیج پُر نہیں ہوتی اور منو بھائی جاتے جاتے صحافت میں خلیج چھوڑ گئے ہیں اور منو بھائی کی خلیج کو منو بھائی کے علاوہ کوئی پُر نہیں کر سکتا‘ یہ جنگل اب ہمیشہ اداس رہے گا۔