جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ہنزہ بھی حکومت کا منتظر ہے

datetime 31  جولائی  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہنزہ کی زیادہ تر آبادی اسماعیلی ہے‘ پرنس کریم آغا خان ان کے روحانی پیشوا ہیں لہٰذا یہاں آغا خان فاﺅنڈیشن نے بے شمار ترقیاتی کام کئے‘ فاﺅنڈیشن نے 35 برس قبل علاقے کی خواتین کو خودمختار بنانا شروع کیا‘ دیہات میں ”کمیٹی سسٹم“ شروع ہوا‘ خواتین ہر ہفتے پانچ پانچ روپے جمع کرتیں‘ یہ رقم کسی ایک خاتون کو دے دی جاتی اور وہ اس سے اچار‘ چٹنیاں اور مربعوں کا کاروبار شروع کر لیتی‘ یہ کوشش کامیاب ہو گئی‘ کامیاب خواتین کو آغا خان فاﺅنڈیشن نے بلاسود قرضے دینا شروع کر دیئے‘ یہ قرض دو شرائط پر دیئے جاتے تھے‘ ایک‘ مقروض شخص یہ قرضہ قسطوں میں واپس کرے گا‘ دو‘ قرضہ ادا ہونے کے بعد یہ شخص منافع کا ایک حصہ اس فنڈ میں جمع کرائے گا جس سے ضرورت مندوں کو قرضے دیئے جاتے ہیں‘ یہ سکیم بھی کامیاب ہو گئی اور یوں لوگ خوشحال ہو گئے‘ ہنزہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں کوئی شخص غریب نہیں‘ علاقے کا ہر خاندان‘ ہر گھرانہ خوشحال ہے‘ آپ کو شاید یہ جا ن کر حیرت ہو گی یہ ملک کا واحد حصہ ہے جس میں کوئی گداگر‘ کوئی فقیر نہیں‘یہاں آپ کے سامنے کوئی ہاتھ نہیں پھیلاتا‘ علاقے کی بے شمار روایات قابل تقلید ہیں‘ مثلاً یہ لوگ اپنی کمیونٹی کو روزانہ وقت دیتے ہیں‘ یہ روایت ”نذرانہ“ کہلاتی ہے‘ نذرانہ وقت اور علم کا ”کمبی نیشن“ ہے‘ کامیاب لوگ روز چند منٹ نکال کر دوسروں کو اپنے علم‘ اپنے ہنر اور اپنے تجربات سے مستفید کرتے ہیں‘ یہ لوگ اپنے بچوں کو روزانہ جماعت خانہ بھی بھجواتے ہیں‘ جماعت خانے میں بچوں کو ہاتھ دھونے‘ کنگھی کرنے‘ دوسروں کو دیکھ کر مسکرانے‘ بات کرنے اور کام کی اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں‘ یہ لوگ تعلیم کو بہت فوقیت دیتے ہیں‘ فاﺅنڈیشن نے پورے علاقے میں شاندار سکول بنا رکھے ہیں‘ یہ تمام سکول ”انگلش میڈیم“ ہیں‘ بچوں کو بینچوں پر بٹھا کر عزت کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے‘ فاﺅنڈیشن اساتذہ کو باقاعدہ ٹریننگ دیتی ہے‘ استاد سال سال ٹریننگ لیتے ہیں‘ بچیوں کی تعلیم لازمی ہے‘ کوئی اسماعیلی اپنی بچی کو تعلیم نہ دے یہ ممکن ہی نہیں‘ ہنزہ کی تمام بچیاں تعلیم یافتہ ہیں‘ یہ ہنر مند بھی ہیں اور ان کی انگریزی کا لیول بھی بہت اونچا ہے‘ میں نے جتنا اعتماد اور بے خوفی ہنزہ کی خواتین میں دیکھی اتنی ملک کے کسی دوسرے حصے میں نظر نہیں آئی‘ ہنزہ کی خواتین دن ہو یا رات بے خوفی سے پھرتی ہیں‘ میں نے کسی عورت کے چہرے پر بے اعتمادی‘ احساس کمتری یا خوف نہیں دیکھا‘ یہ مشاہدہ حیران کن تھا‘ ہنزہ میں شرح خواندگی 97 فیصد