میاں نواز شریف نے بہرحال درست فیصلہ کیا‘ یہ پاکستان واپس آ گئے اور یہ آخری اطلاعات کے مطابق احتساب عدالت میں بھی پیش ہوں گے‘ یہ ریفرنس بھی بھگتیں گے اور یہ مستقبل میں بھی اپنے خلاف بننے والے مقدموں کو فیس کریںگے‘ یہ سپورٹس مین سپرٹ ہے اور ہمارے تمام سیاسی قائدین کو بہرحال کبھی نہ کبھی اس سپرٹ کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔میاں نواز شریف 30 اگست کو بیگم کلثوم نواز کی عیادت کےلئے لندن گئے
تھے‘ یہ جوں ہی لندن پہنچے ملک میں ان کے فرار کی افواہیں گردش کرنے لگیں‘ یہ افواہیں اس قدر طاقتور تھیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین نے بھی ان پر یقین کر لیا‘ یہ بھی ببانگ دہل کہنے لگے ”ہماری پارٹی بھی اب لندن سے چلائی جائے گی“ مریم نواز کے انٹرویوز اور ٹویٹس نے ان افواہوں کو باقاعدہ خبر بنا دیا اور یہ تقریباً طے ہو گیا شریف فیملی نیب کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوگی اور یہ واپس پاکستان بھی نہیں آئے گی لیکن میاں نواز شریف نے اتوار کی شام واپسی کا اعلان کر کے اپنے دوستوں اور دشمنوں کو حیران کر دیا‘ یہ حقیقت ہے میاں نواز شریف کو اپنی وزارت عظمیٰ جانے کا اتنا افسوس نہیں تھا جتنا دکھ انہیں اپنی اہلیہ کی بیماری سے ہوا‘ مجھے پرائم منسٹر ہاﺅس کے سٹاف نے بتایا‘ یہ سپریم کورٹ کافیصلہ سننے کے بعد بھی مسکرا رہے تھے‘ یہ روٹین کے مطابق دفتر سے اٹھے‘ رات بھی وقت پر سوئے اور یہ اگلے دن بھی وقت پر تیار ہو کر باہر آئے‘ یہ وزیراعظم ہاﺅس سے اپنی ٹانگوں پر چل کرر خصت بھی ہوئے‘ سٹاف کا ایک ممبر میاں نوازشریف کی لندن روانگی سے ایک دن قبل ان سے ملا تو اس نے زندگی میں پہلی بار انہیں پریشان بھی دیکھا اور ان کے ہاتھوں میں لرزش بھی دیکھی‘ یہ لرزش اور یہ پریشانی بتا رہی تھی میاں نواز شریف کو بیگم کی بیماری نے ”ڈس کوالی فکیشن“ سے زیادہ متاثر کیا‘ یہ 30 اگست کو لندن چلے گئے اور ان کے پیچھے ”یہ واپس نہیں آئیں گے“ کی فصل بودی گئی لیکن یہ بہرحال واپس آگئے‘ یہ واپسی اب پاکستان مسلم لیگ ن
کےلئے خوش آئند ثابت ہوگی‘ چودھری نثار اور میاں صاحب کے درمیان موجود فاصلے بھی کم ہوجائیں گے‘ کل چودھری نثار اور میاں نواز شریف کے درمیان پہلی ملاقات ہوئی‘یہ ملاقات تجدید تعلقات کا آغاز تھی‘یہ آغاز انجام تک پہنچتے پہنچتے بہت اچھا ہو جائے گا‘ میاں صاحب پارٹی کو بھی ”ری آرگنائز“ کریںگے‘ یہ اپنے زیر تکمیل منصوبے بھی مکمل کر یںگے اور یہ اب پاکستان پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف کے ناراض ایم این ایز اور سینیٹرز کے ساتھ مل کر آئین میں چند بڑی ترامیم بھی کرا لیں گے‘
یہ نیب کے قوانین اور چیئرمین کے تقرر کا طریقہ کاربھی بدل دیںگے‘ نیب قوانین میں تبدیلی پی ٹی آئی‘ ایم کیو ایم اور ق لیگ کرے گی لیکن اس تبدیلی کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اٹھائیں گی اور یوں سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان جنگ کھل کر سامنے آ جائے گی۔آپ سیاست کی بے رحمی اور منافقت ملاحظہ کیجئے‘ حکومت نے 22 اگست کو قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات کا بل پاس کرایا‘ یہ بل حتمی منظوری کےلئے سینٹ میں چلا گیا‘
جنرل پرویز مشرف نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ءمیں ایک نئی شق متعارف کرائی تھی‘ اس شق کے مطابق ”کوئی ایسا شخص کسی سیاسی جماعت کاعہدہ نہیں رکھ سکتا جو رکن قومی اسمبلی نہ ہو یا وہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کے تحت نااہل قرار پا چکا ہو“ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ءمیں یہ شق اڑا دی‘ نئے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کے مطابق کوئی بھی پاکستانی شہری نااہلی کے باوجود کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار رہ سکتا تھا‘ یہ شق نئی انتخابی اصلاحات میں جوں کی توں شامل تھی‘
یہ بل جب سینٹ پہنچا تو چودھری اعتراز احسن نے بل میں نئی ترمیم پیش کر دی‘ نئی ترمیم کے مطابق ”وہ شخص جو ایم این اے نہیں بن سکتا وہ کسی پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا“ سینٹ میں 22 ستمبر کو چودھری اعتزازاحسن کی ترمیم پر ووٹنگ تھی‘ آپ سیاسی منافقت ملاحظہ کیجئے پاکستان تحریک انصاف کے 7سینیٹرز ووٹ سے قبل ایوان سے واک آﺅٹ کرگئے‘ چیئرمین سینٹ نے اپنی کرسی چھوڑ دی‘ فاٹاکے سینیٹرز حکومت کے ساتھ مل گئے‘
ایم کیو ایم کے سینیٹرز بھی لابی میں پھرنے لگے اور ق لیگ کے سینیٹر مشاہد حسین سید ”میں آرہا ہوں‘ بس پہنچ رہا ہوں“ کرتے رہے لیکن اس ساری کوشش کے باوجود اپوزیشن اور حکومت کے ووٹ برابر تھے‘ دونوں 37اور37 تھے‘ عین وقت پر خواجہ سعد رفیق نے ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق شیخ کے کان میں سرگوشی کی اور یہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور حکومت جیت گئی یوں میاں عتیق کے اس ایک ووٹ نے میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود پارٹی کا سربراہ بنا دیا‘
ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے میاں عتیق کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا‘ میاں عتیق کا کہنا ہے مجھے خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا”ہماری فاروق ستار سے بات ہو گئی ہے‘ آپ ہمیں ووٹ دے دو“ اور میں نے سعد رفیق کے کہنے پر ن لیگ کو ووٹ دے دیا جبکہ دوسری طرف سے دو موقف سامنے آ رہے ہیں‘ پارٹی کا کہنا ہے میاں عتیق بڑے عرصے سے ن لیگ سے رابطے میں تھے‘ یہ 2018ءکے الیکشن میں ن لیگ سے راولپنڈی میں ایم این اے کا ٹکٹ بھی لینا چاہتے ہیں‘
یہ ووٹ اس ٹکٹ کےلئے دیا گیا‘ یہ بھی شنید ہے میاں عتیق ایم کیو ایم لندن اور الطاف حسین سے رابطے میں ہیں‘ یہ ایک بارپارٹی کے باغی قائدین سے ملاقات کےلئے دوبئی بھی گئے تھے‘یہ ووٹ انہوں نے ایم کیو ایم لندن کے کہنے پر حکومت کو دیا‘ یہ دونوں باتیں درست ہوں یا پھر میاںعتیق کا موقف ٹھیک ہو لیکن یہ طے ہے چودھری اعتزاز احسن کی ترمیم پاکستان پیپلز پارٹی کوسوٹ کرتی تھی اور نہ ہی پاکستان مسلم لیگ ن اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کو‘
ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہان جلد یا بدیر ایک جیسی صورتحال کا شکار ہو جائیں گے‘ میاں نواز شریف کے بعد عمران خان اور عمران خان کے بعد آصف علی زرداری کی نااہلی کے امکانات بھی موجودہیں لہٰذا یہ تینوں اعتزاز احسن کی ترمیم کو نامنظور دیکھنا چاہتے تھے‘ یہ وہ حقیقت جس کی وجہ سے عین اس وقت جب پی ٹی آئی کے سینیٹرز کو اعتزازاحسن کے حق میں ووٹ دینا چاہیے تھا یہ لوگ ایوان سے واک آﺅٹ کرگئے‘ مشاہد حسین سید سینٹ کی عمارت میں ہونے کے باوجود ایوان میں نہیں پہنچے‘
میاں رضا ربانی نے چیئرمین کی کرسی چھوڑ دی اور ایم کیوایم کے سینیٹر نے حکومت کی حمایت کر دی اور یوں حکومتی بل منظور ہوگیا‘ آپ مستقبل میں بھی اس نوعیت کی بے شمار ایسی ”ان ہونیاں“ دیکھیںگے۔ ہم ایک بار پھر ماضی میں جائیں گے‘جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد میاں نواز شریف کے زیادہ ترمعاملات سیٹل ہوچکے تھے‘ ڈان لیکس کا ایشو بیک برنر پر جا چکا تھا جبکہ پانامہ کی تفتیش بھی ٹھنڈی پڑ گئی تھی لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے بعد دو نئے ایشوز پیدا ہوئے اور یہ ایشوز حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ تک لے گئے‘
پہلا ایشو ڈان لیکس کی رپورٹ تھا‘ حکومت اور فوج کے درمیان معاملہ سیٹل ہوا‘دونوں طرف کے لوگ بیٹھے‘ افہام و تفہیم سے فیصلہ ہوا‘ رپورٹ مکمل ہوئی اورپرنسپل سیکرٹری نے آرڈر تحریر کیا‘ یہ آرڈر میڈیا سیکشن نے غلطی سے میڈیا کوجاری کر دیا‘ جنرل باجوہ پر فوج کی طرف سے دباﺅ آیا‘ یہ دباﺅ حکومت پر شفٹ ہوا‘ حکومت نے دباﺅ میں دو تین وضاحتیں جاری کر دیں یوںکنفیوژن پیداہو گیا‘یہ کنفیوژن بڑھا اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے ”رپورٹ نامنظور“ کی ٹویٹ جاری کر دی‘
حکومت اور فوج کے تعلقات خراب ہوگئے‘ دوسرا ایشو ٹویٹ کی واپسی تھی‘جنرل باجوہ نے میاں نواز شریف کے ساتھ ٹویٹ واپس لینے کا فیصلہ کیا‘ ٹویٹ کی یہ واپسی آخری کیل ثابت ہوئی‘ آرمی چیف جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار یہ دونوں جمہوریت پسند ہیں‘ یہ دونوں کل بھی معاملات کوسنبھالنا چاہتے تھے‘ یہ آج بھی معاملات کو سیٹل کرنا چاہتے ہیں لیکن ملک اس وقت ”عقابوں کا نشیمن“ بن چکا ہے‘ میاں نواز شریف کے دائیں بائیں بے شمار عقاب موجود ہیں‘
یہ عقاب معاملات کو بگاڑتے چلے جا رہے ہیں‘ یہ روز ”نادیدہ طاقتیں‘ نادیدہ طاقتیں“ کا راگ الاپ رہے ہیں‘ یہ میاں نوازشریف کو شیر اور باقی سب کوبھیڑ ثابت کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں‘یہ کوشش میاں نواز شریف کو تنہا کرتی چلی جا رہی ہے‘یہ حقیقت ہے میاں شہباز شریف میاں نواز شریف کی پالیسی سے اتفاق نہیں کر رہے‘ یہ فوج سے ہرگز ہرگز نہیں لڑنا چاہتے‘ یہ درمیان کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں‘ فوج بھی میاں نواز شریف کی بجائے میاں شہباز شریف کے ساتھ زیادہ کمفرٹیبل ہے لیکن میاں نواز شریف آخری جنگ لڑنا چاہتے ہیں‘
جنگ لڑنے کی یہ کوشش ختم نہ ہوئی تو یہ حالات کو مزید خراب کر دے گی اور آخری فیصلہ بہرحال ڈنڈہ کرے گا کیونکہ طاقت بہرحال طاقت ہوتی ہے اور طاقت کے سامنے کوئی بل‘ کوئی ترمیم اور کوئی آئین نہیں ٹھہرتا‘ حکومت نے اگر میاں عتیق جیسی تکنیکس بند نہ کیں‘ یہ اگر کسی درمیانے راستے پر نہ آئی تو قربانیوں کا سلسلہ دراز ہو جائے گا‘ حکومت کو اگلی قربانی خواجہ سعد رفیق‘ رانا ثناءاللہ اور حمزہ شہباز کی دیناپڑے گی اور اگر قربانیوں کا یہ سلسلہ چل پڑا تو یہ سلسلہ پھر کسی بڑے بحران سے پیچھے نہیں رکے گا لہٰذا میرے خیال میں کل بھی یہی بہتر تھا اور آج بھی یہی بہتر ہے میاں نواز شریف اقتدار سے باہر رہنے کا فیصلہ کر لیں‘ یہ بھی بچ جائیں گے اور سسٹم بھی ورنہ یہ جو تھوڑی بہت عزت سادات بچی ہے یہ بھی مٹی میں رل جائے گی۔