ایڈنبرا میں فیسٹول چل رہا تھا‘ یہ فیسٹول 1947ء میں شروع ہوا تھا‘ جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ سوگ میں تھا‘ پورے براعظم میں لاشیں‘ زخمی اور ملبہ بکھرا تھا‘ لوگ ہنسنا‘ مسکرانا‘ گانا اور بجانا بھول چکے تھے‘ سکاٹ لینڈ برطانیہ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا‘ برطانوی فوج کا ہر تیسرا جوان سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ ملک میں کوئی ایسا سکاٹش گھرانہ نہیں تھا جس کے دل پر جوان موت کا داغ نہ ہو‘ ایڈنبرا اس غم‘
اس افسوس کا دارالحکومت تھا‘ برطانیہ کے نوجوانوں کے آٹھ گروپوں نے ایڈنبرا کا غم بٹانے کا فیصلہ کیا‘ یہ مختلف شہروں سے نکلے اور ایڈنبرا پہنچ گئے‘ یہ موسیقی کے ذریعے شہر کے لوگوں کو تسلی دینا چاہتے تھے لیکن حکومت نے انہیں شو کرنے کی اجازت نہ دی‘ انہیں ساز بجائے بغیر شہر چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا‘ یہ لوگ دھن کے پکے تھے‘ یہ شہر سے نکلے‘ شہر کی سرحد پر کھڑے ہوئے‘ ساز نکالے اور بجانا شروع کر دیئے‘ شہر کے لوگ موسیقی سن کر اکٹھے ہوئے اور آہستہ آہستہ ان کے گرد ناچنا شروع کر دیا‘ انگریزی میں شہر کی حد کو فرنج (Fringe) کہا جاتا ہے‘ یہ لوگ کیونکہ فرنج پر کھڑے تھے چنانچہ یہ واقعہ فرنج کے نام سے مشہور ہو گیا‘ ان آٹھ گروپوں نے آخر میں اعلان کیا ہم اگلے سال بھی آئیں گے‘ یہ اگلے سال بھی آئے اور یوں ایڈنبرا میں فرنج میلے کا آغاز ہو گیا‘ یہ میلا 70 برس سے جاری ہے‘ ہر سال اگست میں دنیا بھر سے فنکار ایڈنبرا آتے ہیں اور ان 8 گروپوں کی یاد میں پرفارمنس دیتے ہیں جنہوں نے 1947ء میں ایڈنبرا کی فرنج پر کھڑے ہو کر جنگ کا رزق بننے والے سکاٹش کا دکھ بانٹا تھا‘ 2017ء میں بھی ایڈنبرا میں چار اگست سے 28 اگست تک فرنج فیسٹول ہوا‘ شہر میں 3 ہزار شو چل رہے تھے اور شہر کی آبادی سے دو گنے سیاح وہاں موجود تھے‘ ایڈنبرا کے تمام ہوٹل‘ موٹل‘ ہاسٹل‘ فلیٹس اور پے انگ ہاؤس فل
تھے‘ لوگوں کے گھروں اور میدانوں تک میں جگہ نہیں تھی‘ میں فیملی کے ساتھ ایڈنبرا پہنچا تھا‘ ہمارے شیڈول میں ایک تبدیلی آئی تھی چنانچہ ہمارا ہوٹل کرائے سمیت منسوخ ہو چکا تھا‘ اس مشکل وقت میں ایڈنبرا کے سعید مجید کام آئے‘ یہ انتہائی زندہ دل شخصیت ہیں‘ صادق آباد کے رہائشی ہیں‘ 1978ء میں ایڈنبرا آئے اور یہاں بس گئے‘ یہ ہمیں اپنے گھر لے گئے‘ ہم ایک رات ان کے پاس رہے‘ ہم لوگ اس ایک رات میں یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ سعید مجید کا گھر بڑا ہے یا دل‘
