آپ ناروے کی مثال لیجئے‘ خواتین حمل کے ایک ماہ بعدہیلتھ سنٹر میں رجسٹر ہوتی ہیں‘ ڈاکٹرمتوقع ماﺅں کو اگلے سات آٹھ ماہ کے دوران جسم میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتاتے ہیں‘ خوراک کا چارٹ دیتے ہیں‘ ورزش کے بارے میں بتاتے ہیں اور یہ انہیں اپنے موڈز اچھے رکھنے کا طریقہ سکھاتے ہیں‘ ہیلتھ سنٹر کے وزٹس بچے کی پیدائش تک جاری رہتے ہیں‘ناروے میں بچہ امیر ہو یا غریب یہ پیدا ہسپتال میں ہوتا ہے‘ ڈیلیوری کے دو دن بعد
نرس آتی ہے اور یہ ماں کو دو گھنٹے لیکچر دیتی ہے‘ یہ بچے کو سردی یا گرمی سے بچانے کا طریقہ بتاتی ہے‘ بچے کو دودھ کس کس وقت دینا ہے اور یہ کھانا کب سٹارٹ کرے گا اور اسے کس کس وقت کیا کیا دیا جائے گا یہ ماں کو سمجھاتی ہے۔ ناروے میں بچے کے والدین کو 13 ماہ پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی بھی ملتی ہے‘ یہ چھٹی والد لے سکتا ہے‘ والدہ یا پھر دونوں یہ چھٹی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں‘ والدین میں سے اگر کوئی بے روزگار ہے تو حکومت انہیں بچے کی پرورش کےلئے 80 ہزار کرون دے گی‘ اگر دونوں میاں بیوی بے روزگار ہیں توانہیں ایک لاکھ 60 ہزار کرون ملیں گے‘ یہ دونوں بچے کی پیدائش کے ایک ماہ بعد دوبارہ ہیلتھ سنٹر میں رجسٹرہوتے ہیں‘ ہیلتھ سنٹر والدین کو ہر ماہ دو گھنٹے کی ٹریننگ دے گا‘ یہ بچے کی صحت‘ خوراک اور لباس کا جائزہ بھی لیتا رہے گا‘ بچہ سال کا ہو جائے گا تو ہیلتھ سنٹر والدین کو بلا کر سمجھائے گا آپ کا بچہ سیکھنے کے دور میں داخل ہو چکا ہے‘ آپ بچے کو مستقبل میں جو بنانا چاہتے ہیں یہ بچہ اب دو سال میں بن جائے گا‘ آپ اپنی ذات میں ڈسپلن لے آئیں آپ کا بچہ ڈسپلنڈ ہو جائے گا‘ آپ اچھے ہو جائیں آپ کا بچہ اچھا ہو جائے گا‘ آپ لڑنا چیخنا اور شور کرنا شروع کر دیں آپ کا بچہ لڑاکا ہو جائے گا اور آپ شائستہ مزاج ہو جائیں‘ آپ آرٹ اور کلچر کے لور بن جائیں‘ آپ کا بچہ بھی آرٹسٹ اور مہذب ہو جائے گا‘ یہ والدین کو بتاتے ہیں آپ کا بچہ اب آپ کی کاپی کرے گا‘
یہ کاپی آنے والے دنوں میں بچے کی شخصیت ہو گی‘ یہ والدین کو بتاتے ہیں آپ کسی قیمت پر بچے کی خوراک کا شیڈول تبدیل نہ کریں‘ یہ اگر رات کو اٹھ کر رونا شروع کردے تو آپ ہرگز ہرگز اسے دودھ نہ دیں کیونکہ آپ نے اگر اسے ایک بار دودھ یا کھانا دے دیا تو یہ اپنے رونے کی اہمیت سمجھ جائے گا‘ یہ آپ کو اس کے بعد پوری زندگی بلیک میل کرتا رہے گا‘ یہ روئے گا‘ چیخے گا‘ ناراض ہو گا اور اپنی ڈیمانڈ پوری کرا لے گا‘ یہ بچہ بڑا ہو کر پورے معاشرے کےلئے مسئلہ بن جائے گا‘ یہ پورے سسٹم کو بلیک میل کرتا رہے گا‘
والدین ہیلتھ سنٹر کی ایڈوائس پر اپنے بچے کی پرورش کرتے ہیں‘ یہ جب دوبارہ نوکری جوائن کرتے ہیں تو یہ بچے کو ڈے کیئر سنٹر میں چھوڑ جاتے ہیں‘ حکومت ڈے کیئر سنٹرز پر بھی نظر رکھتی ہے‘ سنٹر کاعملہ بھی ٹرینڈ ہوتا ہے اور سنٹر کے اندر اور باہر کیمرے لگے ہوتے ہیں‘ ڈے کیئر سنٹر بچے کو ”پرائیویٹ پارٹس“ اور گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بتاتے ہیں‘ یہ انہیں بتاتے ہیں آپ نے اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے اور آپ کو کیا کیا حقوق حاصل ہیں‘ ناروے میں کوئی اجنبی شخص کسی بچے کو چھو نہیں سکتا‘
