ولیم جوزف بل براٹن کو دنیاکے عظیم پولیس چیف کا اعزاز حاصل ہے‘ یہ ”سپر کاپ“ سمجھے جاتے ہیں‘ یہ 1947ء میں پیدا ہوئے‘ بوسٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے پولیس چیف بن گئے‘یہ امریکی تاریخ کے نوجوان ترین پولیس چیف تھے‘ 1990ء کی دہائی میں روڈی جویلانی نیویارک کے میئر بنے اوردنیا کے معاشی دارالحکومت کو کرائم فری بنانے کا فیصلہ کیا‘ جویلانی کو پوری دنیا میں بل براٹن کے علاوہ
کوئی شخص اس کام کیلئے اہل دکھائی نہیں دیا‘ یہ بوسٹن گیا‘ بل براٹن سے ملا اور اسے نیویارک آنے کیلئے تیار کر لیا‘ بل براٹن 1994ء سے 1996ء تک نیویارک کے پولیس چیف رہے اور صرف دو سال میں دنیا کے بدترین شہر نیویارک کو پرامن ترین شہر بنا دیا‘ بل براٹن نے شہر کو ہر قسم کے جرم سے پاک کر دیا‘ یہ اس کے بعد لاس اینجلس کے پولیس کمشنر رہے‘ یہ 2014ء میں دوبارہ نیویارک کے پولیس چیف بنائے گئے اور صدر اوبامہ نے انہیں ہوم لینڈ سیکورٹی ایڈوائزری کونسل کا وائس چانسلر بنا دیا‘ آپ کو یاد ہو گا اگست 2011ء میں برطانیہ میں خوفناک فسادات پھوٹ پڑے تھے‘ لندن‘ برمنگھم‘ مانچسٹر‘ ناٹنگھم اوربرسٹول میں ہنگامے ہوئے‘ 5افراد ہلاک اور 202زخمی ہوئے‘ زخمی ہونے والوں میں 186 پولیس اہلکار تھے‘300ملین پاؤنڈزکا نقصان ہوا‘ ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ ڈیوڈ کیمرون کو پوری دنیا میں صرف بل براٹن واحد شخص نظر آئے جو برطانیہ کو مستقبل میں فسادات کے خطرات سے بچا سکتے تھے‘ ڈیوڈ کیمرون نے بل براٹن کو لندن بلایااور پولیس کی تربیت اور ”ری شیپنگ“ کا ٹاسک دے دیا‘ یہ برطانیہ کی تاریخ کے پہلے غیر ملکی پولیس ایڈوائزر تھے‘ براٹن نے چند ماہ کام کیا‘ فارمولہ بنایا‘ یہ فارمولہ وزیراعظم کے حوالے کیا اور واپسی کا اعلان کر دیا‘ ڈیوڈ کیمرون نے انہیں روکنے کی کوشش کی‘ برطانیہ کے قانون کے مطابق کوئی غیر ملکی حکومت کا عہدیدار نہیں ہو
سکتا‘وزیراعظم نے یہ قانون بدلنے‘ بل براٹن کو شہریت‘ وزارت‘ بھاری تنخواہ اور مراعات کی پیش کش کر دی لیکن بل براٹن نے معذرت کرلی‘ یہ امریکا واپس چلے گئے‘ یہ اس وقت 65 برس کے تھے‘ یہ اگر ڈیوڈ کیمرون کی بات مان لیتے تو یہ زندگی کے آخری سال بہت اچھے گزار سکتے تھے لیکن یہ تمام آفرز کو لات مار کر اس امریکا میں واپس آ گئے جہاں ریٹائرڈ لائف کے علاوہ ان کیلئے کچھ نہیں تھا‘ بل براٹن برطانیہ سے امریکا کیوں واپس گئے؟ یہ کیوں اس وقت دنیا کا مہنگا ترین کیوں ہے۔
امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سے لوگ دوسرے ملکوں میں نقل مکانی نہیں کرتے‘ امریکی شہری اپنی شہریت نہیں بدلتے‘ یہ دوسرے ملکوں میں جائیدادیں نہیں خریدتے‘ کمپنیاں نہیں بناتے اور فیکٹریاں نہیں لگاتے اور یہ اگر کبھی یہ غلطی کر بیٹھیں تو یہ بہت جلدواپس امریکا آ جاتے ہیں‘ کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ ہے‘ امریکا میں تین بڑی خوبیاں ہیں‘ قانون‘ انصاف اور ترقی کے مساوی مواقع‘ آپ اگر امریکا میں ہیں تو آپ جرم کے بعد قانون سے بچ نہیں سکیں گے خواہ آپ کوئی بھی ہوں‘
امریکی محاورہ ہے آپ امریکا میں جو چاہیں کریں بس قانون نہ توڑیں‘ امریکا قانون کی پابندی میں دنیا میں سب سے آگے ہے چنانچہ لوگ خود کو جتنا محفوظ امریکا میں محسوس کرتے ہیں یہ اتنا کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوتے‘ امریکا کی دوسری خوبی انصاف ہے‘ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس میں جج ریٹائر نہیں ہوتے‘ جج کیلئے کرائی ٹیریا انتہائی سخت ہے‘ جج کا تقرر صدر کرتاہے اورتقرری کی توثیق سینٹ کرتی ہے‘ امیدوار کا نام مشتہر کیا جاتا ہے اور اگر اس امیدوار پر کرپشن کا ایک بھی الزام لگ جائے تو وہ فہرست سے ڈراپ ہو جاتا ہے‘
