یہ دونوں خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں‘ پہلے کھیل کے کھلاڑی عمران خان ہیں‘ عمران خان جانتے ہیں میاں نواز شریف اگر 2018ء تک اقتدار میں رہتے ہیں تو دہشت گردی تقریباً ختم ہو جائے گی‘ وزیرستان پبلک کیلئے کھل جائے گا‘ ملک کے دس بڑے شہروں سے ناکے اٹھا لئے جائیں گے‘ بازار‘ مسجدیں اور ٹرینیں محفوظ ہو جائیں گی اور دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے‘ سہولت کار اور فنانسربھی ختم ہو جائیں گے‘ یہ جانتے ہیں ملکی تاریخ میں پہلی بار زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے 23 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں‘ یہ ایک سال میں 26 بلین ڈالر ہو جائیں گے‘ لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی‘ حکومت پہلے مرحلے میں ملک کے 35 بڑے شہروں کو ’’زیرو لوڈ شیڈنگ‘‘ پر لے آئے گی‘ یہ اس کے بعد قصبوں کو لوڈ شیڈنگ سے نکالے گی اور آخر میں دیہات بھی لوڈ شیڈنگ فری ہو جائیں گے‘ عمران خان یہ بھی جانتے ہیں لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان کی میٹرو سے پاکستان مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا‘ یہ لوگ 2018ء سے پہلے اورنج لائین ٹرین بھی مکمل کر لیں گے‘ پاک چین اقتصادی راہداری‘ کراچی لاہور موٹروے اور ایل این جی پراجیکٹس بھی اپنا کردار ادا کریں گے‘ یہ لوگ ملک کے تمام ڈویژنز میں جدید ترین ہسپتال بھی بنانا چاہتے ہیں‘ اگر یہ ہسپتال بھی بن جاتے ہیں‘ یہ ہیلتھ انشورنس کے سسٹم کو پورے ملک تک پھیلانا چاہتے ہیں‘ اگر یہ بھی ہو جاتا ہے اور یہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور اگر یہ بھی ہو گیا تو میاں نواز شریف مضبوط ہو جائیں گے‘ ان کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا اور یہ 2018ء کے الیکشنوں میں زیادہ طاقت کے ساتھ کامیاب ہو جائیں گے۔
عمران خان یہ بھی جانتے ہیں میاں نواز شریف الیکشنوں کے بعد خیبر پختونخواہ میں مولانا فضل الرحمن‘ جماعت اسلامی اور شاید اے این پی کو ساتھ ملا کر ملکی تاریخ کی پہلی وسیع صوبائی حکومت بنا دیں‘ یہ سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان اور فنکشنل لیگ کی مشترکہ حکومت بنوا دیں اور یہ حکومت شہری سندھ اور دیہی سندھ دونوں کے تمام مسائل حل کر دے‘ یہ بلوچستان کا اقتدار ایک بار پھر بلوچ جماعتو کے حوالے کر دیں گے‘یہ جماعتیں دل سے پاکستانی ہو چکی ہیں‘ یہ بلوچستان اور پاکستان دونوں کو مضبوط بنا دیں گی اور پیچھے رہ گیا پنجاب تو اگر میاں برادران کو مزید پانچ سال مل جاتے ہیں تو یہ پنجاب میں ریفارمز پر توجہ دیں گے‘ پہ پانی‘ سیوریج‘ تعلیم‘ صحت‘ پولیس‘ پٹواری کلچر اور نظام عدل میں ریفارمز کریں گے اور یہ پنجاب میں دو نئے صوبے بھی بنوا دیں گے‘ عمران خان یہ بھی جانتے ہیں ان کے پاس صرف تین مہینے ہیں‘ یہ اگر آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے انقلاب نہیں لاتے‘ یہ اگر میاں نواز شریف کو ’’ڈس کوالی فائی‘‘ نہیں کراتے تو یہ پھر ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ نئے آرمی چیف کو صورت حال کو سمجھنے‘ بریفنگز لینے اور اپنی حکمت عملی وضع کرنے میں چھ ماہ لگ جائیں گے‘ یہ جب صورتحال کو ’’انڈرسٹینڈ‘‘ کریں گے تو