ریاست کے چار ستون ہوتے ہیں‘ پارلیمنٹ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ اور عوام‘ 2017ءکے مہینے نومبر میں ریاست کے یہ چاروں ستون گر گئے‘جس کے بعد ہم اب ملبے کا ایک ڈھیر ہیں اور بس۔آپ کو ہو سکتا ہے میری بات جذباتی لگے‘ آپ ہو سکتا ہے مجھے باغی یا منفی ذہنیت کا پاگل شخص قرار دے دیں‘ آپ مجھے ضرور قرار دیں لیکن آپ اس سے پہلے میرے چند سوالوں کا جواب دیں اور آپ اس کے بعد مجھے جو چاہیں قرار دے دیں‘ پارلیمنٹ ریاست
کا پہلا بنیادی ستون ہوتا ہے‘کیا آپ کو نومبر کے مہینے میں یہ ستون کہیں دکھائی دیا‘ آئین کی متنازعہ ترمیم 34رکنی کمیٹی نے تیار کی‘ کمیٹی میں حکومت کے 8‘ پیپلز پارٹی کے 5 ‘پی ٹی آئی کے 4‘ جے یو آئی‘ایم کیو ایم اورفاٹا کے دو دو ارکان اور جماعت اسلامی‘اے این پی‘ عوامی مسلم لیگ‘ نیشنل پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (فنکشنل)‘ ق لیگ‘ مسلم لیگ ضیائ‘ قومی وطن پارٹی‘ پختونخواہ میپ‘ عوامی جمہوری اتحاد اوربی این پی (عوامی) کا ایک ایک رکن شامل تھا‘ شیخ رشید بھی اس کمیٹی کا حصہ تھے‘ آپ ان 34 ارکان سے حلف لیں کیا ان لوگوں نے بل پر دستخط کرنے‘ بل قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیش کرنے اور بل کی حمایت میں ووٹ دینے سے قبل یہ بل پورا پڑھا تھا؟مجھے یقین ہے ایک بھی شخص حلف کےلئے آگے نہیں بڑھے گا‘ کیا یہ حقیقت نہیں یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہوا اور شیخ رشید سمیت بل پر اعتراض کرنے والے تمام ارکان نے بل کی حمایت میں ووٹ دیئے تھے‘ بل میں کوتاہی کی نشاندہی سینٹ میں جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے22 ستمبر کو کی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے حافظ حمد اللہ کے نقطے کی مخالفت کی‘ صرف سینیٹر راجہ ظفر الحق کو غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے زاہد حامد کو حافظ حمد اللہ کی سپورٹ اور بل میں تصحیح کی ہدایت کی‘ حافظ حمد اللہ کی اپنی پارٹی نے اس نشاندہی سے قبل 22 اگست کو قومی اسمبلی میں اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا تھا‘ مذہبی امور کے وزیر مملکت پیرمحمد امین الحسنات شاہ نے بھی قومی اسمبلی میں اس متنازعہ بل کی مخالفت نہیں
کی‘ پیر صاحب خود بھی مشائخ میں شامل ہیں‘ یہ بھیرہ شریف کی مشہور گدی کے امین ہیں لیکن شاید پیر صاحب نے بھی یہ بل نہیں پڑھا تھا‘ اسلام آباد میں سات نومبر کو دھرنا شروع ہوا‘ پوری پارلیمنٹ تماشہ دیکھتی رہی‘ پارلیمنٹ نے 21 دن تماشہ دیکھنے کے علاوہ کیا کیا؟ کیا پارلیمنٹیرینز کا کوئی وفد بنا‘ کیا یہ لوگ دھرنا اٹھانے کےلئے آگے بڑھے‘ کیا یہ پولیس کے پیچھے کھڑے ہوئے اور کیا پارلیمنٹ نے خود کو ریاست کا اہم ستون ثابت کیا؟ جی نہیں‘ یہ بل اگر فساد تھا تو پارلیمنٹ اس فساد کی جڑ بھی تھی‘
پارلیمنٹ سے فساد کی اس آگ پر تیل بھی چھڑکا جاتا رہا اور یہ تماشہ بھی دیکھتی رہی لہٰذا کیا یہ ریاست کے اہم ترین ستون کی ناکامی نہیں تھی؟ انتظامیہ ریاست کا دوسرا ستون ہوتا ہے‘ یہ ستون فوج‘ پیرا ملٹری فورسز‘ پولیس‘ ڈیم ایم جی (ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ) اور خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل ہوتا ہے‘ ہماری انتظامیہ نے 21 دن کیا کیا؟مظاہرین اکٹھے ہوتے رہے‘ یہ پنجاب سے اسلام آباد آ گئے‘ پنجاب کی انتظامیہ نے انہیں آرام سے اسلام آباد جانے دیا‘ یہ وفاقی دارالحکومت میں آ کر بیٹھ گئے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی‘
