میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قائل ہوتا جا رہا ہوں ہمارے ملک میں جو شخص کام کرے گا اسے گالی ضرور پڑے گی‘ وہ برا ضرور کہلائے گا‘ میرے ایک دوست معاشرے کی اس روش کو اپنی کہانی سمجھتے ہیں‘ وہ بتاتے ہیں میں جوان ہوا تو والد نے کام چھوڑ دیا‘ گھر کی ساری ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی‘ میں نے اپنے بہن بھائی بھی پالے‘ ان کی شادیاں بھی کیں اور ان کو کاروبار بھی سیٹ کر کے دیئے لیکن میں اس کے باوجود .
سب کی نظروں میں برا ہوں‘ میرے دوست مثال دیا کرتے ہیں ”میں بچپن میں گھر کا سودا سلف لایا کرتا تھا جبکہ میرے بھائی سارا سارا دن چارپائیاں توڑتے رہتے تھے‘ میرے لائے سودے میں اگر کوئی ٹماٹر‘ اگر کوئی پیاز گندہ نکل آتا تھا تو میں ماں باپ کی جھڑکیاں بھی کھاتا تھا اور میرے وہ بھائی بھی میرا مذاق اڑاتے تھے جنہوں نے کبھی مجھے تھیلا تک نہیں پکڑایا تھا‘ میں سات سال کی عمر میں پورے گھر کا سودا سر پر اٹھا کر لاتا تھا اور آخر میں جھڑکیاں بھی کھاتا تھا‘ میرے بھائی آج بھی مجھے کہتے ہیںآپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے؟“۔یہ ہمارا عمومی رویہ ہے‘ ہمیں چوپڑی بھی چاہئیں‘ دو دو بھی چاہئیں اور آخر میں ہمیں دینے والے کی جی بھر کر بے عزتی کا حق بھی چاہیے‘ یہ ہمارا مزاج ہے‘ وہ لوگ جو ہمارے لئے کچھ نہیں کرتے ہم انہیں کچھ نہیں کہتے لیکن جو کرتے ہیں ہم ان سے جی بھر کر انتقام لیتے ہیں‘ آپ کسی دن خود دیکھ لیجئے لوگ بھیک مانگنے والے کی عزت کریں گے لیکن جو لڑکا گاڑی پر ٹاکی مار رہا ہے‘ جو شیشے صاف کر کے روزی کما رہا ہے لوگ اسے ڈانٹ دیں گے‘ یہ فقیر کو ”معاف کر دے بابا“ کہیں گے لیکن مزدوری کرنے والے کو اوئے چھوٹے یا ماں بہن کی گالی دے کر بلائیں گے‘ ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں‘صرف پندرہ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ 19 کروڑ 85 لاکھ لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں‘ انہیں کوئی نہیں پکڑتا لیکن ٹیکس ادا کرنے والے پوری زندگی پیشیاں بھگتتے ہیں‘ آپ پوری زندگی ٹیکس نہ دیں‘ کوئی نہیں پوچھے گا لیکن اگر ٹیکس ادا کرنا شروع کر دیا تو آپ آڈٹ میں بھی آئیں گے اور
عدالتوں کے چکر بھی لگائیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ ذمہ دار شہری بننے کا جرم کر بیٹھے ہیں اور یہ جرم اس ملک میں ناقابل معافی ہے‘ آپ اسی طرح ویلفیئر کا کوئی ادارہ بنا لیں‘ آپ کوئی چھوٹی سی مِل لگا لیں اور آپ کوئی کمپنی بنا لیں آپ کی زندگی عذاب ہو جائے گی‘ آپ ملک کی کوئی سڑک‘ کوئی لائین یا کوئی تار کاٹ دیں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن آپ اگر تار بچھانے‘ پائپ لائین لگانے اور سڑک بنانے کی غلطی کر بیٹھے تو آپ کی جان نہیں چھوٹے گی‘
ہم لوگ سبق یاد کر کے آنے والوں کو ہمیشہ عبرت کی نشانی بنا دیتے ہیں جبکہ صدیوں کے نالائقوں کو کرسی پیش کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ کب تک چلے گا‘ ہم کب تک کام کرنے والوں کا احتساب اور نالائقوں کی ستائش کرتے رہیں گے‘ ہمیں بہرحال کبھی نہ کبھی یہ روش بدلنا ہوگی۔میں میاں شہباز شریف کا فین ہوں‘ میں اکثر اوقات اپنی اس بے وقوفی کا ٹھیک ٹھاک نقصان اٹھاتا ہوں‘ میری سمجھ دار‘ ایماندار اور ذہین قوم مجھے جی بھر کر گالیاں دیتی ہے لیکن میں باز نہیں آتا‘ کیوں؟ کیونکہ میں سمجھتا ہوں ہم جب تک کام کرنے والوں کی عزت نہیں کریں گے ہم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور میاں شہباز شریف واقعی کام کر رہے ہیں‘
