نام عبدالوحید تھا‘ وہ الیکشن کمیشن میں لیگل اسسٹنٹ تھا‘ گرین ٹاﺅن لاہور کا رہائشی تھا‘ وہ پانچ سال ایف آئی اے میں لاءآفیسر بھی رہا‘ وہ 2005ءمیں الیکشن کمیشن میں واپس آیا‘ کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا الزام لگا‘ انکوائری ہوئی اور ثابت ہوگیا عبدالوحید نے 60 ہزار روپے لے کر ایک ایسے شخص کا ووٹ ٹرانسفر کر دیا تھا جس نے بعد ازاں ٹاﺅن ممبر کا الیکشن لڑا‘
سزا سے بچنے کےلئے اس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی‘وہ 24 برس الیکشن کمیشن میں ملازم رہا‘ ساتھیوں نے ان 24 برسوں میں اسے کبھی نماز اور روزے کی پابندی کرتے نہیں دیکھا‘ وہ اسلامی شعائر کا مذاق بھی اڑاتا تھا تاہم وہ روحانیت اور طریقت کا بے انتہا قائل تھا‘ وہ مرشد پرست بھی تھا اور وہ تعویز دھاگے پر بھی یقین رکھتا تھا‘ وہ ملازمت کے دوران علی محمد گجر نام کے ایک شخص سے ملا‘ وہ فیصل آباد کے گاﺅں چنن کا رہنے والا تھا اور وہ سائیں مستی سرکار کہلاتا تھا‘ وہ اسلام آباد اور لاہور میں تعویز‘ دھاگہ اور گنڈا کرتا تھا‘ سینکڑوں لوگ اس کے مرید تھے‘ عبدالوحید بہت جلد علی محمد گجر کا مرید بن گیا‘ پیر صاحب بھی شریعت کے پابند نہیں تھے‘ وہ سمجھتے تھے انسان گناہوں کا پتلا ہے‘ یہ پتلا اگر زندگی میں اپنے گناہوں کا ازالہ کر دے تو یہ پاک ہو جاتا ہے‘ علی محمد گجر نے انسانوں کو گناہوں سے پاک کرنے کا ایک طریقہ بھی وضع کر رکھا تھا‘ وہ ”گناہگار“ مرد اور عورت کو ننگا کرتا تھا اور اس کے ننگے جسم پر چھڑی سے ہلکی ہلکی ضربیں لگاتا تھا‘ یہ ضربیں گناہوں کا ”ازالہ“ ہوتی تھیں اور یوں ”گناہگار“ چند ضربوں میں نومولود بچے کی طرح پاک ہو جاتا تھا‘ علی محمد گجر روزانہ دس بیس گناہ گاروں کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کر دیتا تھا‘
عبدالوحید مستی سرکار کا مرید بنا اور وہ روحانیت میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا حضرت صاحب کا خلیفہ بن گیا‘ حضرت صاحب جب گناہ گاروں کو پاک کرتے کرتے تھک جاتے تھے تو وہ اپنی چھڑی عبدالوحید کے ہاتھ میں دے دیتے تھے اور گناہ گاروں کے گناہ جھاڑنے کا باقی فریضہ خلیفہ صاحب ادا کرتے تھے ‘ حضرت صاحب اس دوران دور بیٹھ کر گناہ گاروں کے ننگے بدن کا معائنہ کرتے رہتے تھے‘
سرگودھا کے چک نمبر 95 شمالی میں علی محمد گجر کے مرید رہتے تھے‘ یہ سارا علاقہ پیر صاحب کا معتقد تھا‘ پیر صاحب اس علاقے میں چودھری علی محمد قلندر کہلاتے تھے‘ پیر صاحب اور خلیفہ صاحب اکثر اس گاﺅں کا چکر لگاتے رہتے تھے‘ لوگ عقیدت سے ان کے پاﺅں چومتے تھے۔
سائیں مستی سرکار چودھری علی محمدگجر قلندر تین سال پہلے انتقال کر گئے‘ مریدوں نے انہیں چک نمبر 95 شمالی میں دفن کیا اور قبر پر چھوٹا سا مزار بنا دیا‘ عبدالوحید اس مزار کا متولی بن گیا‘ وہ اکثر مزار پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ الیکشن کمیشن سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس مزار تک محدود ہو کر رہ گیا‘ وہ اس وقت تک گناہ جھاڑنے کا ایکسپرٹ بھی ہو چکا تھا‘ لوگ آتے تھے‘ وہ انہیں ننگا کر کے گناہوں کا تخمینہ لگاتا تھا اورگناہوں کی شدت کے مطابق ان کے جسم پر چھڑیاں اور ڈنڈے برساتا تھا‘
