انسٹی ٹیوٹ ڈی موند عرب میری زندگی کے شاندار تجربات میں سے ایک تجربہ تھا‘ یہ ادارہ 1970ءکی دہائی میں 18 عرب ملکوں نے فرنچ گورنمنٹ کے ساتھ مل کر پیرس میں قائم کیا‘ سینٹ برنارڈ ایونیو پر 27 ہزار میٹر زمین خریدی گئی‘ دنیا کابہترین اسلامی سنٹر بنانے کا اعلان کیا گیا‘ ڈیزائنرز کا مقابلہ ہوا‘ یہ مقابلہ فرانچ آرکیٹیکٹ جین نوویل نے جیتا‘ عمارت پر 23 کروڑ یورو خرچ ہوئے‘ ایک لاکھ 82 ہزار مربع فٹ پر بارہ منزلہ عمارت بنی اور
یہ عمارت دنیا بھر کے مذہبی سکالرز کا قبلہ بن گئی‘ فرنچ حکومت نے دنیا بھر سے اسلام‘ اسلامی کلچر‘ عرب معاشرت اور بین الاقوامی مذاہب پر لاکھوں کتابیں اکٹھی کیں اوریہ کتابیں شیلفوں میں سجا دیں‘ عمارت میں کانفرنس ہال‘ ریستوران اور بک ٹاور بھی بن گیا‘ آپ سیڑھیاں چڑھتے جائیں‘ آپ دائیں بائیں ہزاروں کتابوں کے بک شیلف دیکھتے جائیں اور بارہویں منزل تک پہنچ جائیں‘ آپ دنیا کی کسی اسلامی کتاب کا نام لیں لائبریرین وہ کتاب نکال کر آپ کے ہاتھ میں دے دے گا‘ عمارت کی چھت پر روف ٹاپ ریستوران اور کافی شاپس ہیں‘ آپ بےشک کتاب لے کر چھت پر بیٹھ جائیں‘ آپ پیرس شہر کا نظارہ کریں‘ دریائے سین دیکھیں‘ نوٹرڈیم کا چرچ دیکھیں یا پھر افق سے لے کر افق تک پھیلے شہر کا نظارہ کریں‘ کھانا کھائیں‘ کافی پئیں اور دھوپ میں بیٹھ کر کتاب پڑھتے رہیں پوری عمارت آپ کی یکسوئی میں شریک ہو جائے گی‘ میں نے زندگی میں سینکڑوں لائبریریاں اور اسلامی سنٹر دیکھے ہیں لیکن دنیا میں انسٹی ٹیوٹ ڈی موند عرب کا کوئی جوڑ نہیں‘ آپ کو اگر اسلام‘ اسلامی ثقافت اور اسلامی تاریخ سے دلچسپی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو وسائل دے رکھے ہیں تو آپ زندگی میں کم از کم ایک بار یہ انسٹی ٹیوٹ ضرور دیکھیں‘ علم کا یہ دریا آپ کی ظاہری اور باطنی تمام آنکھیں کھول دے گا۔میں 2002ءمیں پہلی بار ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی تلاش میں وہاں پہنچا تھا‘ ڈاکٹر صاحب ماڈرن اسلامک سکالر تھے‘
وہ میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے‘ بون اور پیرس سے پی ایچ ڈی کی‘ پاکستان کا پہلا آئین بنانے کےلئے 1947ءمیں پاکستان آئے‘ 1948ءمیں مایوس ہو کر پیرس واپس چلے گئے‘ وہ اردو‘ فارسی‘ عربی‘ انگریزی‘ فرنچ‘ جرمن‘ ترکی‘ یونانی‘ اطالوی اور روسی سمیت 22 زبانوں کے ماہر تھے‘ پوری زندگی تحقیق اور تحریر کا کام کیا‘ اسلام پر 250 کتابیں لکھیں‘ احادیث اور قرآن کے تراجم کئے اور فرنچ زبان میں سیرت پر کتاب لکھی‘ پوری زندگی شادی نہیں کی‘ اپنا سارا وقت تحقیق پر صرف کیا‘
ڈاکٹر صاحب انسٹی ٹیوٹ کے قریب رہتے تھے‘ وہ روزانہ وہاں آتے تھے‘ روز کوئی نہ کوئی غیر مسلم ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا تھا‘ آپ نے پوری زندگی ایک کمرے کے فلیٹ میں گزار دی‘ وہ 2002ءبہت ضعیف اور بیمار ہو گئے تھے‘ میں ان کی تلاش میں انسٹی ٹیوٹ ڈی موند عرب پہنچا لیکن پتہ چلا ڈاکٹر صاحب امریکا تشریف لے گئے ہیں‘ میں ان کی آس میں روز انسٹی ٹیوٹ پہنچ جاتا تھا لیکن ملاقات نصیب میں نہیں تھی‘ وہ امریکا میں انتقال فرما گئے لیکن وہ جاتے جاتے انسٹی ٹیوٹ ڈی موند عرب سے میرا تعارف کرا گئے‘
