”میں سات سال سے بے روزگار ہوں‘ سیاحت ختم ہو چکی ہے‘ ہوٹل انڈسٹری دم توڑ چکی ہے اور دست کار ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں“ ولید کی آنکھوں میں اداسی تھی‘ ہم دمشق کی پاکستان سٹریٹ کے ایک ریستوران میں بیٹھے تھے‘ ہماری میز کھانوں سے بھری تھی‘ ولید ہمارا گائیڈ تھا‘ وہ ہمیں اداس لہجے میں جنگ کے اثرات بتا رہا تھا‘ اس کا کہنا تھا شام کا ہر خاندان جنگ سے متاثر ہوا‘ پورے ملک میں کوئی ایسا خاندان نہیں
جسے اس جنگ نے نقصان نہ پہنچایا ہو‘ لوگوں کی جائیداد یںچلی گئیں‘ لوگ بے گھر ہو گئے‘ لوگ بے روزگار ہو گئے اور لوگ لاشیں اور زخمی اٹھانے پر مجبور ہو گئے‘ میں نے ولید سے پوچھا ”آپ پڑھے لکھے ہو‘ انگریزی لکھنا‘ پڑھنا اور بولنا جانتے ہو‘ آپ کسی دوسرے ملک میں پناہ لے لیتے“ وہ مسکرایا اور بولا ”دمشق اور برداشت ہم لوگوں کی عادتیں ہیں‘ ہم دمشق چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی صبر“ میں بھی مسکرانے پر مجبور ہو گیا۔میں نے دو راتیں اور تین دن دمشق میں گزارے‘ میں ان تین دنوں میں شام اور شامیوں کی قوت برداشت‘ زندگی سے بھرپور محبت اور ملک سے وفاداری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ سات سال سے خوفناک جنگ بھگت رہے ہیں‘ یہ ان سات برسوں میں اپنوں کے ہاتھوں بھی مرتے رہے اور انہیں غیر بھی مارتے رہے ‘ ملک کے اندر ایک درجن گروپ برسر پیکار رہے‘ عمارتیں ڈھا دی گئیں‘ سڑکیں اور پل اڑا دیئے گئے‘ پانی اور بجلی بھی بند کر دی گئی‘ فلائیٹس اور ٹرین سروس بھی معطل ہے‘ شام عالمی پابندیوں کی زد میں بھی ہے‘ آسمان سے بھی بم برستے رہے اور یہ خودکش حملوں میں مارے جاتے رہے لیکن یہ اس کے باوجود پسپا نہیں ہوئے‘ان کا پیمانہ صبر لبریز نہیں ہوا‘ ان کی برداشت نے دم نہیں توڑا‘ آپ یقین کیجئے میں نے تین دنوں میں دمشق کی کسی سڑک‘ کسی بازار میں کسی قسم کی افراتفری نہیں دیکھی‘ ہر چیز
معمول کے مطابق تھی‘ ٹریفک پولیس ٹریفک کنٹرول کر رہی تھی‘ بازار میں کھوے سے کھوا چل رہا تھا‘ دکانیں اشیاءسے بھری تھیں اور خریدارجی بھر کر خریداری کر رہے تھے‘شام میں جنگ کے ایام میں بھی کرائم ریٹ صفر تھا‘ اشیائے صرف کی فراوانی تھی اور یہ پاکستان سے ارزاں بھی تھیں‘ بالخصوص کھانے کی کسی چیز کی قلت نہیں تھی‘ خواتین مطمئن اور مسرور نظر آ رہی تھیں‘ یہ پورے اعتماد کے ساتھ بازاروں اور گلیوں میں گھوم رہی تھیں‘ سرکاری دفتر‘ سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں کھلی تھیں اور مسجدیں آباد تھیں‘
دمشق میں ہزاروں کی تعداد میں قہوہ خانے اور ریستوران ہیں‘ آپ کسی گلی میں نکل جائیں آپ کو وہاں قہوہ خانے اور ریستوران ملیں گے اور یہ تمام گلی تک مصروف ہوں گے‘ شہر میں دریا کے دونوں کناروں پر ربوہ کا علاقہ ہے‘ اس علاقے میں بڑے بڑے ریستوران ہیں‘ یہ ریستوران ہر شام آباد ہو جاتے ہیں‘ ہزاروں لوگ شام کے وقت ان ریستورانوں کا رخ کرتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں اور جی بھر کر ناچتے ہیں‘ ہر ریستوران میں لائیو میوزک چلتا ہے اور لوگ خاندان سمیت موسیقی کی دھنوں پر رقص کرتے ہیں‘