آپ پنجاب کا دوسرے صوبوں کے ساتھ تقابل کر کے دیکھ لیں‘ آپ کو واضح فرق ملے گا‘ آپ کراچی جائیں‘ آپ کوئٹہ کا چکر لگائیں‘ آپ تبدیل شدہ پشاور کا دورہ کرلیں اور آپ اس کے بعد لاہور آ جائیں آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ آپ پنجاب کے دس بڑے شہروں کا تجزیہ کر لیں آپ کو یہ شہر دس سال پرانے شہروں سے بہتر ملیں گے تاہم یہ درست ہے پنجاب میں پانی‘ صحت اور سکولوں کا معیار بلند نہیں ہوا لیکن کیا ان دوسرے صوبوں نے ان شعبوں میں کام کیا جو میاں شہباز شریف کو شوباز شریف کہتے ہیں‘
کیا پرویز خٹک نے پشاور کو صاف پانی‘ بین الاقوامی معیار کے ہسپتال اور سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں دے دیں‘ کیا یہ سچ نہیں خیبر پختونخواہ کے مریضوں کا بوجھ آج بھی پنجاب اٹھا رہا ہے اور آپ سندھ اور بلوچستان کی حالت بھی دیکھ لیجئے کیا ان حکومتوں نے اپنے عوام کو صاف پانی‘ اعلیٰ تعلیم اور شاندار ہسپتال دے دیئے‘ آپ پنجاب حکومت کی سنجیدگی دیکھ لیجئے‘ میں نے جمعہ کو ”زینب الرٹ“ کے نام سے کالم لکھا‘ مجھے صبح گیارہ بجے میاں شہباز شریف کا پیغام ملا” ہم فوری طور پر ان تجاویز پر عمل کر رہے ہیں“ مجھے شام کے وقت پتہ چلا وزیراعلیٰ نے بیس رکنی کمیٹی بنا دی ہے‘
کمیٹی نے اگلے دن میٹنگ کی‘ تین سب کمیٹیاں بنائیں اور کمیٹیوں نے ایک ہفتے کے اندر قانون سازی اور عمل درآمد کا اعلان کر دیا‘ یہ کمیٹیاں امبر الرٹ کی طرز پر الرٹ سسٹم بھی بنائیں گی‘ بچوں کو جنسی جرائم سے بچانے کےلئے سلیبس میں ترمیم بھی کریں گی اور زینب جیسے واقعات میں ملوث مجرموں کے مقدمے دہشت گردی کی عدالتوں میں چلانے کےلئے قانون سازی بھی کریں گی‘ یہ کمیٹیاں اگر واقعی سات دنوں میں یہ تمام کام کرلیتی ہیں تو کیا یہ کمال نہیں ہوگا اور کیا اس کمال پر داد نہیں دینی چاہیے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں مشال جیسے واقعات کے 9مہینوں کے بعد بھی تین مجرم مفرور ہیں ‘ ڈی آئی خان میں سولہ سال کی بچی کو برہنہ کر کے بازار میں گھمایا گیا‘ ویڈیو بنائی گئی اور حکومت کے پورا زور لگانے کے باوجود اصل مجرم سجاول ابھی تک نہیں پکڑا گیا‘ جس میں کوئٹہ میں 60وکیل خود کش حملے میں شہید ہو گئے لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے پورے دباﺅ کے باوجود مجرم گرفتار ہوئے اور نہ ہی انکوائری رپورٹ مکمل ہوئی‘
جس میں دس سال گزرنے کے بعد بھی بے نظیر بھٹو کے قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی انہیں سزا ہوئی اور جس میں کے پی کے حکومت ساڑھے چار سال میں میٹرو پراجیکٹ شروع کرپائی اور نہ ہی سندھ حکومت ساڑھے نو برسوں میں کراچی سے کچرہ اٹھا پائی‘ اس ملک میں اگر کوئی شخص دس پندرہ بیس منصوبے مکمل کر لیتا ہے‘ یہ شہروں کے حلئے بدل دیتا ہے‘ یہ شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت دے دیتا ہے‘ یہ دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر دیتا ہے اور یہ زینب جیسے واقعات کے تدارک کےلئے قانون سازی کر دیتا ہے‘