میں اس کے بعد درجنوں مرتبہ اس عمارت میں داخل ہوا اور درجنوں مرتبہ علم کے نئے زاویوں سے متعارف ہوا‘ اس ادارے میں ہر سال لاکھوں سکالرز آتے ہیں‘ ان میں غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں‘ میں جب بھی وہاں جاتا ہوں مجھے وہاں درجنوں یہودی اور عیسائی اسلام پر تحقیق کرتے ملتے ہیں‘ یہ لوگ بعد ازاں اسلام بھی قبول کر لیتے ہیں۔میں 2006ءمیں انسٹی ٹیوٹ گیا‘ میری وہاں داﺅد الخلیلی سے ملاقات ہوئی‘ وہ عربی النسل یہودی تھا ‘ وہ یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی میں عربی ثقافت کا پروفیسر تھا‘
وہ شدت پسندی پر تحقیق کےلئے پیرس آیا تھا‘ میری اس سے ملاقات ہوئی اور ہم دیر تک گفتگو کرتے رہے‘ میں نے اس سے پوچھا ”تم لوگ مسلمانوں کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑدیتے“ داﺅد کی آنکھوں میں چمک آ گئی‘ وہ مسکرا کر بولا ”ہم کب آپ کا پیچھا کر رہے ہیں“ میں نے کہا ”ہم مسلمان امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن یہودی شدت پسند ہمیں سکون کے ساتھ زندگی نہیں گزارنے دے رہے“ داﺅد نے قہقہہ لگایا‘ میز پر آگے کی طرف جھکا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”کیا تم دل سے اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار ہمیں سمجھتے ہو“
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ وہ بولا ”دیکھو محمد (وہ مجھے محمد کہتا تھا) اسلام کےلئے سب سے بڑا خطرہ مسلمان ہیں‘ مسلمانوں کے ہوتے ہوئے دنیا کے کسی شخص کو اسلام کے خلاف سازش کی ضرورت نہیں‘ آپ خود اپنے لئے کافی ہو“ مجھے اس کا جواب برا لگا‘ وہ تھوڑی دیر میرا چہرہ پڑھتا رہا اور پھر بولا ” میرے بھائی آپ ناراض نہ ہوں لیکن یہ حقیقت ہے اسلام نے جتنا نقصان مسلمانوں کے ہاتھوں اٹھایا ہم اسلام کے مخالف مل کر بھی چودہ سو سال میں اسے نہیں پہنچا سکے“ وہ اٹھا‘ ابن عربی پر اپنی ریسرچ کے کاغذات اکٹھے کئے اور اٹھ کر چلا گیا۔
آج داﺅد سے ملاقات کو گیارہ سال ہو چکے ہیں‘ ان گیارہ برسوں میں کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب داﺅد کے الفاظ ہتھوڑا بن کر میرے دماغ پر نہ برسے ہوں‘ میں آج یہ اعتراف کرتا ہوں شروع میں داﺅد کی بات ہضم کرنا میرے لئے مشکل تھا لیکن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قائل ہو گیا‘ دنیا میں اگر اللہ اور اس کے رسول کے دین کےلئے کوئی خطرہ ہے تو وہ ہم جیسے نالائق مسلمان ہیں‘ اسلام کا اصل چیلنج غیر مسلم اور کافر نہیں ہیں‘ اس کا اصل چیلنج مسلمان اور دین کے نام نہاد ٹھیکے دار ہیں‘
ہم نام نہاد مسلمان اور ہمارے جاہل علماءدنیا کے شاندار ترین مذہب اور دنیا کے اعلیٰ ترین انسان اور آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو چکے ہیں اور جب تک ہم موجود ہیں دنیا کا کوئی پیاسا شخص علم‘ ادب اور کلچر کے اس بحر بیکراں تک نہیں پہنچ سکتا‘ آپ اللہ کے اس دین کا المیہ دیکھئے جس کےلئے آخری آیت اتار کر رب کائنات نے فرمایا ”آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا“
آپ کائنات کے اس آخری نبی کی میراث کا المیہ بھی ملاحظہ کیجئے جس نے اپنے امتیوں کےلئے دانت صاف کرنے اور جوتا پہننے تک کی ہدایات وضع کر دی تھیں ہم میں سے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اپنا حلیہ بدلتا ہے اور وہ اللہ اور اللہ کے آخری نبی کے دین کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے اور امام احمد رضا بریلویؒ ہوں‘ مولانا اشرف علی تھانویؒ ہوں یا پھر آیت اللہ خمینی ہوں کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ دنیا کے ہر مذہب میں مذہبی رہنما بننے کےلئے پروٹوکول ہوتا ہے‘
