سموگ کا آغاز لندن سے ہوا تھا‘ لوگ 5 دسمبر 1952ءکی صبح اٹھے توشہر گہرے سیاہ دھوئیں میں ڈوب چکا تھا‘ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا تھا‘ حد نظر صفر ہو چکی تھی‘ گاڑیاں گاڑیوں کو نظر نہیں آ رہی تھیں‘ ٹرین ڈرائیور پٹڑی نہیں دیکھ پا رہے تھے‘ پائلٹس کو رن وے نظر نہیں آ رہا تھااوربچے والدین اور میاں بیوی ایک دوسرے کو دکھائی نہیں دے رہے تھے‘ پورا شہر دھند میں گم تھا‘ شام کے وقت پتہ چلا یہ دھند دھند نہیں یہ عذاب
ہے‘ یہ گاڑھا سیاہ دھواں ہے‘ یہ دھواں اگلے دن چار ہزار لوگوں کی جان لے گیا‘ لوگ کھانس کھانس کر دم توڑنے لگے‘ لندن کی سماجی زندگی رک گئی‘ ٹریفک بند ہو گئی‘ ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ فلائیٹس منسوخ ہو گئیں‘ دفتروں اور سکولوں میں چھٹی ہو گئی‘ شاپنگ سنٹرز بند ہو گئے اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا‘ شہر میں سناٹا تھا‘یہ سناٹا ایمبولینسز کی آوازوں سے پنکچر ہوتا تھا‘ قبرستان بھر چکے تھے اور ہسپتالوں میں مردے اور بیمار دونوں ایک بیڈ پر پڑے تھے‘ یہ عذاب پانچ دن جاری رہا‘ نو دسمبر کی رات بارش شروع ہوئی اور فضا آہستہ آہستہ دھل گئی لیکن اموات کا سلسلہ جاری رہا‘ دسمبر کے آخر تک لندن کے بارہ ہزار لوگ انتقال کر چکے تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دمے‘ آشوب چشم‘ ٹی بی اور نروس بریک ڈاﺅن کا شکار تھے‘ ماحولیات کے ماہرین نے تحقیقات شروع کر دیں‘ پتہ چلا 5 سے 9 دسمبر کے دوران لندن کی فضا میں روزانہ ہزار ٹن سموک پارٹیکلز پیدا ہوتے رہے‘ ان میں 140 ٹن ہائیڈرو کلورک ایسڈ‘ 14 ٹن فلورین کمپاﺅنڈ اور 370 ٹن سلفر ڈائی آکسائیڈ شامل ہوتی تھی‘ یہ تمام مادے صحت کےلئے انتہائی مضر تھے‘ ماہرین نے سوچنا شروع کیا ”یہ تمام پارٹیکلز آئے کہاں سے تھے“ پتہ چلا یہ ساڑھے سات سو سال کی غلطیوں کا دھواں ہے‘ یہ سلسلہ 1200ءمیں شروع ہوا تھا‘ ساڑھے سات سو برسوں میں لندن کی آبادی میں دس گناہ اضافہ ہو گیا‘ جنگل کٹ گئے‘ ندیاں اور جھیلیں ختم ہو
گئیں‘ گاﺅں دیہات شہر میں آ گئے‘ کھیت کھلیانوں کی جگہ ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بن گئیں‘ صنعتی انقلاب آیا‘ شہر میں ہزاروں فیکٹریاں لگ گئیں‘ بجلی ایجاد ہوئی‘ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ لگ گئے‘ ٹرین سروس شروع ہوئی‘ ٹرام آئی‘ گاڑیاں آئیں‘ تعمیرات شروع ہوئیں‘ دوسری جنگ عظیم نے بھی دھواں اڑایا اور آخر میں لوگ بھی آلودگی پھیلانے لگے چنانچہ لندن کی فضا آلودہ ہوتی چلی گئی‘ ہوا میں آکسیجن کم ہو گئی‘ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1952ءتک پہنچ گیا‘ سردی شروع ہوئی‘ لوگوں نے اپنی انگیٹھیوں میں کوئلہ جلایا‘
لاکھوں ٹن دھواںپیدا ہوا‘ یہ دھواں ساڑھے سات سو سال کی آلودگیوں میں ”مکس اپ“ ہوا‘ دسمبر کی دھند میں ملا اور گہری‘ دبیز اور سیاہ گیس میں تبدیل ہو گیا اور یہ گیس پانچ دن شہر کے اندر گھومتی پھرتی رہی‘ ماہرین نے اس دھند کو سموک اور فاگ دو لفظ ملا کر ”سموگ“ کا نام دے دیا اور لندن کے اس ”سانحے کو گریٹ سموگ آف لندن“ قرار دے دیا۔ماحولیات کے ماہرین نے سموگ کی تشخیص کر لی‘ اب علاج کی باری تھی‘ علاج کی ذمہ داری کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی سر گیرالڈ ڈیوڈ نے لی‘
