ایک اور آپشن بھی موجود ہے‘ ہم اس آپشن کو چینی ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اس آپشن کی طرف جانے سے پہلے چینی ماڈل کی تشریح کریں گے۔چین میں ایک پارٹی نظام ہے‘یہ نظام چین کی کمیونسٹ پارٹی چلاتی ہے‘ پارٹی کی اس وقت تین تہیں ہیں‘ پہلی تہہ نیشنل پیپلز کانگریس کہلاتی ہے‘ اس کے تین ہزار ارکان ہوتے ہیں‘ یہ ارکان پورے ملک اور تمام سرکاری اداروں سے لئے جاتے ہیں‘ فوج اور بیوروکریسی کے نمائندے بھی ان میں
شامل ہوتے ہیں‘ دوسری تہہ سٹیڈنگ کمیٹی کہلاتی ہے‘ اس میں 150 ارکان ہوتے ہیں‘ یہ ارکان کانگریس سے لئے جاتے ہیں‘ یہ ارکان آگے چل کر پولٹ بیورو بناتے ہیں‘ پولٹ بیورو میں 7 ارکان ہوتے ہیں‘ بیورو کا سیکرٹری جنرل ملک کا صدر بن جاتا ہے‘ وزیراعظم بھی اسی بیورو سے لیا جاتا ہے‘ یہ سسٹم چیئرمین ڈینگ ژاپنگ نے 1980ءکی دہائی میں بنایا تھا‘ ان سے قبل پورا ملک چار لوگ چلاتے تھے‘ یہ چار لوگ ”گینگ آف فور“ کہلاتے تھے‘ یہ لوگ مرنے تک حکمران تھے‘ یہ پرانے خیالات کے حامی تھے‘ یہ جدید دنیا کو دیکھنے کےلئے تیار نہیں تھے‘ دنیا میں اس وقت ڈیجیٹل انقلاب آ رہا تھا‘ مائیکرو ویو‘ کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور آٹو میٹک گاڑیاں دنیا کے دروازے پر کھڑی تھیں‘ ملکوں کی سرحدیں بھی کھلنے کےلئے پرتول رہی تھیں اور دنیا گلوبل اکانومی کی طرف بھی سرپٹ دوڑ رہی تھی‘چیئرمین ڈینگ ژاپنگ نے محسوس کیا پارٹی کے سینئر لوگ قدامت کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں‘ یہ لوگ صندوق سے باہر جھانکنے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ ہم نے اگر ان لوگوں کے خیالات یا انہیں تبدیل نہ کیا تو چین عالمی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا‘یہ اٹھے اورانہوں نے اپنے سمیت پوری مرکزی قیادت کے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا‘فیصلہ ہوا کوئی شخص دوبار سے زیادہ صدر بھی نہیں رہ سکے گا اور یہ ستر سال سے قبل ریٹائر بھی ہو جائے گا‘انہوں نے یہ فیصلہ بھی کر دیا کوئی شخص 65 سال کے
بعد وزیر بھی نہیں بن سکتا‘ یہ فیصلہ چین کے مقدر کا اہم فیصلہ ثابت ہوا‘ چین آج دنیا کی معاشی سپر پاور ہے‘ یہ جراب سے لے کر جہاز تک پوری دنیا کی ضروریات پوری کر رہا ہے‘ آپ کو آج امریکا کے جھنڈے‘ مکہ مکرمہ کی جائے نمازوں‘ ویٹی کن سٹی کی صلیبوں‘ یوروشلم کی تسبیحوں اور تبت کے بھکشوﺅں کی کھڑاﺅں کے پیچھے بھی ”میڈ ان چائنہ“ کا سٹکر ملتا ہے‘ چین کے ذرمبادلہ کے ذخائر 3.3ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جبکہ یہ ہر سال عالمی منڈیوں میں 2.3ٹریلین ڈالر کا سامان فروخت کرتا ہے‘
یہ سارا کمال 1980ءکے ایک فیصلے کا تھا‘اس فیصلے نے چین کی صنعتی اور معاشی سرحدیں کھول دیں‘ یورپ اور امریکا کی کمپنیوں کو چین کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دی اور کمال ہو گیا‘ آج چین جہاں کھڑا ہے اس کی بنیادوں میں 1980ءکے اس ایک فیصلے نے اہم کردار ادا کیا۔ہم اب پاکستانی آپشن کی طرف آتے ہیں‘ ہمیں آج تسلیم کرنا ہوگا پاکستانی سیاست بری طرح پھنس چکی ہے‘ ہم آگے جا رہے ہیں اور نہ ہی پیچھے‘ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی مقبول ترین جماعت تھی‘
