دکان دار ہمارے سامنے بچھ گیا‘ گودام سے صاف کرسیاں منگوائیں‘ چائے کیلئے ملازم دوڑایا اور ہیٹر کھینچ کر ہماری ٹانگوں کے نزدیک کر دیا‘ وہ بار بار کانوں کو ہاتھ لگاتا تھا‘ چھت کی طرف دیکھتا تھا اور لجاجت کے ساتھ کہتا تھا‘ بٹ صاحب! یہ سب آپ کی مہربانی ہے‘ اللہ تعالیٰ اگر مجھے آپ جیسے گاہک نہ دیتا تو میں آج اپنے بچوں کو عزت کے ساتھ روزی نہ کھلا رہا ہوتا‘ وہ اس کے بعد میری طرف مڑتا اور سرگوشی میں کہتا‘ آپ بڑے خوش
نصیب ہیں‘ رب نے آپ کو بٹ صاحب جیسا دوست دیا‘ ایسے لوگ آج کل کہاں ملتے ہیں‘ یہ نفسا نفسی کا زمانہ ہے‘ لوگ لوگوں کا گلہ کاٹ رہے ہیں‘ ملک میں بس ان جیسے چند لوگ بچے ہیں‘ اللہ ان کا سایہ ہم پر سلامت رکھے‘ وہ چائے آنے تک ان فقروں کی گردان کرتا رہا‘ چائے آ گئی تو وہ ہماری طرف متوجہ ہوا اور عاجزی کے ساتھ عرض کیا ”جی حضور فرمائیے کیسے آنا ہوا“ میرے دوست نے جیب سے فہرست نکالی اور اس کے حوالے کر دی‘ دکاندار نے ملازم کو آواز دی اور سودا نکالنے کا حکم دے دیا‘ ہم چائے پیتے رہے اور ملازم سودا باندھتے رہے‘ ملازمین نے اس کے بعد گاڑی کی چابی لی اور سودا گاڑی کی ڈکی میں رکھ دیا‘ میرے دوست نے بل مانگا‘ دکاندار نے شرما کر عرض کیا ”بٹ صاحب رہنے دیں‘ آپ دکان کے مالک ہیں‘ ہم مالک سے پیسے کیسے لے سکتے ہیں“ لیکن بٹ صاحب نے اصرار کرنا شروع کر دیا‘ دکاندار نے مجبور ہو کر ملازم سے بل منگوایا‘ اپنے ہاتھ سے رعایت کی اور شرما کر بولا‘ آپ اگر رہنے دیتے تو اچھا تھا لیکن آپ ضد کر رہے ہیں تو میں لے لیتا ہوں‘ دکاندار نے اس کے بعد بل میرے دوست کو پکڑا دیا‘ دوست نے بل پر نظر ڈالی‘ جیب سے رقم نکالی اور دکاندار کے حوالے کر دی‘ ہم نے اجازت لی‘ دکاندار ہمیں گاڑی تک چھوڑنے آیا اور ہم جب تک بازار سے باہر نہ نکل گئے وہ ہاتھ ہلاتا رہا۔میں اپنے دوست کی عزت افزائی پر دل ہی دل میں حسد کرنے لگا‘ میں خود بھی برسوں کا
گاہک ہوں لیکن مجھے آج تک کسی دکاندار نے اتنی عزت نہیں دی‘ میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے دوست سے کہا ”بٹ صاحب ماشاء اللہ پورا شہر آپ کی عزت کرتا ہے“ بٹ صاحب نے پورا منہ کھول کر قہقہہ لگایا اور بولے ”تم اس کی وجہ جانتے ہو“ میں نے کسمسا کر جواب دیا ”آپ بااخلاق اور مہربان ہیں“ بٹ صاحب نے مزید اونچا قہقہہ لگایا اور بولے ہرگز ہرگز نہیں‘ اس دکاندار کی زندگی میں مجھ سے بڑے بے شمار مہربان اور بااخلاق لوگ ہیں لیکن یہ عزت صرف میری کرتا ہے“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر بولے ”میری اس تمام تر عزت کی وجہ میری بے وقوفی ہے‘ میں ایک بے وقوف گاہک ہوں چنانچہ شہر کا ہر دکاندار میری عزت کرتا ہے“ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ وہ بولے ”ہمارے ملک میں صرف بے وقوفوں کی عزت ہوتی ہے‘ آپ جتنا سمجھ دار ہوتے جاتے ہیں‘ آپ کی عزت اور رشتے اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں‘ آپ اتنے ہی اکیلے ہوتے جاتے ہیں“ مجھے بٹ صاحب کی بات سمجھ نہ آئی چنانچہ میں چپ چاپ ان کی طرف دیکھتا رہا‘