یہ ممکن نہیں کوئی شخص بچے کو اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے اور اندھا دھند پیار کرنا شروع کر دے‘ بچہ چھ سال کی عمر میں سکول جاتا ہے‘ سکول کے اندر بھی ڈے کیئر سنٹرز ہوتے ہیں‘ بچے چھٹی کے بعد ان سنٹرز میں چلے جاتے ہیں‘ والدین دفتر یا کام سے چھٹی کے بعد آتے ہیں اور بچے لے جاتے ہیں‘ سکول کا سارا عملہ اور والدین پابند ہیں یہ اگر سکول کے اندر کوئی غیر معمولی صورت حال دیکھیں‘ یہ بڑے بچے کو کسی چھوٹے بچے کو تنگ کرتے دیکھیں‘ اس کا نام بگاڑتے یا اسے چھیڑتے ہوئے دیکھیں تو یہ پرنسپل کو تحریراً بتانے کے پابند ہیں‘ یہ اگر اطلاع نہ دیں تو یہ دو سال کےلئے جیل جا سکتے ہیں‘
بچے چوتھی جماعت سے پہلے سکول سے اکیلے گھر نہیں جا سکتے‘ ساتویں جماعت میں بچوں کی جنسی تعلیم شروع ہو جاتی ہے‘ سکول میں سوشل ٹیچر ہوتے ہیں‘ یہ بچوں کو ایک ایک کر کے ان کے جسم میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بتاتے ہیں‘ یہ ہفتے میں ایک دن ایک اجتماعی پریڈ بھی لیتے ہیں‘ ریاست اٹھارہ سال تک بچے کو اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی‘ والدین بچے کو گھر‘ پارک یا شاپنگ سنٹر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے‘ یہ اگر غلطی کر بیٹھیں تو پولیس بچے کو لے جاتی ہے اور بچے چار چار سال تک حکومت کی نگرانی میں پرورش پاتے ہیں۔
یہ سسٹم صرف ناروے تک محدود نہیں بلکہ یہ یورپ کے تمام ملکوں میں چل رہا ہے‘ آپ نے کبھی سوچا یہ ملک ہر سال اس مشقت پر اربوں کھربوں ڈالر ضائع کرتے ہیں‘کیوں؟ بات سیدھی ہے یہ بچوں کو اپنا قومی اثاثہ سمجھتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہم اگر اپنی قوم کا قبلہ درست رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے بچوں پر فوکس کرنا ہوگا چنانچہ ریاستیں بچوں کو پیدائش سے پہلے ”ٹریک“ کرنا شروع کرتی ہیں اور یہ جوانی تک ان کے ساتھ رہتی ہیں‘ یورپ میں بچہ پیدا ہوا ہو اور یہ ریاست کی نظروں سے اوجھل ہو جائے ‘یہ ممکن ہی نہیں‘
یورپ کے والدین بھی بلاوجہ بچے پیدا نہیں کرتے‘ یہ اس وقت تک بچے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں جب تک یہ بچے کی پرورش کا سامان‘ رقم اور فرصت جمع نہیں کر لیتے جبکہ ہم پلاننگ کے بغیر بچے پیدا کرتے ہیں اور ریاست پیدائش سے لے کر جوانی تک پوری زندگی بچے سے لاتعلق رہتی ہے‘ ہمارے ریاستی سسٹم سے آج بھی لاکھوں بچے غائب ہیں‘ یہ بچے کہاں پیدا ہوئے‘ ان کے والدین کون تھے‘ یہ کہاں کہاں پرورش پاتے رہے اور یہ کن کن ہاتھوں سے نکل کر کہاں کہاں پہنچ گئے والدین جانتے ہیں اور نہ ہی ریاست۔