امریکا میں جج بننے کے بعد جج مرنے تک جج رہتا ہے اور امریکا میں کوئی شخص جج کے فیصلے کے خلاف منہ نہیں کھول سکتا وہ شخص خواہ صدر ہی کیوں نہ ہو‘ آپ امریکی ججوں کی رٹ ملاحظہ کیجئے‘ امریکا کے ایک جج مل ولے فولر نے 1893ء میں ٹماٹر کو سبزی قرار دیا تھا‘ ٹماٹر اس سے قبل پھل ہوتا تھا‘ یہ اس کے بعد پوری دنیا میں سبزی ہو گیا‘ عافیہ صدیقی چند سال بگرام میں قید رہی‘ یہ 2008ء میں جوں ہی امریکا پہنچی‘ امریکی عدالتوں نے سنگین ترین الزامات کے باوجود اسے وہ سارے قانونی حقوق دیئے جو خواتین کو اسلامی مملکتوں میں بھی حاصل نہیں ہیں‘
امریکا نے ریمنڈ ڈیوس کو چھڑانے کیلئے پورا سفارتی زور لگایالیکن یہ جب امریکا میں پارکنگ کے مسئلے پر جیف میس سے الجھ پڑا تو یہ گرفتار بھی ہوااور اس نے1750 ڈالر جرمانہ بھی ادا کیا اور رچرڈ نکسن جیسا دانشور صدر امریکی نظام عدل کی وجہ سے صدارت سے گیا اور بل کلنٹن کنارے سے گرتا گرتا بچا‘ امریکا کے شہریوں کو یہ انصاف کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتا چنانچہ یہ امریکا کی زمین نہیں چھوڑتے اور تیسری خوبی امریکا اپنے شہریوں کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ ترقی کے مواقع دیتا ہے‘
آپ نیلے ہیں‘ کالے ہیں‘ پیلے ہیں یا سفید ہیں‘ آپ پڑھے لکھے ہیں یا ان پڑھ ہیں امریکا میں آسمان آپ کی حد ہوگا‘ آپ قانون کے دائرے میں رہ کر جو چاہیں کریں جہاں تک پہنچنا چاہیں پہنچیں‘ آپ کو کوئی نہیں روکے گا‘ صدر باراک حسین اوبامہ کے والد نے اپنے ملک کینیا میں مشکل زندگی گزاری‘ اوبامہ کے بہن بھائی آج بھی غربت میں لتھڑے ہوئے ہیں لیکن باراک حسین اوبامہ سیاہ فام‘ اسلامی نام اور مسلم خون کے باوجود دنیا کی واحد سپر پاور کے دو بار صدر بنے‘ ڈونلڈ ٹرمپ بھی پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود صدر بن گئے‘
بھارتی نوجوان سندر پچائی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی گوگل کا سی ای او بن گیا‘ واٹس ایپ کا موجد یوکرین سے نقل مکانی کر کے امریکا آیا‘ یہ پوری زندگی امداد پر پلتا رہا اور یہ آخر میں دنیا کے کامیاب ترین نیٹ ورک کا مالک بن گیا‘ فیس بک کا مالک مارک زکر برگ23 برس کی عمر میں ارب پتی بن گیا اور بل گیٹس 18سال دنیا کا امیر ترین شخص رہا‘ امریکا میں کسی شخص‘ کسی ادارے نے ان لوگوں کو ترقی سے نہیں روکا‘ امریکی شہریوں کو ترقی کے یہ مساوی مواقع دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتے‘
یہ وہاں ارب پتی نہیں بن سکتے‘ یہ وہاں صدارت تک بھی نہیں پہنچ سکتے چنانچہ یہ امریکا نہیں چھوڑتے‘ یہ بل براٹن کی طرح برطانیہ کی وزارت چھوڑ کر امریکا واپس آ جاتے ہیں۔میں پچھلے چند دنوں سے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور میاں نواز شریف دونوں کو خاصی تکلیف میں دیکھ رہا ہوں‘ چیف جسٹس بھی ملک میں انصاف کی کمی محسوس کر رہے ہیں اور میاں نواز شریف بھی وکیلوں کی فیسیں دے دے کر تھک گئے ہیں‘ یہ بھی”مجھے بتائیں مجھے کس جرم میں نکالا گیا اور ملک میں انصاف اتنا مہنگا ہے مجھے معلوم نہیں تھا“جیسی دہائیاں دے رہے ہیں‘ یہ نظام عدل ٹھیک کرنے کیلئے اقتدار میں دوبارہ واپس آنا چاہتے ہیں‘