پرانے شہر کے پرانے گھروں میں بھی ریستوران ہیں‘ یہ ریستوران بھی بارہ بجے تک آباد رہتے ہیں‘ موسیقی اور رقص لوگوں کے مزاج میں شامل ہے‘ قہوہ خانے صبح تک آباد رہتے ہیں‘ لوگ عموماً ناشتہ بھی باہر کرتے ہیں یا پھر باہر سے منگوا کر کھاتے ہیں‘ آٹا اور روٹی حکومت کے کنٹرول میں ہے‘ گھر میں روٹی پکانے کی اجازت نہیں‘ حکومت نے ملک بھر میں سرکاری تندور بنا دیئے ہیں‘ ملک میں کوئی بھی شخص 50 پاﺅنڈ ادا کر کے روٹیوں کا پیکٹ حاصل کر سکتا ہے‘
یہ رقم پاکستانی روپوں میں دس روپے بنتی ہے اور پیکٹ میں آٹھ دس روٹیاں ہوتی ہیں گویا پورا خاندان دس روپے میں پیٹ بھر لیتا ہے‘ سبزیاں‘ پھل اور گوشت وافر اور سستے ہیں‘ بجلی‘ گیس اور پانی پاکستان کے مقابلے میں بہت سستے ہیں‘ پاکستانی قونصل جنرل عبدالجبارترین دو ماہ میں صرف دو ہزار روپے پاکستانی بل دیتے ہیں‘ یہ اس بل میں تین اے سی بھی چلاتے ہیں‘ گیس اور پانی بھی اتنے ہی سستے ہیں‘ آپ حکومت کا نظام بھی ملاحظہ کیجئے‘
جنگ کے دوران بے شمار علاقے حکومت کے کنٹرول سے نکل گئے لیکن حکومت اس دوران بھی متاثرہ علاقوں کے سرکاری ملازموں کو تنخواہیں دیتی رہی‘ حکومت کے اہلکار ہر مہینے صندوقوں میں نوٹ بھر کر متاثرہ علاقوں میں جاتے تھے‘ باغی انہیں راستہ دیتے تھے‘ یہ ملازمین کو تنخواہ دیتے تھے اور دمشق واپس آ جاتے تھے‘ جنگ کے سات برسوں میں باغیوں اور حکومت کے دوران یہ معاہدہ رہا‘ باغی سرکاری ملازمین کو تنگ نہیں کریں گے اور یہ تنخواہوں کی فراہمی بھی نہیں روکیں گے‘
یہ معاہدہ آخر تک قائم رہا‘ حکومت 90 فیصد علاقوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر چکی ہے‘ صرف دس فیصد علاقوں میں جنگ جاری ہے لیکن سرکاری ملازمین کو ان علاقوں میں بھی باقاعدگی سے تنخواہ ملتی ہے اور یہ اپنی سرکاری ڈیوٹی بھی دے رہے ہیں‘ شام میں فوجی ٹریننگ لازم ہے‘ ملک کا ہر اٹھارہ سال کا نوجوان فوج میں خدمات سرانجام دیتا ہے‘ صرف ان نوجوانوں کو استثنیٰ حاصل ہے جو ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں یا پھر وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیتے ہیں‘ ایف اے تک تعلیم لازم بھی ہے اور مفت بھی‘
سکول جنگ کے دوران بھی کھلے رہے‘ دمشق میں ایک پاکستانی سکول بھی ہے‘ یہ ملک کا واحد کیمبرج سکول ہے‘ سفارتکاروں کے بچے بھی یہاں پڑھتے ہیں اور شام کے بزنس مینوں‘ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کے بچے بھی۔ صدربشار الاسد کے بیٹے نے بھی پاکستانی سکول سے امتحان دیا تھا‘مرتضیٰ بھٹو مرحوم کی بیگم غنویٰ بھٹو اس پاکستانی سکول میں استاد تھیں‘ فاطمہ بھٹو پاکستانی سکول کی طالبہ تھیں‘ مرتضیٰ بھٹو بیٹی کو سکول چھوڑنے اور لینے آتے تھے‘
یہ اس دوران غنویٰ بھٹو سے ملے اور دونوں نے شادی کر لی۔ دمشق یونیورسٹی عرب دنیا کی جدید اور بڑی یونیورسٹی کہلاتی ہے‘ یہ بھی جنگ کے دوران کھلی رہی‘ گاڑیاں سستی ہیں اور بڑی تعداد میں ہیں‘ لوگ اپنی گاڑیاں گلیوں میں کھڑی کر کے گھر چلے جاتے ہیں لیکن کسی قسم کی چوری چکاری اور واردات نہیں ہوتی‘ بھکاری بہت کم ہیں‘ لوگ صابر اور شاکر ہیں‘ یہ غربت میں بھی عزت سے گزارہ کر لیتے ہیں‘ خواتین حسن اور جمال کا مجسمہ ہیں‘
شام کی عورت حسن اور وفاداری میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتی ہے‘ فرعون بھی اپنے لئے ملکاﺅں‘ خادماﺅں اور کنیزوں کا انتخاب شام سے کیا کرتے تھے‘ آج بھی عرب تاجروں‘ شہزادوں اور رﺅساءکی کم از کم ایک بیوی شامی ہوتی ہے‘ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں‘ آپ دکانوں پر جائیں‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس یا پھر سرکاری دفتروں کا دورہ کریں آپ کو وہاں خواتین ملیں گی‘ شامی عورت بااعتماد بھی ہے اور بے خوف بھی‘ یہ دن ہو یا رات بے خوف ہو کر باہر نکلتی ہے‘