گناہ کم ہوں تو چھوٹی چھڑی اور چھوٹی ضرب اور گناہ بڑے اور شدید ہوں تو بڑا ڈنڈا اور بھاری ضرب‘ یہ دنیا کی اس جدید ترین سائنس کا واحد فارمولا تھا‘ لوگ دور دور سے سائیں مستی سرکار چودھری علی محمد گجر قلندر کی درگاہ پر آتے ‘ مزار کو سلام کرتے اور خلیفہ سرکار سائیں عبدالوحید قلندر سے اپنے گناہ جھڑواکر گھر واپس چلے جاتے ‘ سائیں نے حکم دے رکھا تھا وہ جب گناہ گاروں کو ڈنڈا مارے گا تو وہ منہ سے حق حق کی آواز نکالیں گے چنانچہ درگاہ سے اکثر اوقات حق حق کی صدائیں آتی رہتی تھیں‘
سائیں عبدالوحید کو اس دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے (نعوذ باللہ) سگنل بھی آنا شروع ہو گئے اور وہ خود کو امام مہدی (نعوذباللہ) بھی کہنے لگا‘ مریدین نے اس ہرزہ سرائی پر بھی یقین کر لیا‘ سائیں عبدالوحید شراب کا پرانا عادی تھا‘ وہ ”خلافت“ کے دوران دیگر نشوں سے بھی متعارف ہو گیا اور وہ اب زیادہ وقت مخمور رہنے لگا‘ وہ خود نماز روزے کو پسند کرتا تھا اور نہ ہی مریدوں کو اس طرف جانے دیتا تھا‘ وہ کہتا تھا آپ جی بھر کر گناہ کریں اور آخر میں مجھ سے اپنے گناہ جھڑوا لیں‘
بات ختم۔ وہ ہر جمعرات کو اپنے مرشد کا ختم بھی کراتا تھا‘ دیگ پکواتا تھا‘ چاول تقسیم کرتا تھا اور گناہ گاروں کو ڈنڈے مار کر پاک صاف کرتا تھا‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 2017ءاپریل کی یکم تاریخ آ گئی‘ سائیں عبدالوحید نے اپنے دوساتھیوںآصف اوریوسف کو ساتھ ملایا اور اپنے آخری روحانی تجربے کا اعلان کر دیا‘ اس نے دعویٰ کیا اللہ تعالیٰ نے اسے (نعوذ باللہ) مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت دے دی ہے‘
وہ پہلے سیاہ کاروں کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کرے گا اور پھر انہیں دوبارہ زندہ کردے گا اور یہ لوگ معصوم بچوں کی طرح پاک صاف ہو کر نئی زندگی گزاریں گے‘ عبدالوحید نے یکم اپریل ہفتہ کی شب یہ تجربہ شروع کر دیا‘ وہ مریدوں کو بلاتا‘ انہیں نشہ آور مشروب پلاتا اور انہیں ڈنڈے مارمار کر ہلاک کرتا رہا ‘ عبدالوحید نے اس عمل کے دوران 20 مریدوں کی جان لے لی‘ ان میں 16 مرد اور چارخواتین شامل تھیں جبکہ چارلوگوں نے بھاگ کر جان بچالی‘ بات پھیلی‘ لوگ اکٹھے ہوئے‘ پولیس آئی اور عبدالوحید گرفتار ہو گیا‘
گرفتاری کے بعد عبدالوحید نے تین متضاد بیان دیئے‘ اس کا پہلا بیان تھا‘ یہ لوگ مجھے زہر دے کر مارنا اور گدی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے‘ میں نے انہیں مار دیا‘ دوسرا بیان تھا‘ یہ میرے بچے تھے اور میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کو قربان کر دیا اور تیسرا بیان ”جج صاحب آپ میرے ساتھ درگاہ چلیں‘ میں ان سب کو دوبارہ زندہ کر دوں گا بس ایک شرط ہے پولیس ساتھ نہیں ہونی چاہیے“۔
یہ ملکی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ تھا‘ سائیں عبدالوحید سو فیصد فراڈ اور جرائم پیشہ شخص ہے‘
یہ نفسیاتی بیماری ”ہائیپو کانڈریا“ کا مریض ہے‘ اس مرض میں انسان اپنے دماغ میں ایک غیر حقیقی دنیا آباد کر لیتاہے اور یہ اس غیر حقیقی دنیا کو ایمان کی حد تک حقیقی سمجھ بیٹھتا ہے‘ دنیا کے زیادہ تر جعلی نبی اور جعلی ولی ”ہائپو کانڈریا“ کے مریض ہوتے ہیں‘ سائیں عبدالوحید اور علی محمد گجر قلندر دونوں اس مرض کا شکار تھے‘ یہ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید اتنی خطرناک نہ ہوتی لیکن یہ اس وقت انتہائی خطرناک ہو گئی جب لوگوں نے ان ذہنی مریضوں کو ولی تسلیم کر لیا چنانچہ ایشو مرشد نہیں ہیں ایشو مرید ہیں‘