یہ پارٹی پچاس سال تک پہنچتے پہنچتے ایک صوبے تک محدود ہو چکی ہے اور یہ صوبہ بھی 2018ءمیں پارٹی کے ہاتھوں سے نکل جائے گا‘ سندھ میں اگلی حکومت ”کوالیشن“ ہو گی‘ سات گروپ مل کر حکومت بنائیں گے اور وہ حکومت بھی چل نہیں سکے گی‘ آصف علی زرداری بھی جلد یا بدیر میاں نواز شریف کی طرح عدالتوں میں دھکے کھارہے ہوں گے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آ رہے ہیں‘ میاں نواز شریف کے پاس میاں شہباز شریف کا آپشن موجود تھا‘
یہ میاں شہباز شریف کو آگے آنے دیتے اور یہ مریم نواز کو پنجاب میں ایڈجسٹ کر دیتے تو شاید یہ سسٹم چل جاتا لیکن میاں نواز شریف کی ضد کی وجہ سے آج میاں شہباز شریف بھی گرفتاری کے قریب ہیں‘ علامہ طاہر القادری اب عمران خان اور آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر عوامی تحریک بھی چلائیں گے اور یہ عدالت سے بھی رجوع کریں گے اور عدالت کا فیصلہ میاں شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ دونوں کےلئے کافی ہو گا‘ یہ بھی عدالتوں میں دھکے کھاتے نظر آئیں گے‘
پیر صاحب سیال شریف دو ایم این اے اور تین ایم پی ایز کے استعفے اپنی جیب میں ڈال چکے ہیںبس حکومت کے ہلنے کی دیر ہے یہ استعفے پانچ سے پچاس ہوتے دیر نہیں لگائیں گے‘ وفاق میں بھی ناراض گروپ ابھی تک زندہ ہے‘ یہ درست ہے میاں نواز شریف نے لندن سے واپس آ کر اس گروپ کو بڑی حد تک راضی کر لیا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے ابھی اس گروپ کا ہاتھ پکڑنے والے سامنے نہیں آئے‘ جس دن ہاتھ کی طرف ہاتھ بڑھ گیا یہ لوگ اس دن خفیہ ہاتھ کے ساتھ لٹک جائیں گے‘
پارٹی اس دن اوور ہو جائے گی اور وہ وقت 5 فروری سے پہلے پہلے آ جائے گا‘ ایم کیو ایم کا حشر آپ کے سامنے ہے‘ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو بھی 2018ءکے الیکشن میں اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے‘ یہ ایم ایم اے کی بحالی کےلئے کوشاں ہیں‘ یہ چاہتے ہیں مذہبی سیاسی جماعتیں 2002ءکی طرح اکٹھی ہوجائیں‘ یہ مل کر ووٹ حاصل کریں اور مولانا فضل الرحمن ان ووٹوں کو ”کیش“ کرا لیں‘ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے‘
ملک کی تمام روایتی جماعتوں کے انقلابی ٹوٹ ٹوٹ کر پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے یہ پارٹی ابھی پارٹی نہیں بنی‘ پارٹی میں شامل ہونے والے نئے ارکان تاحال دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں‘ عمران خان کے خلاف بھی جس دن کوئی فیصلہ آ گیا یہ پارٹی بھی تتر بتر ہو جائے گی‘ بنی گالہ کی رونقیں اجڑ جائیں گی اور پارٹی اسد عمر کو وزیراعظم بنانے کےلئے ایک بار پھر جنرل پاشا کی مدد لینے پر مجبور ہو جائے گی۔یہ حالات ملک کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں‘ معیشت کا برا حال ہے‘
داعش ہماری سرحدوں تک پہنچی چکی ہے اور فوج کو ایک عالمی ایجنڈے کے تحت کمزور بھی کیا جارہا ہے‘ تھکایا بھی جا رہا ہے اور اس کی کریڈیبلٹی کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے چنانچہ آپ ذرا تصور کیجئے یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو پانچ دس سال بعد ہماری فوج کی کیا صورتحال ہو گی‘ کیا یہ جنگ لڑنے کے قابل رہ جائے گی‘ سیاست بازی کی وجہ سے مذہبی عناصر بھی مضبوط ہو رہے ہیں اور یہ لکھی پڑھی حقیقت ہے‘ مذہبی منافرت جب گلیوں میں پھرنا شروع ہو جائے تو پھر ریاستوں کو کوئی نہیں بچا سکتا‘