وہ بولے ”دکاندار کی نظر میں وہ شخص بہترین گاہک ہوتا ہے جو بھاؤ تاؤ نہ کرے‘ جو چیز کا ریٹ نہ پوچھے‘ جو کوالٹی چیک نہ کرے‘ جو وزن کی پڑتال نہ کرے اور جو آنکھیں بند کر کے ایک ہی دکاندار سے سودا خریدتا رہے‘ دکاندار اسے جو باندھ دے‘ یہ چپ چاپ لے جائے‘ چیز خراب بھی نکل آئے تو یہ اعتراض نہ کرے اور میں ایک ایسا آئیڈیل گاہک ہوں چنانچہ یہ لوگ میری عزت کرتے ہیں“۔ وہ رکے اور پھر بولے ”اور گاہک کی نظر میں کون سا دکاندار آئیڈیل ہوتا ہے؟ وہ دکاندار جو گاہک کو ادھار دے دے‘ جو پیسوں کا مطالبہ نہ کرے‘ جس کے ریٹس پورے بازار میں کم ہوں‘ جو کلو گرام کے پیسے لے کر ڈیڑھ کلو چیز تول دے‘
ہم جسے استعمال کے بعد جو بھی چیز واپس کریں وہ چپ چاپ رکھ لے اور ہم جس کی دکان میں گھس کر جو چاہیں اٹھا لے جائیں اور وہ اعتراض نہ کرے ہم اس کو شاندار دکاندار کہیں گے‘ ہم دل سے اس کی عزت کریں گے“ بٹ صاحب رکے اور پھر گویا ہوئے ”دکاندار پوری زندگی بے وقوف گاہک تلاش کرتے رہتے ہیں اور گاہک تمام عمر بے وقوف دکاندار اور میں یہ حقیقت جان گیا میں پانچ وقتہ بے وقوف بن گیا ہوں‘ میں چپ چاپ نقصان برداشت کر جاتا ہوں چنانچہ میری زندگی میں شامل ہر شخص میری عزت کرتا ہے‘ یہ مجھ سے محبت کرتا ہے“۔ بٹ صاحب خاموش ہو گئے۔
یہ واقعہ گزرے کئی سال ہو چکے ہیں لیکن میں بٹ صاحب کا فلسفہ نہیں بھول سکا‘ مجھے شروع میں یہ فلسفہ بے وقوفی اور عجیب محسوس ہوتا تھا‘ میں بٹ صاحب کو احمق ترین شخص سمجھتا تھا لیکن پھر میں آہستہ آہستہ ان کی دانائی کا قائل ہو گیا‘ ہم سب پوری زندگی بے وقوفوں کی تلاش میں رہتے ہیں‘ ہمیں جوں ہی کوئی بے وقوف مل جاتا ہے ہم آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتے ہیں‘ اسے اونچی کرسی پیش کرتے ہیں اور جی جان سے اس کی خدمت اور عزت کرتے ہیں‘ آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں‘
آپ کو لوگ جن کی عزت کرتے نظر آئیں گے آپ کو ان میں صرف ایک خوبی نظر آئے گی اور وہ خوبی ہوگی بے وقوفی۔ وہ لوگ کسر کھا جاتے ہوں گے‘ نقصان برداشت کر جاتے ہوں گے چنانچہ وہ سب کی نظروں میں محبوب ہوں گے جبکہ اپنے مفاد کا خیال رکھنے‘ حساب لینے اور جمع تفریق کرنے والے لوگ سب کی نظروں میں چبھتے ہیں‘ یہ برداشت نہیں ہوتے‘ یہ اکیلے ہوتے ہیں۔ میرے ایک جاننے والے یورپ میں رہتے تھے‘ وہ پورے خاندان‘ دوست احباب اور عزیز رشتے داروں میں مقبول تھے‘
وہ بڑے بھائی جان کے نام سے مشہور تھے‘ وہ پاکستان آتے تھے تو آدھا شہر انہیں لینے کیلئے ائیر پورٹ جاتا تھا‘ رشتے دار انہیں پھولوں سے لاد دیتے تھے‘ وہ مہینہ پاکستان رہتے تھے‘ مہینہ بھر ان کی دعوتیں چلتی تھیں لیکن پھر وہ اچانک بڑے بھائی جان نہ رہے‘ لوگوں نے ان سے منہ موڑ لیا‘ وہ پاکستان آتے تھے تو ائیر پورٹ سے اکیلے گھر آتے تھے‘ وہ چھٹیوں کے دوران اکیلے پھرتے رہتے تھے اور پھر چپ چاپ واپس چلے جاتے تھے‘ میں نے ایک دن ان سے اس کایا کلپ کی وجہ پوچھی‘