حکومت نے 25 نومبر کو آپریشن لانچ کیا‘ پولیس فورس بری طرح ناکام ہو ئی‘ پنجاب پولیس کے دستے بھاگ گئے‘ رینجرز پانچ سو میٹر پیچھے خاموش کھڑے رہے اور ایف سی اور اسلام آباد پولیس کے جوان زخمی ہوتے رہے‘ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کےلئے ایمبولینسز تک موجود نہیں تھیں‘ پولیس اور ایف سی کے 180 جوان اس وقت زخمی پڑے ہیں‘ حکومت کے کسی وزیر نے ان کا حال تک نہیں پوچھا‘ فوج بلائی گئی تو آرمی چیف نے دونوں فریقین کو افہام و تفہیم کا مشورہ دے دیا‘
کیا فوج انتظامیہ کا حصہ نہیں تھی اور کیا ریاست اور ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے دونوں فریق ہوتے ہیں اور آخر میں حل کیا نکالا گیا‘ وہ لوگ جو ریاست کو ننگا کر گئے‘ جنہوں نے میٹرو سٹیشن توڑ دیا‘ لوگوں کی گاڑیاں جلا دیں‘ دکانوں اور گھروں کو آگ لگا دی‘ پٹرول پمپ نذر آتش کر دیا‘ پولیس کے ٹرک اور وینز کو راکھ بنا دیا اور جو 21 دن تک سڑکیں بلاک کر کے بیٹھے رہے ریاست نے ان کی تمام شرائط مان لیں‘ وفاقی وزیر سے استعفیٰ لے لیا گیا‘مظاہرین کے خلاف دہشت گردی کے مقدمے ختم کر دیئے گئے‘
توڑ پھوڑکرنے‘ آگ لگانے اور سرکاری ملازمین کو ڈنڈے مارنے والوں کو تھانوں سے نکالا گیا‘ انہیں ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل اظہر نوید حیات کے ہاتھ سے ہزار ہزار روپے کے لفافے دلائے گئے‘ ریاست کے سرینڈر کی دستاویز پر میجر جنرل فیض حمید کے دستخط کرائے گئے‘ افسوس ناک معاہدے میں آرمی چیف کا نام لکھا گیا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کرنا شروع کر دی گئیں‘ کیا یہ انتظامیہ کی ناکامی نہیں تھی؟ کیا یہ معاہدہ ثابت نہیں کرتا پاکستان کا دوسرا ستون بھی27 نومبر کو ٹوٹ گیا۔
عدلیہ ریاست کا تیسرا ستون ہوتا ہے‘ عدلیہ نے ان 21 دنوں میں کیا کردار ادا کیا‘ ہماری عدلیہ اس دن تک خاموش بیٹھی رہی جب تک خادم حسین رضوی نے ججوں کو وہ نہیں کہا جو ہم مودی کو کہتے ہیں‘ سپریم کورٹ نے دھرنے کے 15دن بعد21نومبرکو سوموٹو نوٹس لیا ‘23نومبرکو سماعت ہوئی اور اس سماعت کے دوران بھی عدالت کو ”ججوں کو گالیاں دی جارہی ہیں“ پر زیادہ تشویش تھی تاہم جسٹس شوکت عزیز صدیقی عدلیہ کا فرض کفایہ ثابت ہوئے‘ ان کا فیصلہ بھی کلیئر تھا‘
انہوں نے 27 نومبر کو معاہدے کا تیا پانچہ کر کے مرد ہونے کا ثبوت بھی دیا اور عدلیہ کی دو تین فیصد عزت بھی بچا لی ورنہ 21 دنوں میں قوم کو ریاست کا یہ تیسرا ستون بھی کہیں نظر نہیں آیا ‘ ریاست کا تیسرا ستون آج بھی اس غیر آئینی‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی معاہدے پر خاموش ہے‘ یہ آج بھی معاہدہ کرنے والوں کو بلا کر یہ نہیں پوچھ رہا آپ ریاست کی رٹ پر حملہ کرنے والوں کو عام معافی کیسے دے سکتے ہیں؟ آپ ان کے تمام مطالبے کیسے مان سکتے ہیں؟