آپ کےلئے شاید یہ خبر ہو پاکستان بچوں کی فحش فلموں‘ بچوں کے جسمانی اعضاءاور چائلڈ پراسٹی چیوشن میں دنیا کے پہلے دس ملکوں میں آتا ہے‘ پاکستان میں ایسے سینکڑوں ریکٹ موجود ہیں جو بچے اغواءکرتے ہیں‘ ان کی گندی فلمیں بناتے ہیں اور باہر سمگل کر دیتے ہیں‘ یہ بچوں کے جسم سے اعضاءبھی نکال لیتے ہیں اور یہ بچیوں کو دس سال کی عمر سے طوائف بھی بنا دیتے ہیں لیکن ہماری ریاست نے کبھی اس ایشو کو ٹچ کیا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنائی‘9فروری2017ءکو راولپنڈی میں اشرف نام کا ایک شخص گرفتار ہوا تھا‘
یہ شخص شادی کرتا تھا‘ بچہ یا بچی پیدا کرتا تھا‘ یہ بچے کو فروخت کر دیتا تھا‘ بیوی کو طلاق دیتا تھا اور غائب ہو جاتا تھا‘ یہ درجنوں مرتبہ یہ واردات کر چکا تھا اور ریاست کو کانوں کان خبر نہیں تھی‘ ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں کردار موجود ہیں‘ ہم اگر حقیقتاً زینب جیسے بچوں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں تو پھر ریاست کو بچوں کو ایٹمی پروگرام کی طرح قیمتی اثاثہ ڈکلیئر کرنا ہوگا‘ اسے بچوں کو آئین اور مذہبی کتابوں کی طرح مقدس سمجھنا ہوگا‘ ہماری ریاست کو حمل سے لے کر اٹھارہ سال تک بچے کے ساتھ ساتھ رہنا ہوگا‘
ہم بچوں کی پیدائش نہیں روک سکتے نہ روکیں لیکن ہم بچوں کی تعداد کو والدین کی آمدنی سے نتھی تو کر سکتے ہیں‘ ہم قانون بنا دیں بچہ ریاست کی ذمہ داری ہے‘ ریاست اس کے بعد مخیر حضرات کے ساتھ مل کر بورڈنگ سکولز اور یتیم خانے (فلاح خانے) بنائے‘ والدین سے فالتو بچے جمع کرے اور یہ بچے بورڈنگ سکولز اور فلاح خانوں میں داخل کرا دے‘ کیا یہ بھی ممکن نہیں؟ ریاست یہ فیصلہ کر لے کوئی بچہ آج سے ریاست کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہوگا‘ ڈیلیوری ہسپتالوں میں ہو گی‘ ہسپتال بچے کی رجسٹریشن کرائیں گے‘
بچوں کے حفاظتی ٹیکوں اور صحت کی ذمہ داری بھی ہسپتال اٹھائیں گے‘ حکومت بچوں کےلئے کم سے کم خوراک کا چارٹ بھی بنائے‘ والدین ہر صورت بچوں کو یہ خوراک فراہم کریں اور جو والدین یہ خوراک فراہم نہ کریں حکومت ان سے پوچھے ”آپ اگر پال نہیں سکتے تھے توآپ نے پیدا کیوں کیا؟“ اور یہ ان والدین کے مزید بچے پیدا کرنے پر پابندی لگائے‘ حکومت سکولوں میں سوشل ٹیچرز کا اضافہ بھی کرے‘ یہ سوشل ٹیچرز بچوں کو بتائیں ہم میں سے بے شمار لوگ پیڈوفائل ہوتے ہیں‘
یہ لوگ بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں‘ ہم میں سے بے شمار لوگ انسیسٹ بھی ہوتے ہیں‘ یہ لوگ محرم رشتوں میں جنسی کشش محسوس کرتے ہیں‘ یہ لوگ والدہ‘ بہن اور بیٹی میں دلچسپی لیتے ہیں‘ سوشل ٹیچرز بچوں کو ان لوگوں کی پہچان بھی بتائیں اور بچنے کا طریقہ بھی۔حکومت موبائل فون کے ذریعے یہ کام لے سکتی ہے‘ یہ حاملہ ماﺅں کےلئے وظیفہ طے کرے‘ ایپس بنوائے اور ماﺅں کو ترغیب دے یہ اس ایپ پر خود کو رجسٹر کرا لیںیوں مائیں اور بچے ریاست کی نظر میں آ جائیں گے‘ ریاست اس کے بعد انہیں اوجھل نہ ہونے دے اور یہ کرنے کے وہ کام ہیں جو ہماری ریاست کو فوراً کرنے چاہئیں اور ہم نے اگر یہ نہ کئے تو ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