بڑے بھائی جان نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‘ میں جعلی کریڈٹ کارڈ بناتا تھا‘ میرے پاس لاکھوں پاؤنڈز ہوتے تھے‘ مجھ سے میرے عزیز رشتے دار اور دوست جتنے پیسے مانگتے تھے‘ میں بھجوا دیتا تھا لیکن پھر میرا کام بند ہو گیا‘ میں محنت مزدوری پر مجبور ہوگیا‘ یہ لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے‘ یہ مجھ سے پرانی روٹین کے مطابق پیسے مانگتے تھے‘ میں معذرت کر لیتا تھا‘ یہ مائینڈ کر جاتے تھے یوں ہم میں فاصلہ پیدا ہو گیا‘ میرے حالات مزید خراب ہو گئے اور میں نے اپنے دوستوں اور عزیزوں سے ادھار مانگنا شروع کر دیا‘
میری یہ جسارت انہیں پسند نہ آئی چنانچہ یہ بھاگ گئے‘ بڑے بھائی جان نے اس کے بعد یہ تاریخی فقرہ کہا ”آپ جب تک اپنا ہاتھ کھلا رکھیں گے‘ لوگ آپ کو ان داتا کہتے رہیں گے لیکن آپ نے جوں ہی ہاتھ کو مٹھی بنا لیا وہی لوگ آپ پر مٹی ڈال دیں گے“۔ میرے ایک اور دوست بھی لوگوں میں بہت مقبول ہیں‘ یہ جہاں جاتے ہیں لوگ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں‘ میں نے ان سے وجہ پوچھی‘ یہ بھی قہقہہ لگا کر بولے ”یہ تمام لوگ میری رقمیں کھا کر بیٹھے ہیں‘یہ ادھار خور ہیں‘
میں ان سے رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرتا چنانچہ یہ مجھے جہاں ملتے ہیں یہ دانت نکالنا شروع کر دیتے ہیں“۔ میں نے ان سے پوچھا ”آپ ان سے اپنا ادھار واپس کیوں نہیں لیتے“ وہ ہنس کر بولے ”یہ عزت ان پیسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے‘ میں نے جس دن پیسے مانگ لئے اس دن میری عزت ختم ہو جائے گی“۔یہ بات غلط نہیں تھی‘ ہم لوگ واقعی بے وقوفوں اور ناسمجھوں کو پسند کرتے ہیں‘ وہ لوگ جو اپنا سب کچھ دوسروں کیلئے وقف کر دیں‘آپ جنہیں جی بھر کر لوٹ سکیں اور آپ ان سے جو مانگیں وہ نکال کر دے دیں لیکن جو شخص حساب مانگ لے‘ جو اپنے مفاد کا خیال رکھے‘
جو پرائس ٹیگ پڑھے‘ جو ادائیگی سے پہلے بل چیک کرے اور جو خریداری کے بعد پراڈکٹس کی شکایت کرے وہ لوگ ہمیں برے لگتے ہیں‘ ہم ان لوگوں کو پسند نہیں کرتے‘ ہماری نظر میں وہ دوست جگری دوست ہوتا ہے جو ہم پر تن‘من اور دھن وار دے اور اس کے جواب میں ہم سے کچھ طلب نہ کرے‘ ہمیں والدین بھی ایسے چاہئیں جو کبھی انکار نہ کریں‘ ہم جو مانگ لیں وہ دے دیں اور کبھی حساب نہ کریں‘ ہمیں صرف وہ بھائی سگا محسوس ہوتا ہے جو اپنا سب کچھ ہم پر قربان کر دیتا ہے‘
دکاندار کی نظر میں اندھا اعتماد کرنے والا گاہک اچھا اور گاہک کی نظر میں اندھا دکاندار آئیڈیل ہوتا ہے‘ پیر ان مریدوں کو زیادہ سچا مرید سمجھتا ہے جو گالی دینے پر بھی سبحان اللہ‘ سبحان اللہ کا ورد کرتے ہیں اور مرید بھی اس پیر کو کامل سمجھتے ہیں جو بِلا مانگے سب کچھ دے دیتا ہے اور جواب میں مرید سے کچھ نہیں مانگتا‘ ہمیں حکومت بھی ایسی چاہیے جو ہمیں گھر بیٹھے سب کچھ دے دے اور ہمیں جواب میں اسے کچھ ادا نہ کرنا پڑے‘ ہمیں خدا بھی ایسا چاہیے جو ہمیں بے حساب دے اور جواب میں ہمیں اسے ایک سجدہ بھی نہ کرنا پڑے چنانچہ آپ اگر عزت کمانا چاہتے ہیں‘ آپ بٹ صاحب کہلانا چاہتے ہیں‘
آپ چاہتے ہیں لوگ آپ کا انتظار کریں‘ لوگ آپ کے سامنے بچھ جائیں‘ یہ آپ کو اپنا سگا سمجھیں تو آپ بے وقوف بن جائیں‘ آپ اپنے دونوں ہاتھ صرف اور صرف دینے کیلئے وقف کر دیں‘ آپ اچھے دکاندار‘ اچھے گاہک بن جائیں‘لوگ آپ کے پاؤں چھوئیں گے‘ آپ آئیڈیل انسان ہو جائیں گے۔