رام پور ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی ریاست تھی‘ اس ریاست کی بنیاد روہیلا جنگجو نواب فیض اللہ خان نے 1774ء میں رکھی اور یہ 1930ء تک قائم رہی‘ رام پور کو انگریزوں کی آشیرباد حاصل تھی‘ یہ علاقہ گنا اور کپاس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں مشہور تھا‘ نواب علم دوست تھے چنانچہ انہوں نے ریاست میں ہندوستان کی سب سے بڑی لائبریری قائم کی‘ لائبریری میں اردو‘ فارسی اور ترکی زبان کی بارہ ہزار نادر
کتابیں تھیں‘ یہ کتابیں ہاتھ سے لکھی ہوئی تھیں‘ انگریز پہلی جنگ عظیم کے دوران نواب آف رام پور سے ناراض ہوئے اور ریاست کو 1930ء میں قومیا لیا یوں نوابی ختم ہو گئی‘ ریاست کے آخری نواب رضا علی خان اپنے محل تک محدود ہو کر رہ گئے‘ یہ اپنے بزرگوں کے ہیرے‘ جواہرات‘ تلواریں اور سونے کے برتن فروخت کر کے اپنے اخراجات پورے کرتے تھے‘ رام پور کے نواب کھانے پینے کے رسیا تھے‘ نواب صاحب کا دسترخوان پورے ہندوستان میں مشہور تھا‘ ہندوستان کا بہترین پھل‘ بہترین اناج‘ بہترین ترکاری اور بہترین گوشت میلوں کا سفر طے کر کے رام پور پہنچتا تھا‘ نواب صاحب کے پاس باورچیوں کی پوری فوج تھی‘ یہ فوج سارا دن لگا کر اعلیٰ اور نفیس کھانے بناتی تھی‘ نواب عمائدین کو جمع کرتے تھے اور یہ لوگ رات گئے تک ان کھانوں سے لطف اندوز ہوتے تھے‘ ریاست کے خاتمے کے بعد نواب کیلئے دستر خوان چلانا مشکل ہو گیا لیکن وہ باز نہ آئے‘ وہ زمینیں‘ جائیداد اور زیورات فروخت کر کے دستر خوان چلاتے رہے‘ ایک رات اچانک انگریز گورنر نواب آف رام پور رضا علی خان کے محل پہنچ گیا‘ نواب اپنے عمائدین کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے‘ گورنر کو بھی کھانے کی میز پر بٹھا لیا گیا‘ گورنر ڈائننگ ٹیبل کی شان و شوکت‘ کھانوں کی ورائٹی‘ ذائقہ اور خانساموں کی فوج دیکھ کر ششدر رہ گیا اور اس نے نواب سے کہا ”نواب صاحب
آپ آج بھی اتنا اچھا کھانا کھاتے ہیں“ نواب نے مسکرا کر جواب دیا ”گورنر صاحب! ہماری ریاست ہاتھ سے نکل گئی تو کیا اچھا کھانا بھی نہ کھائیں“ گورنر خاموش ہو گیا۔ نواب آف رام پور آخری سانس تک اچھا کھانا کھاتے رہے‘ سونے اور چاندی کے برتن تک بیچ دیئے‘ محل کی اینٹیں تک فروخت کر دیں لیکن اپنا دستر خوان چھوٹا نہیں ہونے دیا‘ نواب نے آخری دن بھی سو لوگوں کو کھانا کھلایا اور وہ کھانا بھی اتنا ہی شاندار تھا جتنا ریاست کے بانی فیض اللہ خان کے دستر خوان کا ہوتا تھا‘
نواب صاحب کی زمینیں‘ جائیداد اور زیورات ختم ہو گئے لیکن لائف سٹائل تبدیل نہ ہوا‘ وہ نفیس ترین کھانا بھی کھاتے رہے‘ شاندار ضیافتیں بھی کرتے رہے‘ تام جھام کے ساتھ شکار پر بھی جاتے رہے‘ لوگوں کو تحفے تحائف بھی دیتے رہے‘ طالب علموں کے وظائف بھی جاری رہے اور نواب کی سواری اور لباس سے بھی آخری سانس تک شاہی خوشبو آتی رہی‘ وہ آخری سانس تک نواب رہے۔نواب آف رام پور کی اس عادت کو انگریزی میں ”لائف سٹائل“ کہتے ہیں‘
دنیا میں چار لائف سٹائل ہیں‘ غریبانہ لائف سٹائل‘ شریفانہ لائف سٹائل‘ درویشانہ لائف سٹائل اور شاہانہ لائف سٹائل‘ یہ چاروں لائف سٹائل مستقل ہیں‘ دنیا میں ایک پانچواں لائف سٹائل بھی موجود ہے‘یہ بے وقوفانہ لائف سٹائل کہلاتا ہے‘ یہ عموماً نو دولتیوں کا لائف سٹائل ہوتا ہے‘ ہم انسانوں کو جب اچانک دولت ملتی ہے تو ہم بے وقوف ہو جاتے ہیں اور یہ بے وقوفی چند دنوں میں ہمارے لائف سٹائل سے ابل کر باہر آنے لگتی ہے‘ آپ جب بھی کسی فائیو سٹار ہوٹل میں کسی شخص کو ضرورت سے زیادہ کھانے منگواتے دیکھیں یا کوئی شخص مہنگی گاڑی عین آپ کے دروازے کے سامنے کھڑی کرے