ہمارا معاشرہ اس حد تک زوال پذیر ہو چکا ہے کہ لوگ ہر اس شخص کو ولی مان لیتے ہیں جس کی پشت پر مٹی لگی ہوتی ہے‘ سر میں خاک ہوتی ہے اور اس کی داڑھی سے رالیں ٹپک رہی ہوتی ہیں‘ ہم لوگ ہائیپوکانڈریا کے مریضوں کو صرف ولی نہیں مانتے بلکہ ہم نعوذ باللہ ان کے درجات حضرات ابراہیم ؑ ‘ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سے بھی بلند کر دیتے ہیں‘ ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں یہ لوگ واقعی حضرت موسیٰ ؑ کی طرح (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہیں اور یہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح مردوں کو زندہ کر دیتے ہیں‘
ہم لوگ یہ بھی سمجھ لیتے ہیں جو شخص اپنی رالیں صاف نہیں کر سکتا وہ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر بدل دے گا اور جن گناہوں کی معافی کا اولیاءکرام ؒ‘ صحابہ کرامؓ اور انبیاءکرام کو بھی یقین نہیں تھا وہ گناہ سائیں عبدالوحید کا ڈنڈا دھو دے گا چنانچہ میں سمجھتا ہوں مسئلہ سائیں عبدالوحید یا سائیں مستی سرکار علی محمد گجر قلندر نہیں ہیں مسئلہ ان لوگوں کو ماننے والے لوگ ہیں لہٰذا ہمیں جعلی پیروں کے جعلی مریدوں کو جوتے مارنے چاہئیں‘ دوسرا مسئلہ حکومت ہے‘
ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ کسی بھی قبر پر جھنڈا لگا کر عرس شروع کر دے‘ حکومت نوٹس تک نہیں لے گی‘کیوں؟ حکومت کی اس عدم توجہی کے نتیجے میں بیس بیس لوگ جان سے گزر جاتے ہیں اور ریاست تماشہ دیکھتی رہتی ہے‘ کیوں؟ آپ کمال دیکھئے مکہ اور مدینہ میں کوئی بہشتی دروازہ نہیں لیکن پاکستان میں نہ صرف یہ دروازہ موجود ہے بلکہ یہ دروازہ ہر سال دس بیس لوگوں کی جان بھی لے لیتا ہے‘
آپ ملک میں حکومت کی اجازت کے بغیر سکول اور ڈسپنسری نہیں بنا سکتے لیکن آپ دس بیس ایکڑ کا مزار بنا لیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ ہماری ریاست کب جاگے گی؟ ہماری ریاست ڈرون نہیں روک سکتی نہ روکے لیکن یہ سائیں عبدالوحید جیسے لوگوں کو تو روک لے‘ یہ لوگوں کو ہیپاٹائٹس سے نہیں بچا سکتی نہ بچائے لیکن یہ معاشرے کو علی محمد گجر قلندر جیسی بیماریوں سے تو بچا لے اور یہ عوام کو دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی یہ نہ رکھے لیکن یہ انہیں سائیں مستی سرکار جیسے روحانی دہشت گردوں سے تو بچا لے‘
ریاست عوام کو ان درندوں سے کیوں نہیں بچا پا رہی‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اورہمارے عوام بھی یہ کیوں نہیں سمجھتے انسان نبی بھی ہو تو بھی انسان ہی رہتا ہے وہ خدا نہیں بن سکتا اور علی محمد گجر جیسے لوگ تو پورے انسان بھی نہیں ہیں‘ آپ ان کی قبروں سے کون سا خدا تلاش کر رہے ہیں‘ آپ کیوں نہیں سمجھتے وہ انسان جو خود قبر میں پڑا ہے وہ آپ کو زندگی کیسے دے سکتا ہے‘ جو انسان خود گناہوں کے کیچڑ میں لت پت ہے وہ آپ کو گناہوں سے پاکی کا سر ٹیفکیٹ کیسے دے سکتا ہے؟اور جو شخص پولیس سے نہیں بچ سکتا وہ شخص آپ کو اللہ کے قہر سے کیسے بچائے گا‘ آپ کیوں نہیں سمجھتے‘ کیوں‘ آخر کیوں؟۔