ہم لوگ حقیقتاً چند گھنٹوں میں ان کے گھرانے کا حصہ بن گئے‘ ہمیں اگلے دن جلال چودھری اور راجہ عابد کی مدد سے شہر میں رہائش مل گئی‘ یہ فیصل آباد کے ایک بزرگ چودھری حمید گجر کا گھر تھا‘ یہ ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ اپنی صاحبزادی کے گھر شفٹ ہو گئے‘ ہمیں ان کا گھر مل گیا اور یوں ہمیں ایڈنبرا اور اس کا فیسٹول انجوائے کرنے کا موقع مل گیا۔ایڈنبرا میں 3 ہزار شو چل رہے تھے‘ سٹریٹ آرٹسٹ گلیوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے‘
لوگ ان کے گرد جمع ہوتے تھے‘ شو دیکھتے تھے اور تالیاں بجا کر انہیں داد دیتے تھے‘ شہر کے مختلف ہالز‘ گھروں‘ احاطوں اور چرچز میں بھی شو چل رہے تھے‘ میلے کا سب سے بڑا شو رائل آرمی ٹیٹو شو تھا‘ یہ فوجی بینڈز کا شو تھا‘ حکومت نے ایڈنبرا کے قلعے کے سامنے ایک لاکھ کرسیاں لگا کر عاضی سٹیڈیم بنا دیا تھا‘ سٹیڈیم کی ایک سائیڈ پر قلعے کا گیٹ تھا اور دوسری سائیڈ پر عارضی سٹیڈیم کا مین گیٹ‘ سٹیڈیم 20 بلاکس میں تقسیم تھا اور ہر بلاک اے سے زیڈ تک نیچے سے اوپر جاتا تھا‘
یہ شو روزانہ رات کے وقت 24 دن چلتا رہا‘ تمام دنوں کی ٹکٹیں بُک ہو چکی تھیں‘ ہم یہ شو دیکھنا چاہتے تھے لیکن ٹکٹوں کا حصول مشکل تھا‘ ہمیں راجہ عابد نے بتایا آپ سٹیڈیم چلے جائیں‘ آپ کو گیٹ پر سکھ ملیں گے‘ یہ لوگ ٹکٹ بلیک کرتے ہیں‘ آپ ان سے ٹکٹ خرید لیں‘ ہم نے یہ مشورہ مان لیا‘ ہمیں گیٹ پر سکھ نوجوانوں کی ٹولی مل گئی‘ وہ بڑا سا ٹل بجا کر ”ٹکٹ ٹکٹ“ کا اعلان کر رہے تھے‘ یہ واقعی پولیس کی موجودگی میں ٹکٹ بلیک کر رہے تھے‘
ہم نے ان سے ڈبل قیمت میں ٹکٹ خریدے اور سٹیڈیم میں داخل ہو گئے‘ شو دیکھا اور شو کو ٹکٹ کی قیمت سے کہیں زیادہ اچھا پایا‘ ٹیٹو شو میں ان تمام ملکوں کے فوجی بینڈز شامل تھے جہاں برطانوی فوج یا برطانیہ کا جھنڈا لہراتا رہا‘ ایک کے بعد ایک ملک کا فوجی بینڈ آتا تھا‘ پرفارمنس دیتا تھا‘ فوجی سیلوٹ کرتاتھا اور رخصت ہو جاتا تھا‘ شائقین کیلئے ”کون کس سے بہتر ہے“ یہ فیصلہ مشکل تھا‘ شو کے آخر میں تمام بینڈز اکٹھے ہوئے‘ مل کر عالمی امن کا نغمہ گایا‘
ایک ایک کر کے مارچ پاسٹ کیا اور فضا آتش بازش سے بقعہ نور بن گئی‘ میں نے زندگی میں بے شمار شوز دیکھے ہیں لیکن یہ میری زندگی کا منفرد اور یاد گار شو تھا‘ میں شاید پوری زندگی اسے نہ بھلا سکوں۔ایڈنبرا چرچز‘ قلعوں‘ پیچ دار گلیوں اور پرانے گھروں کا شہر ہے‘ آپ شہر کو دیکھیں تو آپ کو پتھر کی پرانی گلیوں اور گوتھک سٹائل کی قدیم عمارتوں میں وقت سانس لیتا محسوس ہوگا‘ آپ کو یہ شہر دن کے چاروں اوقات میں مختلف فیلنگ دے گا‘ یہ صبح کے وقت مطمئن محبوبہ کی طرح انگڑائی لیتا محسوس ہو گا‘
یہ دوپہر کے وقت جاڑے کا شکار عاشق بن جائے گا‘ یہ شام کے سایوں میں پناہ کی تلاش میں سرگرداں مسافر بن جائے گا اور یہ رات کے وقت نشے سے ٹوٹا ہوا شرابی بن جائے گا‘ آپ اس کے چاروں اوقات سے جی بھر کر جھولی بھر سکتے ہیں‘ شہر میں اگست میں بھی سردی تھی‘ ہم جیکٹ اور برساتی کے بغیر باہر نہیں نکل سکتے تھے‘ شہر کا پرانا قلعہ‘ قومی عجائب گھر‘ میونسپل کمیٹی کا میوزیم اور تاریخی قبرستان یہ تمام جگہیں دیکھنے لائق ہیں‘ پرنس سٹریٹ میں چار پانچ گھنٹے کی واک لائف ٹائم تجربہ ہے‘