اور پھر زور سے دروازہ بند کر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے یا کوئی معقول شخص اچانک سگار پینا شروع کر دے یا پھر کوئی شخص پرفیوم کی آدھی بوتل اپنے اوپر انڈیل کر باہر آ جائے یا پھر محفل میں بار بار ایڑیاں بجا کر لوگوں کو اپنے جوتوں کی طرف متوجہ کرے آپ اس سے صرف ایک سوال پوچھیں ”سرکیاآپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں؟“ آپ یقین کیجئے ننانوے فیصد لوگوں کا جواب ہاں ہو گا‘ میں جب بھی کسی تیس پینتیس سال کے نوجوان کو بیمار دیکھتا ہوں‘
مجھے یہ لوگ بلڈ پریشر‘ کولیسٹرول‘ ٹینشن اور دل کے امراض کی گولیاں کھاتے دکھائی دیتے ہیں تو میں ان سے بھی سوال کرتا ہوں ”کیا آپ پراپرٹی کا کام کرتے ہیں؟“ ان کا جواب ہمیشہ ہاں میں ہوتا ہے‘ میرے دوست مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں ”تم یہ اندازہ کیسے لگا لیتے ہو“ میں عرض ہوتا ہوں ”انسان تیس سال کی عمر میں صرف پراپرٹی کے پیسوں سے بیمار ہو سکتا ہے“ میں اسی طرح اکثر یہ بھی کہتا ہوں ”ہمارا لائف سٹائل صرف پراپرٹی کے پیسوں سے اتنا بے وقوفانہ ہو سکتا ہے“۔
میں چار بنیادی لائف سٹائلز کی طرف واپس آتا ہوں‘ غریبانہ لائف سٹائل غربت میں گندھا ہوا لائف سٹائل ہوتا ہے‘ اس لائف سٹائل میں ہاتھ گندے‘ بال الجھے‘ لباس شکن زدہ‘ کھانسی میں بلغم اور جوتوں پر گرد ہوتی ہے۔ شریفانہ لائف سٹائل مڈل کلاس کا طرز زندگی ہوتا ہے‘ پڑھا لکھا‘ مہذب‘ سوٹ پرانا لیکن صاف ستھرا‘ جوتے بھی پرانے لیکن روزانہ پالش سے چمکتے ہوئے‘ مکان چھوٹا لیکن صاف اور گاڑی درمیانی لیکن ”سکریچ لیس“۔ درویشانہ لائف سٹائل میں ایک اغماص‘ ایک لاپروائی پائی جاتی ہے‘ ہر چیز میں ایک نفاست‘ ایک رکھ رکھاؤ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بے پروائی‘ ایک لاتعلقی بھی ہوتی ہے‘
آپ اگر اس لائف سٹائل کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ وارث شاہ کی تاریخ پڑھ لیں‘ شاہ صاحب انتہائی شاندار لباس پہنتے تھے‘ بستر بھی آرام دہ اور نرم ہوتا تھا لیکن وہ رہتے مسجد کے کچے حجرے میں تھے‘ دودھ اعلیٰ نسل کی بھینس کا پیتے تھے لیکن پیالہ مٹی کا ہوتا تھا‘ حضرت داتا گنج بخش ؒ کا لباس بھی ہمیشہ صاف ستھرا ہوتا تھا لیکن آپ بھی حجرے میں رہتے تھے اور مٹی کے چند کچے برتنوں کے علاوہ آپ کے پاس کوئی اثاثہ نہیں تھا اور پیچھے رہ گیا شاہانہ لائف سٹائل۔ یہ بادشاہوں اور نوابوں کا لائف سٹائل ہوتا ہے‘
یہ لوگ اس وقت تک چھینک بھی نہیں مارتے جب تک ان کے ہاتھ میں ریشم کا رومال نہیں آ جاتا‘ یہ لوگ اپنا کفن بھی اپنے جولاہے سے بنواتے ہیں اور اس کیلئے کپاس بھی پاک اور صاف زمین پر اگاتے ہیں‘ اصل بادشاہ‘ اصل نواب کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ لوگ دوزخ میں بھی ٹھنڈا پانی طلب کریں گے‘ یہ لوگ مر جاتے ہیں لیکن ان سے خوشاہی نہیں جاتی‘ انگریز جب بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھجوا رہا تھا‘ بحری جہاز تیار کھڑا تھا‘ بادشاہ کو اس میں سوار کیا جا رہا تھا‘