یہ شریف خاندان کی طرح بزنس مین اور کارخانے دار تھے‘ یہ 1950ءمیں سیاست میں آئے ‘ یہ گریٹ سموگ آف لندن کے دنوں میں ہاﺅس آف کامنز کے تازہ تازہ رکن بنے تھے‘ یہ اٹھے اور لندن کی فضا کو صاف کرنے کا پلان بنانا شروع کر دیا‘ یہ ماہرین کے ساتھ مل کر چار سال منصوبہ بندی کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے 1956ءمیں ”کلین ائیر ایکٹ“ بنا لیا‘ یہ ایکٹ ہاﺅس آف کامنز میں پیش ہوا اور ایوان نے 5 جولائی 1956ءکو اس کی منظوری دے دی‘ یہ ایکٹ چھ بنیادی اصلاحات پر مشتمل تھا‘
حکومت نے شہر کے اندر کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا دی‘ عوام کو ”فائر پلیس“ کےلئے متبادل ذرائع فراہم کرنے کا اعلان کر دیا گیا‘ حکومت نے ایک سال میں یہ ذرائع فراہم کر دیئے‘ ماڈرن ہیٹنگ سسٹم اسی ایکٹ کی پیداوار تھا‘ سردیوں میں بجلی بھی سستی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ لوگ بجلی کے ذریعے گھر گرم کر لیں‘ حکومت نے شہر کے اندر فیکٹریاں بند کر دیں‘ مالکان کو شہر سے دور مفت جگہ بھی فراہم کی گئی‘ ٹیکس میں گنجائش بھی اور فیکٹریاں شفٹ کرنے کےلئے قرضے بھی دیئے گئے‘
بجلی کے تمام پلانٹس دو برسوں میں لندن سے دور جنگلوں میں منتقل کر دیئے گئے‘ لندن اور لندن کے اطراف میں درخت کاٹنا‘ زرعی زمینوں کے سٹیٹس میں تبدیلی اور گرین ایریاز کے خاتمے پر پابندی لگا دی گئی‘ ملکہ تک کو درخت کاٹنے سے قبل تحریری اجازت کا پابند بنا دیا گیا اور پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافے‘ پرائیویٹ گاڑیوں کی حوصلہ شکنی اور پٹرول کے معیار کو بلند کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ ہاﺅس آف کامنز نے ان اصلاحات کی منظوری دی‘
حکومت نے کام شروع کیا اور ایکٹ کی منظوری کے صرف چار سال بعد 1960ءمیں لندن کی فضا مکمل طور پر ”سموگ فری“ ہو گئی‘ یہ ایکٹ اس قدر مکمل اور سخت تھا کہ سرگیرالڈ ڈیوڈ کو خود اس کا نقصان اٹھانا پڑا‘ ان کی اپنی فیکٹریاں بھی لندن سے باہر منتقل ہوئیں۔ہم اب گریٹ سموگ آف لندن سے گریٹ سموگ آف لاہور کی طرف آتے ہیں‘ پنجاب پچھلے تین برسوں سے شدید سموگ کا شکار چلا آ رہا ہے‘ نومبر کے مہینے میں لاہور‘ بہاولنگر‘ پاکپتن‘ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ زہریلی دھند میں گم ہو جاتے ہیں‘
پنجاب اس بار بھی سموگ میں دفن ہے‘ ہماری فضا میں اگر 80 مائیکرو گرام زہریلے مادے ہوں تو ہمارے پھیپھڑے انہیں برداشت کر جاتے ہیں لیکن لاہور اور اس کے مضافات میں اس وقت آلودگی کی شرح 200مائیکرو گرام کیوبک میٹر ہے‘ ہم اگر فضا کا ٹیسٹ کریں تو ہمیں اس میں کاربن مانو آکسائیڈ‘ سلفر اور نائیٹروجن کی بھاری مقدار ملے گی‘ یہ تمام مادے زہر ہیں‘ لاہور کی فضا میں تین سو سے چار سو فٹ تک آکسیجن کی شدید کمی بھی ہے‘ یہ فضا کتنی مضر صحت ہے آپ اس کا اندازہ سگریٹ سے لگا لیجئے‘
ہم اگر روزانہ 50 سگریٹ پئیں تو ہمارے پھیپھڑوں کو اتنا نقصان ہو گا جتنا لاہور کی فضا میں ایک دن سانس لینے سے ہو رہا ہے‘ بھارت ہم سے بھی بری صورتحال کا شکار ہے‘ بھارت میں 2012ءمیں سموگ کی وجہ سے پندرہ لاکھ لوگ مر گئے ‘ لاہور میں بھی اس سال چار لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں‘ یہ لوگ 2018ءکے دوران انتقال فرما جائیں گے۔یہ سموگ کہاں سے آ رہی ہے‘ یہ سوال بہت اہم ہے‘ اس کے چار بڑے سورس ہیں‘ پہلا سورس بھارتی پنجاب کا شہر ہریانہ ہے‘ ہریانہ میں دس سال میں چاول کی فصل میں آٹھ گنا اضافہ ہوا‘