حکومت اس وقت تک سوا چار سال پورے کر چکی ہو گی اور یوں عصر کے وقت روزہ توڑنا حماقت ہو گی‘ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی 31 دسمبر 2016ء کو ریٹائر ہو رہے ہیں‘ ان کے بعد ثاقب نثار چیف جسٹس بنیں گے‘ یہ سسٹم کے تسلسل پر موجودہ چیف سے دس گناہ زیادہ یقین رکھتے ہیں‘ یہ ن لیگ کے چند وزراء اور سہولت کاروں کے کلاس فیلو بھی ہیں چنانچہ ن لیگ نے ان سے نرمی کی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں‘ یہ اگر ان توقعات پر پورے نہیں اترتے تو بھی میاں برادران کے خلاف جوڈیشل انکوائریوں کے فیصلوں سے پہلے الیکشن آ جائیں گے اور عدلیہ فیصلہ عوام پر چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گی لہٰذا عمران خان اگر آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تبدیلی سے پہلے وزیراعظم تبدیل نہیں کر پاتے تو ان کی دلی مزید دور ہو جائے گی۔
ہم اب میاں نواز شریف کے کھیل کی طرف آتے ہیں‘ میاں نواز شریف مشکل میں ہیں‘ پانامہ لیکس خوفناک پھندا ہیں اور میاں نواز شریف اس پھندے میں پھنس چکے ہیں‘ یہ جس دن کوئی آزاد کمیشن بنا ئیں گے‘ یہ ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جائیں گے چنانچہ یہ ہر قیمت پر جوڈیشل کمیشن سے بچنا چاہتے ہیں‘ یہ اب تک کامیاب بھی ہیں‘ کیسے؟ اس کیسے کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ میاں نواز شریف کی خوش نصیبی ہے‘ یہ اللہ تعالیٰ سے کوئی خصوصی نصیب لکھوا کر زمین پر آئے ہیں‘ میاں نواز شریف کو دشمنوں کا ہر وار پہلے سے زیادہ مضبوط بنا جاتا ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تحقیق کر لیں عمران خان جب بھی ان کے خلاف میدان میں اترے ملک میں سیلاب آ گئے‘ دہشت گردی کی وارداتیں ہو گئیں یا پھر بین الاقوامی حالات بدل گئے اور حکومت اپنی تمام تر کوتاہیوں‘ نالائقیوں اور غلطیوں کے باوجود مضبوط ہو گئی‘ آپ میاں نواز شریف کی قسمت دیکھیں عمران خان نے پارلیمنٹ کے اس مشترکہ اجلاس کابھی بائیکاٹ کر دیا جس سے پاکستان نے بھارت کو ’’یونٹی‘‘ کا پیغام دینا تھا‘ یہ عمران خان کا وہ غلط فیصلہ تھا جس کی حمایت ان کے کولیشن پارٹنر جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی تک نے نہیں کی‘ پورا ملک اس فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف کی مذمت کر رہا ہے‘ عمران خان کو چاہیے تھا‘ یہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جاتے‘ قرارداد پاس کراتے اور دو دن بعد پارلیمنٹ کے مستقل بائیکاٹ کا اعلان کر دیتے‘ قوم ان کی تعریف پر مجبور ہو جاتی‘ میاں نواز شریف کی کامیابی کی دوسری وجہ اپوزیشن جماعتوں کی نااتفاقی ہے‘ اپوزیشن جماعتیں بڑی مشکل سے پانامہ لیکس پر اکٹھی ہوئی تھیں‘ عمران خان اور آصف علی زرداری کے درمیان رابطہ ہوا اور ایم کیو ایم بھی اختلافات بھلا کر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھ گئی لیکن یہ اتحاد زیادہ دنوں تک نہ چل سکا‘ ایم کیو ایم سب سے پہلے الگ ہوئی لیکن یہ الگ ہونے کے باوجود ’’پکچر‘‘ میں رہی‘ الطاف حسین کا خیال تھا یہ ایم کیو ایم کے ارکان کی بھوک ہڑتال کے آخر میں اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں گے جس کے بعد عمران خان استعفے دے کر حکومت کو قبل