ریاستیں پھر برف کی ڈلیوں کی طرح پگھلنے لگتی ہیں۔یہ صورتحال خطرناک ہے لیکن ہمارے سیاستدان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ آسانی کے ساتھ ملک کو اس خطرناک صورتحال سے نکال سکتی ہے‘ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز ایک نیا عمرانی معاہدہ کریں‘ فوج یہ اعلان کر دے یہ کسی بھی حالت میں اقتدار میں نہیں آئے گی اور یہ اگر کبھی مجبور بھی ہو ئی تو یہ 90 دن سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہے گی‘ یہ الیکشن کرائے گی اور حکومت منتخب نمائندوں کے حوالے کر دے گی‘ فوج کسی ملٹری ڈکٹیٹر کو قبول نہیں کرے گی‘
یہ کسی یونیفارم صدر کو سلیوٹ نہیں کرے گی‘ سیاسی جماعتوں کے سربراہان اعلان کر دیں یہ تمام لوگ 2018ءکے الیکشن سے قبل ریٹائر ہو جائیں گے‘ آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ عمران خان‘مولانا فضل الرحمن چودھری شجاعت حسین‘ سراج الحق‘ اسفند یار ولی اور محمود اچکزئی 2018ءمیں الیکشن نہیں لڑیں گے تاہم یہ پارٹی صدر بن کر اپنی پارٹیاں سنبھال سکتے ہیں‘ یہ اس کے بعد ملک کے تمام عہدوں‘ وزارتوں اور سفارتوں کےلئے بھی ریٹائرمنٹ کی عمر طے کر دیں‘
ہم اگر آرمی چیف کو 60‘سپریم کورٹ کے ججوں کو 65(ہائی کورٹ کے جج62سال کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں )اور وفاقی سیکرٹریوں کو 60سال میں ریٹائر کر دیتے ہیں تو پھر ہم صدر‘ وزیراعظم‘ وزارت اور مشاورت کےلئے قبر رسیدہ بزرگوں کا انتخاب کیوں کرتے ہیں‘ وزیر بھی 65 سال کے بعد وزارت کےلئے نااہل ہونا چاہیے اور وزیراعظم اور صدر بھی‘ ہم یہ فیصلہ بھی کریں ملک کا کوئی سرکاری عہدیدار خواہ یہ فوجی ہو‘ بیوروکریٹ یا پھر سفیر یہ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کسی سرکاری منصب پر تعینات نہیں ہو گا‘
یہ سفیر‘ مشیر اور وزیر نہیں بن سکے گا تاہم سیاسی جماعتیں اپنے اپنے تھنک ٹینکس بنائیں‘ یہ پالیسی کالجز اور سیاسی سکولز بنائیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کا شوق پورا کرنے کے متمنی بزرگوں کو ان سکولز اور کالجز میں کھپائیں‘ یہ لوگ وہاں بیٹھ کر نئی پالیسیاں بنائیں اور حکومتیں یہ پالیسیاں نافذ کریں‘ ملک کی سول اور ملٹری قیادت مل کر فیصلہ کرے پارلیمنٹ کے تمام ارکان اپنی رائے میں آزاد ہوں گے‘ یہ لوگ صدر‘ وزیراعظم‘ چیئرمین سینٹ اور سپیکر کے انتخاب کے دوران اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہوں گے
لیکن یہ ترامیم اور بل کے دوران اپنی رائے میں آزاد ہوں گے‘ یہ اپنی پارٹی کے بل سے اختلاف بھی کر سکیں گے اور یہ اپوزیشن کے بلوں کی حمایت بھی کر سکیں گے لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کسی رکن نے کسی جماعت سے ”تعاون“ لے کرکسی بل کی حمایت یا مخالفت میں ووٹ دیا تھا تو پھر وہ رکن ہمیشہ ہمیشہ کےلئے سیاست کےلئے نااہل ہو جائے گا اور آخری نقطہ پارٹیوں کے اندر خاندانی سیاست پر بھی پابندی لگا دی جائے‘ کوئی والد اپنی کرسی پر اپنے صاحبزادے یا صاحبزادی کو نہ بٹھا سکے۔
آپ یقین کیجئے ہمارے سیاستدان اگر یہ قدم اٹھا لیں‘ یہ اگر خود ریٹائرمنٹ لے لیں اور ملک کو سیاسی ریٹائرمنٹ کا پلان دے دیں تو یہ ملک بھی بچ جائے گا اور یہ لوگ بھی ورنہ یہ لوگ قدرت کے ہاتھوں ریٹائر ہوں گے اور جب قدرت کسی فرد یا خاندان کو ریٹائر کرتی ہے تو پھر وہ شخص صدام حسین‘ حسنی مبارک اور کرنل قذافی بن کر تاریخ کے صفحوں میں عبرت بن جاتا ہے۔