ہریانہ کے کسان ا کتوبر کے آخر میں چاول کے پودے کے خشک ڈنڈل اور خالی سٹے جلاتے ہیں‘ بھارتی کسانوں نے اس سال 3 کروڑ 50 لاکھ ٹن ڈنڈل جلائے‘ ڈنڈلوں کے دھوئیں نے دہلی سے لے کر لاہور تک پورے پنجاب کی مت مار دی‘ دو‘ لاہور کی فیکٹریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ یہ فیکٹریاں دھواں پیدا کر رہی ہیں‘ تین‘ حکومت نے لاہور کے گردونواح میں درجن کے قریب بڑے پاور پلانٹس لگائے‘ بجلی کا ایشو ختم ہو گیا لیکن فضا آلودہ ہو گئی اور چوتھا سورس گاڑیاں ہیں‘ لاہور شہر میں دس لاکھ گاڑیاں ہیں‘
ہمارے پٹرول کا معیار انتہائی پست ہے چنانچہ یہ گاڑیاں چلتا پھرتا سموگ ہیں‘ ان چاروں سورسز کے علاوہ بھی سورسز ہیں‘ لاہور میں ٹائروں کو جلا کر تاریں اور تیل حاصل کیا جاتا ہے‘ شہر میں ٹائر جلانے والے سینکڑوں احاطے ہیں اور سیالکوٹ ریجن میں بھی اس موسم میں مونجی کی باقیات جلائی جاتی ہیں‘ لاہور کی آبادی بھی پھیل رہی ہے‘ مضافات میں جنگل‘ کھیت اور کھلیان بھی ختم ہو رہے ہیں اور دیہات بھی‘ آپ لاہور کے گرد ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ سر پیٹ کر رہ جائیں گے‘
یہ ان سوسائٹیوں کا کمال ہے‘ ہم اب سبزیاں‘ پھل اور اناج بھی چین سے امپورٹ کر رہے ہیں‘ ہم امرود‘ تربوز‘ آڑو‘ کینو اور آم بھی درآمد کر رہے ہیں چنانچہ لاہور تیزی سے سموگ میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ہمیں ماننا ہوگا ترقی انتہائی اہم ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا میاں شہبا زشریف نے پنجاب کےلئے بے تحاشہ کام کیا‘ لاہور اس وقت ملک کا خوبصورت اور ترقی یافتہ ترین شہر بن چکا ہے‘ پنجاب میں انگریز کے بعد پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے‘
ہمیں بہرحال میاں شہباز شریف کو اس کا کریڈٹ دینا ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے ترقی کا جھنڈا لاشوں پر نہیں لگا کرتا‘ پنجاب اگر اس ترقی کے ہاتھوں بیمار ہو گیا یا لوگ اگر مرنا شروع ہو گئے تو یہ ذمہ داری بھی بہرحال میاں شہباز شریف کے کندھوں پر جائے گی چنانچہ میری درخواست ہے پنجاب حکومت فوری طور پر کلین پنجاب کمیشن بنائے‘ فضائی آلودگی کی وجوہات تلاش کرے‘ اصلاحات کرے‘ اسمبلی سے منظوری لے اور لاہور کو لندن کی سپرٹ سے صاف کرنا شروع کر دے‘
لاہور اور اس کے گردونواح میں اصلی شجرکاری کرائے‘ فیکٹریاں باہر شفٹ کرائے‘ گاڑیوں کی تعداد کنٹرول کرے‘ پٹرول کا معیار بہتر بنائے‘ کوڑا‘ ٹائر اور کوئلہ جانے پر پابندی لگائے اور درخت کاٹنے کی سزا متعین کرے‘ حکومت کلین ائیر لندن ایکٹ سے بھی مدد لے سکتی ہے اور یہ بھوٹان ماڈل کو بھی سٹڈی کر سکتی ہے‘ یہ بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر دھان کی باقیات جلانے پر بھی پابندی لگا سکتی ہے اور یہ بچوں کے سلیبس میں ماحولیات کا مضمون بھی متعارف کرا سکتی ہے‘ یہ اقدامات ضروری ہیں ورنہ دوسری صورت میں پنجاب بالخصوص لاہور ایک ترقی یافتہ قبرستان بن جائے گا اور اورنج لائین ٹرین مردے ڈھونے کے کام آئے گی۔
کیا میاں شہبازشریف یہ پنجاب چاہتے ہیں۔