چیف جسٹس کو بھی محسوس ہورہا ہے ملک میں تعلیم نہیں‘ میڈیکل کالج مذبحہ خانے ہیں اور لوگوں کو صاف پانی نہیں مل رہا‘ یہ دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ ملک کی حالت ان کی سوچ سے بھی بری ہے‘ ملک میں انصاف تو دور امن‘ پانی اور نوکری بھی دستیاب نہیں‘ گنے کے کاشتکار اپنی کھڑی فصل کو آگ لگا رہے ہیں‘ جعلی دودھ کی فیکٹریاں پکڑی جا رہی ہیں‘ بلوچستان کی پوری اسمبلی راتوں رات دائیں سے بائیں ہو گئی‘ وکیل عدالتوں میں کھڑے ہو کر ججوں کو ننگی گالیاں دیتے ہیں‘
قصور شہر میں چھوٹی بچیاں غواء ہو کر قتل ہو رہی ہیں‘ ہجوم تھانوں پر دھاوے بول رہے ہیں‘ فیض آباد میں ہزار بندے جمع ہوتے ہیں اور نیو کلیئر جوہری ریاست کی عزت مٹی میں ملا دیتے ہیں چنانچہ حالات وہم وگمان سے زیادہ خراب ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں چیف جسٹس عوام کو صاف پانی دلانے کیلئے اورنج لائین ٹرین اور میٹرو روک دیں اور میاں نواز شریف نظام عدل ٹھیک کرتے کرتے موجودہ عدالتوں کا بھرکس بھی نکال دیں‘ آپ اگر ملک میں واقعی انقلاب چاہتے ہیں‘
آپ اگر واقعی ملک کی حالت بدلنا چاہتے ہیں تو پھر آپ یہ تین کام کر دیں‘ قانون‘ انصاف اور ترقی کے مساوی مواقع‘ یہ ملک بدل جائے گا‘ چیف جسٹس صاحب یہ فیصلہ کر لیں عدالتیں عوامی بہبود کا کوئی منصوبہ نہیں روکیں گی‘ پانی کی سکیم ہو یا اورنج لائین ٹرین ملک میں ہر ترقیاتی منصوبہ وقت پر مکمل ہونا چاہیے‘ آپ کو حکومت کی نیت پر شک ہے یا آپ سمجھتے ہیں کرپشن ہو رہی ہے‘ آپ لاکھ انکوائریاں کریں‘ آپ درجنوں لوگوں کو سزا دیں لیکن منصوبہ بند ہونا چاہیے‘
تاخیر کا شکار ہونا چاہیے اور نہ ہی رکنا چاہیے‘ ہمیں صاف پانی چاہیے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہم صاف پانی کے چکر میں عوام کو اورنج لائین ٹرین سے بھی محروم کر دیں‘ یہ کہاں کی عقل مندی ہو گی‘ ملک میں جو منصوبہ چل رہا ہے آپ اسے چلنے دیں اور جو نہیں چل رہا آپ اس پر حکومت کو الٹا لٹکا کر جوتے ماریں‘ پوری قوم آپ کا ساتھ دے گی‘ ہمیں پرائیویٹ منصوبوں کے معاملے میں بھی اپنی اپروچ بدلنا ہوگی‘ عدالت نے کراچی میں پانی کی کمی کی وجہ سے اپارٹمنٹ عمارتوں پر پابندی لگا دی‘
کیا اس سے کراچی کے لوگوں کو پانی مل جائے گا؟نہیں! چنانچہ آپ عمارتیں بھی بننے دیں اور حکومت اور پرائیویٹ ڈویلپرز کو پانی کا بندوبست کرنے کا حکم بھی دیں تاکہ کام بھی چلتا رہے اور ترقی بھی ہوتی رہے‘ آپ اسی طرح ملک میں جو شخص کام کر رہا ہے آپ اسے کرنے دیں اور جو نہیں کر رہا آپ اس کا احتساب کریں‘ ہم ساٹھ ساٹھ سال تک کام نہ کرنے والوں کو پوچھتے نہیں لیکن کرنے والوں کو عدالتوں کے برآمدوں میں رول دیتے ہیں‘
یہ کہاں کی عقل مندی ہے اور میاں نواز شریف بھی اگر ملک کا نظام عدل ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو یہ اپنی ذات سے صفائی کا عمل شروع کریں‘ یہ اپنا سرمایہ اور اپنے بچے واپس لائیں‘ یہ اپنی غلطیاں تسلیم کرلیں‘ سسٹم کو ٹھیک کریں‘ ٹیکس کی شرح اور نظام بہتر بنائیں اور جرائم کو روک لیں‘ عدالتی نظام ٹھیک ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں چیف جسٹس ہو یا وزیراعظم یہ سڑکوں پر لوگوں سے پوچھتے رہیں گے مجھے کیوں نکالا اور لوگ قہقہے لگا کر ہنستے رہیں گے۔