یہ امبر الرٹ جیسا سسٹم بنا دیتا ہے تو یہ واقعی کمال ہے‘ یہ حقیقتاً قابل تعریف ہے۔ یہ درست ہے سانحہ ماڈل ٹاﺅن بھی پنجاب میں ہوا تھا اور زینب جیسے واقعات بھی پنجاب میں ہوتے ہیں‘ زینب جیسے واقعات بھی نہیں ہونے چاہئیں اور پولیس کو ہرگز ہرگز اپنے شہریوں کو گولی مارنے کا حق بھی حاصل نہیں‘ یہ ظلم ہے اور یہ ظلم بھی پنجاب میں ہوا تھا لیکن سوال یہ ہے اس ظلم کا حساب کون مانگ رہا ہے؟ آپ کسی دن سانحہ ماڈل ٹاﺅن کا حساب کرنے والوں کے ماضی کا تجزیہ کرلیں‘ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے‘
آپ ان میں سے کسی سے ماڈل ٹاﺅن میں شہید ہونے والوں کے نام پوچھ لیجئے‘ آپ ان سے یہ پوچھ لیں کیا تم لوگ ماڈل ٹاﺅن کے کسی شہید کے گھر گئے‘ کیا تم نے کسی یتیم بچے یا بیوہ کے سر پر ہاتھ رکھا‘ آپ کو ان کے جواب میں اپنے ہر سوال کا جواب مل جائے گا‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دل سے یہ سوال بھی پوچھ لیجئے کیا واقعی میاں شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی سزا دی جا رہی ہے؟آپ کو باقی کہانی اس سوال کے جواب میں سمجھ آ جائے گی‘ آپ کسی دن یہ بھی سوچ لیجئے یہ تنقید کون لوگ کر رہے ہیں‘
کیا ان لوگوں کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا تھا‘ کیا یہ لوگ اقتدار میں نہیں تھے یا یہ اقتدار میں نہیں ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں آج ملک کی تمام بڑی پارٹیاں اقتدار میں ہیں چنانچہ یہ لوگ وہ تبدیلی اپنے اپنے صوبوں میں کیوں نہیں لے آئے جو یہ پنجاب میں تلاش کر رہے ہیں یا یہ وہ انقلاب اس وقت کیوں نہیں لے آئے تھے جب عوام نے انہیں اقتدار کی مسند پر بٹھایا تھا‘ شیخ رشید آج ماڈل ٹاﺅن کے شہداءکا حساب مانگ رہے ہیں لیکن یہ اس جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے جس نے اسلام آباد میں مکا لہرا کر کراچی میں 48لوگ مروا دیئے تھے اور لال مسجد میں معصوم بچیوں پر فاسفورس بم گرا دیئے تھے‘
قوم نے شیخ رشید کے منہ سے آج تک لال مسجد اور سانحہ بارہ مئی کے شہداءکا ذکر نہیں سنا‘ کیوں؟ میاں شہباز شریف کا استعفیٰ مانگنے والے شیخ رشید نے لال مسجد اور بارہ مئی کے شہداءپر استعفیٰ کیوں نہیں دیا تھا؟ آصف علی زرداری دس برسوں میں بے نظیر بھٹو کے قاتل نہیں پکڑ سکے لیکن یہ ماڈل ٹاﺅن کے شہداءکا قاتل گرفتار کرنا چاہتے ہیں‘ کیوں؟ اور آپ کسی دن عمران خان کے ان تمام ساتھیوں کا پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجئے جو ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کےلئے میدان کارزار میں سرگرداں ہیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
ہمیں اب یہ روش چھوڑنی ہو گی‘ ہم کچھ کریں یا نہ کریں لیکن ہمیں کم از کم کام کرنے والوں کی قدر ضرور کرنی ہو گی‘ ہمیں سو فیصد احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے‘ یہ زیادتی ہے اورمیاں شہباز شریف کے ساتھ ہم بھی زیادتی کر رہے ہیں‘ اپوزیشن بھی زیادتی کر رہی ہے اور ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف بھی انہیں ان کا کریڈٹ نہیں دے رہے‘ یہ بھی ان کا کنٹری بیوشن نہیں مان رہے ‘یہ جلے ہوئے زخم پر نمک کے چھڑکاﺅ کے برابر ہے‘یہ زیادتی ہے۔