بادشاہ کے جسم پر اس وقت شاہی لباس کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘ ایک ہندوستانی قریب آیا اور بادشاہ کو جھک کر سلام کر دیا‘ بادشاہ کی غیرت نے اس وقت بھی گوارہ نہ کیا کہ وہ سلام کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس بھجوا دے‘ بادشاہ نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ عقیق سے بنی ہوئی اپنی آخری تسبیح نکالی اور سلام کرنے والے کے حوالے کر دی‘ بادشاہ نے رنگون میں اپنے کپڑے تک اپنے خادموں میں تقسیم کر دیئے تھے‘ وہ آخر میں کھدر کے عام لباس میں فوت ہوا۔ ہندوستان کے پرانے نواب ریاستیں چھن جانے کے بعد بہرے ہو جاتے تھے‘
وہ مرنے تک بہرے پن کی اداکاری کرتے تھے‘ کیوں؟ کیونکہ حاجت مند کو انکار کرنا ان کی خو میں نہیں تھا اور کسی کی حاجت پوری کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی چنانچہ وہ باقی زندگی کانوں پر ہاتھ رکھ کر گزار دیتے تھے یا پھر نواب آف رام پور کی طرح محل کی اینٹیں اور دروازے بیچ کر دستر خوان آباد رکھتے تھے۔میں نے بچپن میں نوابی خاندانوں کے بے شمار لوگ دیکھے‘ ہمارے شہر میں ایک حکیم صاحب ہوتے تھے‘ یہ ہندوستان کی کسی ریاست کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘
یہ اس وقت بزرگ ہو چکے تھے‘ ہم نے انہیں کبھی شیروانی‘ سفید شلوار کرتا‘ جناح کیپ اور چھڑی کے بغیر نہیں دیکھا تھا‘ وہ نظریں جھکا کر آہستہ آہستہ چلتے تھے اور نرم آواز میں کلام کرتے تھے‘ ہم انہیں خان صاحب کہتے تھے‘ وہ ایک دکان سے سودا خریدتے تھے‘ دکاندار نے ایک دن خان صاحب سے کہہ دیا ”آپ سودا لے جایا کریں پیسوں کی پرواہ نہ کیا کریں“ یہ معمولی سی بات ان کے دل پر لگ گئی‘ وہ دوبارہ کبھی اس دکاندار کی دکان پر نہیں گئے‘
وہ اس قدر حساس تھے کہ ایک بار ان کے ایک مریض نے ان کے ساتھ بدتمیزی کر دی‘ وہ اٹھے‘ اندر گئے‘ کپڑے تبدیل کئے‘ تھیلا اٹھایا‘ بس پربیٹھے اور شہر چھوڑ کر چلے گئے اور کبھی واپس نہ آئے‘ خان صاحب کا مکان بعد ازاں ان کے ایک عزیز نے فروخت کر دیا‘ میں نے لاہور میں بھی بے شمار ایسے کردار دیکھے‘ یہ لوگ لٹ لٹا کر ہندوستان سے پاکستان آئے تھے‘ یہ چھوٹے گھروں میں رہتے تھے‘ معمولی ملازمتین کرتے تھے اور تھوڑی رقم میں گزارہ کرتے تھے لیکن ان کے لباس‘ نشست وبرخاست اور گفتگو میں گئے زمانوں کی باس ہوتی تھی‘
وہ کتے کو بھی کتا نہیں کہتے تھے‘ جناب کہتے تھے‘ لاہور اپرمال میں ایک صاحب رہتے تھے‘ وہ نظام آف حیدر آباد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ وہ خطاط تھے‘ وہ خطاطی کر کے اپنا نان نفقہ چلاتے تھے‘ میں نے زندگی میں کسی شخص کو ان سے اچھی چائے بناتے اور پلاتے نہیں دیکھا‘ ان کی چائے میں ایک عجیب قسم کی سرمستی ہوتی تھی‘ میں نے ایک دن ان سے عرض کیا ”حضور آپ چائے میں کیا ڈالتے ہیں‘ مجھے یہ ذائقہ کسی دوسری جگہ نہیں ملا“
مسکرا کر جواب دیا ”زعفران“۔ میں نے عرض کیا ”لیکن یہ تو خاصی مہنگی ہوتی ہے“ فرمایا ”ہوتی ہو گی لیکن میں مہنگائی کی وجہ سے اپنے خاندان کی روایت ترک نہیں کر سکتا‘ چائے پیوں گا تو زعفرانی پیوں گا‘ نہیں تو چھوڑ دوں گا“ وہ رکے اور اس کے بعد بولے ”چائے کی فطرت کا فیصلہ گرم پانی کرتا ہے اور لوگوں کے حسب نسب کا تعین مشکلیں کرتی ہیں‘ ہمارے بزرگ فرمایا کرتے تھے‘ وہ نوابی نوابی نہیں ہوتی جو غربت کے ہاتھوں شکست کھا جائے‘ سونا سونا ہی رہتا ہے خواہ وہ کباڑیئے کی دکان پر ہی کیوں نہ پڑا ہو“ میں آج تک انہیں اور ان کی اس بات کو فراموش نہیں کر سکا۔