ہمیں ہر دس قدم بعد کوئی نہ کوئی ایسی عمارت مل جاتی تھی جو ہمارے قدم اور آنکھیں دونوں باندھ لیتی تھی‘ دنیا کا مشہور معیشت دان ایڈم سمتھ بھی ایڈنبرا کا رہنے والا تھا‘ شہر میں اس کا مجسمہ بھی تھا اور قبرستان میں قبر تھی‘ سیاح اس کی قبر پر جانا ضروری سمجھتے ہیں‘ روز سٹریٹ کا حوالہ بہت دلچسپ ہے‘ یہ دنیا کی واحد گلی ہے جس میں پورے یورپ میں سب سے زیادہ شراب خانے ہیں‘ سیاح دن کہیں بھی گزاریں لیکن یہ رات کے وقت روز سٹریٹ پہنچ جاتے ہیں‘
ایڈنبرا میں ایک عجیب نوعیت کا میوزیم بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ میوزیم کا نام میوزیم آف چائلڈ ہوڈ تھا‘ دنیا کے تمام میوزیم بچوں کیلئے ہوتے ہیں لیکن یہ میوزیم بچوں سے متعلق تھا‘ شہر کے کسی چاہنے والے نے 1953ء میں بچوں کے کھلونے جمع کر کے میوزیم بنا دیا‘ آپ جوں ہی میوزیم میں داخل ہوتے ہیں آپ کو اس کے تمام فلورز پر پرانے زمانے کے کھلونے ملتے ہیں‘ آپ کسی بھی عمر میں ہوں آپ یہ کھلونے دیکھ کر خوش ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘
یہ میوزیم مفت تھا اور درجنوں بچے اس میوزیم کا مزا لوٹ رہے تھے۔گلاسکو میں ایک پرانے صحافی رہتے ہیں طاہر انعام شیخ‘ یہ تاریخ کے حافظ ہیں‘ میں نے آج تک کسی پاکستانی صحافی کو اتنا تاریخ فہم نہیں پایا‘ ان سے ملاقات ہوئی تو پھر ہم مسلسل ملتے رہے‘ گلاسکو اور ایڈنبرا میں صرف 40 منٹ کا فاصلہ ہے‘ بھائی طاہر انعام نے بتایا‘ یہ شہر چالیس منٹ دور ہیں لیکن گلاسکو اور ایڈنبرا کے لوگوں کے درمیان چالیس ہزار میل کا فاصلہ ہے‘ یہ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے‘
ہمیں یہ فاصلہ دونوں شہروں کے پاکستانیوں میں بھی محسوس ہوا‘ یہ بھی ایک دوسرے سے کھچے کھچے سے رہتے ہیں‘ سکاٹ لینڈ ”بیگ پائپ“ کی سرزمین بھی ہے‘ آپ کو یہ مشک نما ساز ہر گلی‘ ہر چوک میں بجتا دکھائی دیتا ہے‘ یہ ساز سکاٹ لینڈ کی موسیقی میں بھی ”ڈامی نیٹ“ کرتا ہے‘ آپ کوئی بھی گانا سنیں آپ دھن میں بیگ پائپ ضرور سنیں گے‘ یہ شاید دنیا کا واحد خطہ ہو گا جہاں مرد بھی سرخ‘ سبز یا دونوں رنگوں کے سکرٹ پہنتے ہیں‘ یہ سکرٹ عورتوں اور مردوں میں کامن ہے‘
یہ آپ کو اکثر جگہوں پر دکھائی دیتا ہے‘ میں مردوں کو سکرٹ میں دیکھ کر بھی حیران ہوا‘ ہماری اگلی منزل سکاٹ لینڈ کی ہائی لینڈ تھی‘ سکاٹش پہاڑ‘ جنگل اور جھیلیں پوری دنیا میں مشہور ہیں‘ میری فیملی 22 اگست کو واپس چلی گئی اور میں سکاٹش ہائی لینڈ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ سکاٹ لینڈ کا اصل جادو ایڈنبرا اور گلاسکو سے باہر تھا۔