یہ چیز ثابت کرتی ہے شام میں خواتین محفوظ ہیں‘ خواتین کو لباس میں بھی آزادی حاصل ہے‘ میں نے وہاں برقع بھی دیکھا‘ سکارف بھی‘ جینز بھی اور سکرٹ بھی‘ کسی کو کسی پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ معاشرے میں مساوات بھی ہے‘ کھانے کے وقت ڈرائیور اور صاحب دونوں اکٹھے میز پر بیٹھتے ہیں‘ میں نے تین دنوں میں کسی کو کسی کے ساتھ جھگڑتے‘ لڑتے‘ تکرار کرتے یا پھر اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا‘لوگ ایک دوسرے سے محبت سے ملتے ہیں‘
اختلاف بھی نرم لہجے میں کرتے ہیں‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے تہذیب اور شائستگی ان کے جینز میں شامل ہے اور سات سال کی خوفناک جنگ اور خانہ جنگی بھی ان جینز کو متاثر نہیں کر سکی‘ یہ لوگ عربی کے علاوہ فرنچ بھی جانتے ہیں اور انگریزی بھی‘ یہ لوگ جذبے سے لبالب بھرے ہوئے ہیں‘ آپ کسی اجنبی کو سلام کریں وہ نہ صرف پورے جذبے کے ساتھ جواب دے گا بلکہ رک کر آپ کا حال احوال بھی پوچھے گا‘ یہ چند لمحوں میں آپ کے میزبان بھی بن جاتے ہیں‘
میں نے حنانیا چرچ سے واپسی پر گلی میں ایک خوبصورت قدیم گھر دیکھا‘ گھر کا دروازہ کھلا تھا‘ صحن میں ایک نوجوان بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کر رہا تھا‘ میں نے سلام کیا‘ اس نے ہمیں اندر بلا لیا‘ وہ جارج تھا‘ کرسچین تھا‘ نسلوں سے دمشق میں رہ رہا تھا‘ گھر تین سو سال پرانا لیکن انتہائی خوبصورت تھا‘ جارج نے ہمیں قہوہ پلایا اور ہم پانچ منٹ میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے‘ میں اگلی بار اس کے گھر میں رہوں گا اور وہ پاکستان آئے گا‘ شام کے گھر دلچسپ ہوتے ہیں‘
گھر کے چاروں اطراف کمرے ہوتے ہیں‘ درمیان میں صحن ہوتا ہے اور صحن میں پتھر کا گول فوارہ اور انگور کی بیلیں ہوتی ہیں‘ گھر کی ساری کھڑکیاں‘ سارے دروازے صحن میں کھلتے ہیں‘ شام کا یہ آرکیٹکچر مراکش گیا اور پھر وہاں سے سپین اور پرتگال چلا گیا‘ آپ کو یہ آرکیٹکچر سسلی اور فرانس کے جنوبی علاقوں میں بھی ملتا ہے اور لاہور کی قدیم حویلیوں میں بھی‘ یہ تمام شہر دمشق سے متاثر لگتے ہیں۔میں نے دمشق میں تین اور دلچسپ چیزیں بھی دیکھیں‘
یہ لوگ اپنے صحن کو فولڈنگ چھتوں اور پردوں سے ڈھانپ لیتے ہیں‘ یہ پردے سردیوں میں فولڈ کر دیئے جاتے ہیں اور گرمیوں اور بارشوں میں کھول دیئے جاتے ہیں ‘ دو‘ یہ لوگ مصروف وقت میں مصروف بازاروں اور مصروف شاہراﺅں پر کسی بھی جگہ کسی بھی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کر دیتے ہیں لیکن اپنا موبائل فون ”ڈیش بورڈ“ پر چھوڑ جاتے ہیں‘ اگلی گاڑی کا مالک آتا ہے‘ پچھلی گاڑی کے ڈرائیور کو فون کرتا ہے اور وہ آ کر اپنی گاڑی ہٹا لیتا ہے
اور یوں دونوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور سوم آپ دمشق کے کسی بھی شخص سے ملیں‘ آپ جنگ کے سات برسوں بعد بھی اس سے اس کا حال پوچھیں‘ وہ مسکرائے گا‘ آسمان کی طرف دیکھے گا‘ الحمد للہ کہے گا اور پھرپورے جذبے کے ساتھ جواب دے گا ”اللہ کا بہت بہت کرم ہے“ آپ کو شام کے کسی شہری کے ہونٹوں پر شکوہ یا شکایت نہیں ملے گی۔