از وقت الیکشن پر مجبور کر دیں گے لیکن آخری اعلان سے پہلے ہی ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے اظہار لاتعلقی کر دیا‘ پاکستان مسلم لیگ ن اب ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم پاکستان میاں نوازا شریف کو سپورٹ کر رہی ہے‘ ایم کیو ایم کے بعدپاکستان پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھی رہی‘ یہ فیصلہ ہوا بلاول بھٹو اپنا کنٹینر لے کر عمران خان کے ساتھ رائے ونڈ کا گھیراؤ کریں گے لیکن عین وقت پر زرداری حسین نواز مذاکرات کامیاب ہو گئے اور پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی‘ حکومت کی چودھری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کے ساتھ بھی بیک ڈور ڈپلومیسی کامیاب رہی‘ یہ بھی یلغار کے مخالف ہو گئے اور پیچھے رہ گئے علامہ طاہر القادری تو یہ ’’فل سونگ‘‘ میں عمران خان کے ساتھ آئے تھے لیکن ان کے لشکر کے بے شمار سالار مخالف پارٹی کے ساتھ مل گئے لہٰذا یہ بھی واپس بھاگ گئے‘ میاں نواز شریف کو اپوزیشن کے اس توڑ پھوڑ کا فائدہ ہوا‘ یہ جوڈیشل کمیشن کو چھ ماہ تک ٹالنے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ پانامہ کو مستقبل میں بھی اسی طرح کبھی دہشت گردی‘ کبھی مقبوضہ کشمیر اور کبھی بھارتی سرجیکل سٹرائیکس کے پیچھے چھپاتے رہیں گے‘ یہ کمیشن نہیں بنائیں گے اور یہ اگر بنائیں گے بھی تو انہیں اپنی کامیابی کا پورا یقین ہو گا۔
ہم اب ان دونوں کا تجزیہ کرتے ہیں‘ عمران خان حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دینا چاہتے ہیں‘ یہ چاہتے ہیں حکومت کے منصوبے مکمل نہ ہوں‘ یہ میاں برادران کو الیکشنوں سے پہلے ڈس کوالی فائی بھی کرانا چاہتے ہیں‘ دوسری طرف میاں نواز شریف ہر قیمت پر پانامہ لیکس سے بچنا چاہتے ہیں‘ یہ اپنی مدت بھی پوری کرنا چاہتے ہیں‘ یہ دونوں اپنی ضد کے پکے ہیں‘ یہ پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ پوری دنیا ان کی ضد اور کش مکش کو تشویش سے دیکھ رہی ہے‘ ہماری فوج ملکی تاریخ میں پہلی بار بیک وقت مغرب اور مشرق دونوں سرحدوں پر تعینات ہے‘ ہمیں افغان سرحد پر بھی لڑنا پڑ رہا ہے اور بھارت بھی سرحد پر فوجیں بڑھا رہا ہے‘ عوام اس صورتحال سے پریشان ہیں ‘ مجھے خطرہ ہے‘ یہ ملک کہیں ایک بار پھر شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان اور نواز شرف کی ضد کا شکار نہ ہو جائے‘ عمران خان اگر پیچھے نہیں ہٹتے یا نواز شریف چودھری نثار کو وزیراعظم نہیں بناتے تو یہ ملک ایک بار پھر حکمرانوں کی ضد کا شکار ہو جائے گا‘ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب صرف تین آپشن بچیں ہیں‘ یہ ملک کو تباہ ہونے دے‘ یہ دونوں کو خاموش کرائے یا پھر یہ کاکڑ فارمولے کے تحت دونوں کو فارغ کر دے‘ دُم اور چونچ دونوں اُڑ جائیں‘ عمران خان اور نواز شریف بھی آصف علی زرداری اور الطاف حسین بن جائیں اور جس طرح پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنے قائدین کے بغیر چل رہی ہیں بالکل اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے بغیر چلتی رہیں‘اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہو جائیں ۔
اس پرچم کے سائے تلے
6
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں