یہ کہانی ذوالفقار علی بھٹو اور علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال سے شروع ہوتی ہے لیکن ہم کہانی کی طرف جانے سے پہلے دنیا کی ایک بڑی حقیقت بیان کریں گے‘ہم انسان اگر مستقبل کی اچھی پلاننگ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں پہلے ماضی کا تجزیہ کرنا چاہیے‘ انسان کبھی ماضی کے تجزیے کے بغیر مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا اور یہ دنیا کی دس بڑی حقیقتوں میں سے ایک بڑی حقیقت ہے اور ہم جب تک
این اے 120 کے ماضی کا تجزیہ نہیں کریں گے ہم اس وقت تک ملکی سیاست کا مستقبل طے نہیں کر سکیں گے‘ ہم اب واپس ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرف آتے ہیں‘ بھٹو صاحب نے 30نومبر1967ءکو لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور چند ماہ میں تاریخ کا دھارا بدل دیا‘ پیپلز پارٹی 1970ءتک مغربی پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن چکی تھی‘ جنرل یحییٰ خان نے 7 دسمبر1970ءکو ملکی تاریخ کے پہلے غیر جانبدارالیکشن کرائے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیٹ کےلئے لاہور سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا‘ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال نے بھٹو صاحب کے خلاف میدان میں اترنے کا اعلان کر دیا‘ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے بھٹو صاحب نے پنجاب کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کی وجہ تاریخ میں دفن ہے‘ موجودہ پاکستان کی ہزار سالہ تاریخ میں یہ پورا علاقہ اس شخص کے ہاتھ میں رہتا تھا جس کے پاس لاہور ہوتا تھا‘ بھٹو صاحب تاریخ فہم تھے‘ وہ اس حقیقت سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے سندھی وڈیرا ہونے کے باوجود پنجاب بالخصوص لاہور کو اپنا مرکز بنالیا‘ پارٹی کی ساری اٹھان لاہور سے ہوئی‘ بھٹو صاحب کا حلقہ موجودہ این اے 120 تک وسیع تھا‘ یہ حلقہ اصلی لاہوریوں کا گڑھ تھا‘ بھٹو صاحب کا خیال تھا یہ لوگ اگر میرے ساتھ کھڑے ہو گئے تو پورا لاہور میرے ساتھ ہو جائے گا اور اگر لاہور میرے پاس آ گیا تو
پورا پنجاب میرا ہو جائے گا اور میں نے اگر پنجاب کو اپنی مٹھی میں لے لیا تو پھر پورا مغربی پاکستان اپنی پوری اشرافیہ اور پوری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میرا ہو جائے گا اور یوں میں بڑی آسانی سے شیخ مجیب الرحمن کو مار بھگاﺅں گا چنانچہ یہ گوالمنڈی کی گلیوں میں گھس گئے‘ ہم اب آتے ہیں ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرف‘ یہ بھٹو صاحب کے خلاف کیوں میدان میں اترے اور انہوں نے بھی اس حلقے کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ کشمیری کارڈ تھا‘
گوالمنڈی اور اندرون لاہور کے اس علاقے میں کشمیریوں کی اکثریت تھی اور جاوید اقبال کشمیری تھے‘ دوسرا بھٹو صاحب کے مخالفین کو مقابلے کےلئے بھٹو جتنا بڑا امیدوار چاہیے تھا اور ڈاکٹر جاوید اقبال میں یہ خوبی موجود تھی چنانچہ یہ میدان میں اتر آئے‘ڈاکٹر جاوید اقبال معاشی لحاظ سے کمزور تھے‘ الیکشن کے دوران لاہور کے دو بڑے تاجروں میاں محمد شریف اور سی ایم لطیف نے کھل کران کی مدد کی‘ میاں شریف اتفاق گروپ کے نام سے بڑا صنعتی گروپ چلا رہے تھے جبکہ سی ایم لطیف بیکو کے مالک تھے‘
میاں شریف نے ڈاکٹر جاوید اقبال کے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ اور کھانا فراہم کیا تھا‘ الیکشن کے دن ڈاکٹر صاحب کے ہر ووٹر کو قیمے والے نان اور بریانی پیش کی گئی‘ ووٹروں کو گھر سے لانے اور ووٹ کے بعد گھر ڈراپ کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی جبکہ الیکشن کے دوران پبلسٹی کے تمام اخراجات سی ایم لطیف نے ادا کئے‘ نتیجہ آیا تو بھٹو صاحب یہ الیکشن جیت گئے اور ڈاکٹر صاحب ہار گئے‘ بھٹو صاحب نے 78132 ووٹ حاصل کئے جبکہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو 33 ہزار 921 ووٹ ملے یوں یہ حلقہ بھٹو صاحب کا ہو گیا‘
بھٹو کی حکومت بنی تو بھٹو نے جاوید اقبال کی سپورٹ کے جرم میں سی ایم لطیف اور میاں شریف کی فیکٹریاں قومیا لیںاور یوں یہ دونوں ایک ہی رات میں فٹ پاتھ پر آگئے۔یہ حلقہ بعد ازاں بڑی مدت تک پاکستان پیپلز پارٹی کا قلعہ رہا‘ پارٹی نے 1977ءمیں ملک محمد اختر کو ٹکٹ دیا‘ ملک اختر 58773 ووٹ لے کر جیت گئے‘ پارٹی نے 1985ءمیں غیر جماعتی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا‘ میاں شریف اپنے بڑے صاحبزادے میاں محمد نواز شریف کومیدان میں لے آئے‘
یہ جیت گئے اور پھر جیتتے ہی چلے گئے‘ پیپلز پارٹی نے ہر الیکشن میں ان کا مقابلہ کیا‘ یہ ہر الیکشن ہاری مگر یہ ہمیشہ اچھے مارجن کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی ہاں البتہ پارٹی کے ووٹرز 2013ءکے الیکشن میں ہمت ہار گئے‘ یہ پارٹی سے ٹوٹے اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہو گئے یوں تحریک انصاف دوسرے نمبر پر آگئی‘ 17 ستمبر 2017ءآ یا ‘ الیکشن ہوا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کشمیری امیدوار فیصل میر کے بیلٹ باکسز سے صرف 2520ووٹ برآمد ہوئے‘
فیصل میر پروفیسر وارث میر کے صاحبزادے اور حامد میر کے بھائی ہیں‘ یہ پڑھے لکھے خاندان کے پڑھے لکھے نوجوان ہیں‘ یہ پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن بھی ہیں لیکن الیکشن کے دن ان کا پڑھا لکھا ہونا کام آیا‘ کشمیری ہونا کام آیا اور نہ ہی انہیں پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن ہونے کا فائدہ ہوااور یہ زوال اس حلقے سے جس کی کشمیری عوام نے1970ءمیں علامہ اقبال کے کشمیری صاحبزادے کو مسترد کر کے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا تھا جو وڈیرا تھا اور جو پنجابی زبان تک نہیں جانتا تھاایک خوفناک لمحہ فکریہ ہے۔
یہ لمحہ فکریہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی تک محدود نہیں‘ یہ صورتحال پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی تینوں کےلئے بھی یکساں الارمنگ ہے‘ لاہور جماعت اسلامی کا ویٹی کن سٹی ہوتا تھا‘ بانی جماعت مولانا مودودیؒ آخری سانس تک لاہوری رہے‘ وہ وقت ابھی زیادہ دور نہیں گیا جب لاہور کا ہر تیسرا شخص ”جماعتیا“ ہوتا تھا اور لاہورمیں اس وقت تک کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہو سکتا تھا جب تک وہ منصورہ سے پروانہ حمایت حاصل نہیں کر لیتا تھا لیکن آج بھرپور مہم کے بعد جماعت اسلامی کے ایماندار‘ دین دار اور باکردارامیدوار ضیاءالدین انصاری کو صرف 592ووٹ ملے‘
ضیاءالدین انصاری پرانے لاہوری ہیں‘ یہ وسیع خاندان کے مالک بھی ہیں لیکن نتائج سے ثابت ہوتا ہے انصاری صاحب کے اپنے خاندان نے بھی انہیں ووٹ نہیں دیئے‘جماعت اسلامی کا یہ زوال بھی لمحہ فکریہ ہے‘ عمران خان نے یہ الیکشن عدلیہ کے سہارے لڑا ‘ یہ بار بار فرما رہے تھے عوام 17 ستمبر کو ثابت کر دیں گے یہ عدلیہ کے ساتھ ہیں یا ڈاکوﺅں کے ساتھ کھڑے ہیں‘ عمران خان اپنے سر پر پانامہ کیس کی جیت کا تاج رکھ کر این اے 120 میں اترے‘ ڈاکٹر یاسمین راشد بھی باکردار اور پڑھی لکھی لاہورن ہیں‘
یہ محنتی بھی ہیں اور یہ نیک شہرت کی حامل بھی ہیں لیکن یہ خاتون نیک شہرت‘ تعلیم اور عدلیہ کے ڈھول کے باوجود جیت نہیں سکیں‘ انہوں نے 2013ءمیں 52321ووٹ لئے تھے‘ یہ پانامہ کے فیصلے کے بعد حلقے میں آئیں تو ان کے ووٹ 47099 ہو گئے گویا5222 ووٹروں نے عدلیہ کے فیصلے کے باوجود ان سے منہ موڑ لیا‘ یہ بھی الارمنگ ہے اور میاں نواز شریف 1985ءسے اس حلقے کے دولہا میاں ہیں‘ میاں نواز شریف نے 2002ءمیں جدہ بیٹھ کر پرویز ملک کو ٹکٹ دیا اور عوام نے جنرل پرویز مشرف کے جبر کے باوجود شیر پر مہریں لگا دیں‘
میاں صاحب نے 2008ءمیں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلال یاسین بٹ کو ٹکٹ دیا‘ عوام نے بین بے نظیربھٹو کا کیا لیکن ووٹ میاں نواز شریف کو دیئے‘ عوام نے 2013ءمیں بھی نواز شریف کو 91666 ووٹ دے کر وزیراعظم بنوایا لیکن جب 17 ستمبر کو وفاداری اور محبت کے ٹیسٹ کا وقت آیا‘ جب میاں نواز شریف نے اپنی بیگم کو الیکشن کےلئے کھڑا کیا اور میاں صاحب کی صاحبزادی نے حلقے کے عوام سے ماں کے نام پر ووٹ مانگنا شروع کئے تو میاں صاحب کے ووٹ 91666 سے 61745 ہوگئے گویا2017ءمیں 2013ءکے مقابلے میں 12 فیصد ووٹر باہر نہیں آئے یا پھر انہوں نے بیگم کلثوم نواز کو ووٹ نہیں دیئے‘
یہ نقطہ بھی الارمنگ ہے‘ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے اور آخری لمحہ فکریہ ان تمام حقائق سے زیادہ قابل غورہے۔
میاں نواز شریف کے حلقے میں دو نئی مذہبی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کئے‘ لبیک یارسول اللہ کے امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی تھے اور ملی مسلم لیگ نے شیخ محمد یعقوب کو الیکشن لڑایا‘ لبیک یارسول اللہ ممتاز قادری کے واقعے کے بعد معرض وجود میں آئی جبکہ ملی مسلم لیگ کے بانی حافظ سعید صاحب ہیں‘ یہ ان دونوں جماعتوں کا پہلا الیکشن تھا‘
لبیک یا رسول اللہ کے امیدوارشیخ اظہر حسین رضوی نے 7130ووٹ حاصل کئے جبکہ ملی مسلم لیگ کے شیخ یعقوب کو 5822ووٹ ملے‘ یہ دونوں جماعتیں بالترتیب تیسرے اور چوتھے نمبر پر آئیں‘یہ ملک کے کسی بڑے شہر سے اس نوعیت کی جماعتوں کی پہلی بڑی فتح ہے اور یہ فتح صرف تین ہفتوں کی مہم کا نتیجہ ہے اور یہ نتیجہ ثابت کر رہا ہے مستقبل میں پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی غیر مقبولیت کا فائدہ ملی مسلم لیگ اور لبیک یا رسول اللہ جیسی تنظیمیں اٹھائیں گی اور یہ اس الیکشن کا سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے‘
یہ لمحہ فکریہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے عوام سیاسی جماعتوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں دونوں سے مایوس ہو چکے ہیں‘ یہ اب برائی کو طاقت سے ختم کرنے والوں کے گرد جمع ہو رہے ہیں‘ یہ اب طالبانائزیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ ٹرینڈ اگر مستقبل میں جڑیں پکڑ گیا تو پھر ہم کہاں ہوں گے‘ آپ خود ہی سمجھ دار ہیںچنانچہ میرا مشورہ ہے آپ ملک کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیں‘ آپ لوگ سب سے پہلے اپنے اپنے ہاﺅس ان آرڈر کر لیں اس سے قبل کہ جن پوری طرح بوتل سے باہر آ جائے اور آپ کےلئے ائیر پورٹ پہنچنا بھی مشکل ہو جائے۔