کیامظاہرین کوئی ملک تھے اور کیا اس ملک نے پاکستان کو فتح کر لیا تھا کہ ہم شکست کی دستاویز پر دستخط کر کے تاوان جنگ ادا کرنے پر مجبور ہو گئے اور ریاست کا چوتھا ستون عوام ہوتے ہیں‘ ریاست پر حملے کے ان 21 دنوں میں عوام کہاں تھے‘ اگر 20 کروڑ لوگ چاہتے تو کیا یہ 2 ہزار لوگوں کو سمجھا نہیں سکتے تھے‘ کیا یہ لوگ خادم حسین رضوی سے درخواست کر کے اپنے راستے نہیں کھلوا سکتے تھے‘کیا یہ لوگوں کی املاک اور میٹرو سٹیشن نہیں بچا سکتے تھے اور کیا ملک بھر کے علماء‘ مشائخ اور مذہبی رہنما خادم حسین رضوی کی منت نہیں کر سکتے تھے لیکن ریاست کا چوتھا ستون عوام بھی تماشہ دیکھتے رہے‘
علماءکرام بھی اسلام ‘ ایمان اور روحانیت کو بدنام ہوتا دیکھتے رہے اور آج بھی کوئی شخص دھرنا دینے والوں سے یہ نہیں پوچھ رہا کیا ہم زاہد حامد کا استعفیٰ لینے یہاں آئے تھے‘ کیا ہم نے صرف زاہد حامد کا استعفیٰ لینے کےلئے پوری ریاست کا جنازہ نکال دیا‘ لوگوں کی اربوں روپے کی پراپرٹی تباہ کر دی‘ قانون کو زندہ درگور کر دیا‘کوئی ان سے نہیں پوچھ رہا دھرنے سے قبل اور دھرنے کے بعد ختم نبوت کے قانون میں کیا تبدیلی آ گئی؟ دھرنے سے پہلے ہی غلطی کی اصلاح ہو چکی تھی اور راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں کمیٹی بھی بن چکی تھی‘
پھر ہم نے ڈنڈوں‘ پتھروں اور ریاست کے زخموں کے علاوہ کیا حاصل کیا؟ کیا ہم یہ اسٹیبلش کرنے کےلئے اسلام آباد آئے تھے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں کسی بھی شخص کے ذریعے قوم کو جذباتی کر کے پورے ملک کا بیڑہ غرق کیا جا سکتا ہے‘ میں آج دعوے سے کہتا ہوں آپ مظاہرین سے حلف لے لیں کیاآپ نے الیکٹورل ریفارمز بل 2017ءپڑھا تھا‘ آپ کو ان میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جس نے پرانا‘ متنازعہ اور نیا بل پڑھا ہو چنانچہ پھر کس بات پر پورا ملک جام کر دیا گیا اور ریاست نے کس قانون کے تحت ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا‘ کیا کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟۔
میں آج پھر خادم حسین رضوی کو اس ملک کا عظیم محسن کہوں گا‘ یہ وہ عظیم ہستی ہے جس نے ساری کسریں پوری کر دیں‘ پہلی کسر جنرل ضیاءالحق کی امریکن سپانسرڈ شریعت نے پوری کی‘ دوسری کسر طالبان اور مذہبی لشکروں نے مسجدوں میں بم دھماکے‘ خودکش حملے اور مزارات‘ امام بارگاہوں ‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو نشانہ بنا کر پوری کی اور آخری کسر خادم حسین رضوی کی گفتگو اور گالیوں نے پوری کر دی چنانچہ قوم کو اگر تھوڑا بہت مغالطہ تھا تو ان 21دنوں میں وہ بھی نکل گیا‘
رضوی صاحب ایسے حملہ آور ثابت ہوئے جنہوں نے ریاست کا ککھ چھوڑا اور نہ ہی مذہب کا‘ یہ ثابت کر گئے ہماری ریاست کے چاروں ستون اندر سے کھوکھلے ہیں‘ عوام بھی تماشائی ہیں‘ عدلیہ بھی‘ انتظامیہ بھی اور پارلیمنٹ بھی‘ ہم سب اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں‘ 27 نومبر کا معاہدہ فوج کی کریڈیبلٹی بھی کھا گیا‘ ہم نے جب میجر جنرل سے اس ہجوم کے حق میں دستخط کرا لئے جسے قانون اور آئین مجرم قرار دے رہاتھا تو پھر باقی کیا بچ جاتا ہے‘ پیچھے کیا رہ جاتا ہے چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر 25 نومبر کو یوم شکست ڈکلیئر کر دیں اور قوم کےلئے لازم قرار دے دیں یہ اس دن کو پسپائی کا دن سمجھ کر منائے‘ شاید ہم اسی طریقے سے خبط عظمت اور قومی مغالطوں سے باہر آ جائیں‘ شاید اس آخری جوتے سے ہی ہماری آنکھ کھل جائے‘ شاید ہم اس ٹھوکر سے ہی انسان بن جائیں ورنہ پسپائی کا یہ سفر رائیگاں تو تھا ہی۔