عیسائی بیس سال کی تعلیم و تربیت اور چرچ آف انگلینڈ یا ویٹی کن سٹی کے سر ٹیفکیٹ کے بغیر کسی شخص کو پادری نہیں مانتے‘ ربی خاندانی ہوتے ہیں اور یہ طویل ریاضت کے بعد ربی اعظم کے سر ٹیفکیٹ سے ربی بنتے ہیں‘ پنڈت کےلئے برہمن ہونا اور تیس سال کی تپسیا ضروری ہوتی ہے اور بودھ پوری زندگی جسم پر دو کپڑے لپیٹ کر‘ پاﺅں میں لکڑی کی چپل پہن کر‘ در در بھیک مانگ کر اس سطح پر پہنچتے ہیں جہاں استاد انہیں بھکشو کا درجہ دیتے ہیں‘
یہ انہیں اپنا شاگرد مان لیتے ہیں لیکن اللہ کے آخری دین میں کوئی بھی شخص حلیہ تبدیل کرتا ہے‘ یہ حاجی صاحب‘ شیخ صاحب‘ مولوی صاحب اور رضوی صاحب بنتا ہے اور پورے مذہب کا ٹھیکے دار ہو جاتا ہے‘ آپ کسی دن یہ چیلنج سمجھ کر تحقیق کر لیں آپ کو پورے عالم اسلام میں سنی‘ شیعہ‘ فاطمی‘ دیوی بندی‘ اہل حدیث‘ آغا خانی‘ بورہ اور بریلوی ملیں گے‘ آپ کسی فرقے میں گھس جائیں آپ کو اس فرقے کے اندر بھی دس بیس گروپ اور ہر گروپ کی الگ مسجد مل جائے گی لیکن آپ کو ان میں کوئی سچا مسلمان نہیں ملے گا‘
ہمارے رسول نے زندگی میں جتنے کافروں کو مسلمان کیا تھا ہم آج اس رسول کے نام پر روزانہ اتنے ہی مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں‘ ہم جیسے گناہ گار جب تک ٹوتھ برش نہ کر لیں ہم اپنی زبان سے اپنے رسول کا نام نہیں لیتے لیکن ہمارے علماءکرام کلمہ پڑھ کر‘ درود پڑھ کر اور رسول کے منبر پر بیٹھ کر دوسرے مسلمانوں کو مان بہن کی گالیاں دےتے ہیں‘ یہ انہیں جہنمی‘ کافر اور مرتد قرار دے دیتے ہیں‘ یہ کیا لوگ ہیں؟ آج اگر ہمارے رسول عاشقوں کے اس ہجوم میں اپنا کوئی امتی تلاش کرنا چاہیں تو انہیں شاید ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ملے‘
کوئی ہم جیسے گناہ گاروں کی بے بسی کا اندازہ کرے‘ ہم آج (نعوذ باللہ) اللہ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا ہم اللہ کے ٹھیکیداروں سے ڈرتے ہیں‘ ہم جیسے گناہ گار لوگ اسلامی ملک میں درود شریف پڑھتے ہوئے‘ مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے‘ دین کی کوئی کتاب اٹھاتے ہوئے اور قرآن مجید کی کوئی تفسیر خریدتے ہوئے دائیں بائیں دیکھتے ہیں کہ کوئی ہمیں شیعہ‘ وہابی یا بریلوی نہ سمجھ لے‘ آپ یقین کیجئے میں روز صبح اٹھ کر اپنا خدا تلاش کرتا ہوں اور روز کوئی نہ کوئی دھرنا باز میرے اور میرے خدا کے راستے میں کھڑا ہوجاتا ہے‘
میں روز امتی بننے کےلئے اپنے رسول کی طرف دوڑتا ہوں اور روز عاشقوں کا کوئی نہ کوئی لشکر میرا راستہ روک لیتا ہے‘ آخر ہم جیسے گناہ گار کہاں جائیں‘ آخر ہمارا خدا‘ ہمارا رسول ہمیں کب واپس ملے گا اور آپ یہ بھی یقین کر لیجئے قادیانیوں نے 128برسوں میں شاید اسلام کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا نقصان ہم اسلام کو دھرنوںاور مظاہروں کے ذریعے پہنچا رہے ہیں‘ اسلام آباد کے دھرنے نے ثابت کر دیا ہمارے ہوتے ہوئے اسلام کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں‘ ہم خود ہی اپنے لئے کافی ہیں‘وہ مسلمان ہی کیسا جس کے ہاتھ اور زبان سے کوئی دوسرا مسلمان محفوظ رہ جائے۔