ہے‘ بچے ایف اے‘ ایف ایس سی کے بعد فاﺅنڈیشن کے سکالر شپ پر تعلیم کےلئے بڑے شہروں میں جاتے ہیں‘ ان میں سے بے شمار نوجوان اعلیٰ تعلیم کےلئے ملک سے باہر بھی جاتے ہیں لیکن یہ ڈگری کے بعد اپنے ملک میں واپس ضرور آتے ہیں‘ یہ گلگت کی قراقرم یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں یا پھر پانچ دس سال اپنی کمیونٹی کےلئے کام کرتے ہیں‘ ہنزہ کے نوجوان بہت محنتی اور سمارٹ ہیں‘ یہ لوگ لباس پہننے اور لوگوں سے میل ملاقات کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ آپ کو دیکھ کر مسکرائیں گے‘ آپ کو بلاوجہ ڈسٹرب نہیں کریں گے‘ آپ ان سے ایڈریس پوچھیں گے تو یہ آپ کی باقاعدہ رہنمائی کریں گے‘ یہ وعدہ بھی پورا کریں گے‘ آپ نے ڈرائیور کو آٹھ بجے کا وقت دیا ہے تو یہ ٹھیک آٹھ بجے آپ کے دروازے پر ہو گا۔
ہنزہ کے لوگ اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن سمیع کی بہت تعریف کر رہے تھے‘ پتہ چلا‘ یہ لوگوں کو اپنے دفتر نہیں بلاتے بلکہ خود ان کے پاس چلے جاتے ہیں‘ انہوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی طے کر دیئے ہیں‘ یہ کرائے نامے تمام ہوٹلوں اور ریستورانوں میں آویزاں ہیں‘ ٹرانسپورٹ کے ریٹس بھی گاڑیوں اور جیپوں کی سکرینوں پر چپکا دیئے گئے ہیں‘ مالکان اس دستاویز کا احترام کرتے ہیں‘ یہ اضافی کرایہ وصول نہیں کرتے‘ ہنزہ صرف شہر نہیں ‘ یہ ایک لت ہے‘ ہنزہ کے لوگ بڑے شہروں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں گھر بناتے اور کاروبار کرتے ہیں لیکن یہ اپنا آبائی گاﺅں اور گھر نہیں چھوڑتے‘ یہ سال میں چند دن ہنزہ میں ضرور گزارتے ہیں‘ مجھے یہاں فرحت اللہ بیگ بھی ملے‘ یہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں لیکن یہ ہنزہ میں ایمبیسی ہوٹل کے نام سے ہوٹلوں اور ریستورانوں کی ”چین“ چلا رہے ہیں‘ کریم آباد میں ان کا بہت خوبصورت ہوٹل ہے‘ مجھے اس ہوٹل کے ٹیرس پر کھانا کھانے کا موقع ملا‘ وہ کمال جگہ اور کمال وقت تھا‘ بیگ صاحب بہت اچھے انسان ہیں‘ یہ تمام خوبیاں اپنی جگہ لیکن ہنزہ چند مسائل کا شکار بھی ہے‘ یہ تمام مسائل حکومت کی تھوڑی سی توجہ سے حل ہو سکتے ہیں مثلاً ہنزہ بجلی کے شدید بحران میں مبتلا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی کی بہت بڑی نعمت سے نواز رکھا ہے مگر اس کے باوجود یہاں بجلی نہیں‘ پورا شہر جنریٹرز پر چل رہا ہے‘ آپ کسی طرف نکل جائیں آپ جنریٹر کا شور سنیں گے ”ایگل نیسٹ“ میں بھی 24 گھنٹے جنریٹر کی ”ٹھک ٹھک اور ٹھررٹھرر“ کی آوازیں آتی رہتی تھیں‘ یہ آوازیں سیاحوں کی جمالیاتی حسوں کو زخمی کرتی رہتی ہیں‘ حکومت اگر معمولی سی توجہ دے دے‘ یہ ہنزہ کےلئے بجلی کا الگ بندوبست کر دے‘ یہ ہنزہ کے پانیوں سے ہنزہ کے لوگوں کےلئے بجلی بنانا شروع کر دے تو لوگ بھی دعائیں دیں گے اور سیاح بھی سکھ کا سانس لیں گے‘ ہنزہ کے دیہات میں سڑکوں کی حالت بھی اچھی نہیں۔ ”ایگل نیسٹ“ ہنزہ کےلئے ”ایفل ٹاور“ کی حیثیت رکھتا ہے‘ ہنزہ آنے والا ہر شخص ایگل نیسٹ ضرور جاتا ہے لیکن اس کی سڑک کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے‘ چڑھائی زیادہ ہے‘ سڑک چھوٹی ہے‘ موڑ خطرناک ہیں‘ حکومت چند کروڑ روپے خرچ کر کے سڑک کھلی کر سکتی ہے‘ سڑک کی مرمت کےلئے بھی سالانہ بجٹ مختص ہونا چاہیے‘ حکومت خواہ ٹول ٹیکس طے کر دے لیکن سڑک کی مرمت اور وسعت دونوں ضروری ہیں‘ سست اور خنجراب روڈ پر واش رومز‘ چائے خانے اور کچرے کی صفائی کا بندوبست نہیں ‘ حکومت اس پر بھی توجہ دے‘ آپ یہ ذمہ داری بارڈر سیکورٹی فورس کو بھی سونپ سکتے ہیں‘ گلگت بلتستان کبھی غیر ملکی سیاحوں کا سیاحتی ”ویٹی کن“ ہوتا تھا‘ گلگت میں مقامی لوگ کم اور غیر ملکی زیادہ نظر آتے تھے‘ نائین الیون کے بعد غیر ملکی سیاح غائب ہوگئے ہیں‘ اگر اب کوئی مقدر کا مارا انگریز ادھر آ نکلتا ہے تو ہمارے خفیہ ادارے اس کی مت مار دیتے ہیں‘ اسے جگہ جگہ روکا اور ذلیل کیا جاتا ہے چنانچہ وہ بھی واپس چلا جاتا ہے‘ حکومت کو اس معاملے میں بھی کوئی واضح پالیسی بنانی چاہیے‘ آپ سیاح سے تمام معلومات اسلام آباد میں لے لیں اور پھر اسے کوئی شخص تنگ نہ کرے‘ گلگت کےلئے فلائیٹس کم ہیں‘ یہ فلائیٹس بھی سیاحتی دنوں میں بڑھا دی جائیں‘ پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی چھوٹے جہاز چلانے کی اجازت دے دی جائے‘ ملک میں پچھلے چند برسوں میں سیاحت میں بے تہاشہ اضافہ ہوا‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ ملک میں دہشت گردی میں کمی آئی‘ لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو سیروسیاحت کی ترغیب دی‘ لوگ فیس بک کا ”سٹیٹس“ دیکھ کر بھی شمالی علاقہ جات کی طرف نکل رہے ہیں‘ یہ رش عید کے دنوں میں اژدہام بن جاتا ہے‘ سڑکیں بند ہو جاتی ہیں‘ ہوٹلوں میں کمرے نہیں ملتے اور خوراک کا بحران پیدا ہو جاتا ہے‘ حکومت کو اس ”ٹرینڈ“ پر بھی نظر رکھنی چاہیے‘ یہ ملک میں ”سیاحتی اتھارٹی“ بنائے‘ یہ اتھارٹی سیاحتی زون قائم کرے‘ یہ ہوٹل ڈیزائن کرے‘ انفراسٹرکچر پر رقم خرچ کرے‘ ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور ٹرانسپورٹ کےلئے قرضے دے اور سیاحتی ویب سائیٹس بنوائے‘ یہ اقدامات سیاحت‘ انڈسٹری اور ملک کے امیج تینوں کےلئے بہتر ہوں گے‘ آپ فرض کیجئے ہنزہ میں 40 ہوٹل ہیں‘ ٹوٹل کمرے 400 ہیں اور فرض کر لیجئے ان کمروں میں کل ہزار بیڈز ہیں‘ حکومت ہنزہ کی ویب سائیٹ بنائے اور یہ بیڈز‘ یہ کمرے اور یہ ہوٹل ویب سائیٹ پر چڑھا دے‘ ٹرانسپورٹ بھی ویب سائیٹ پر دے دی جائے اور سڑکوں اور موسم کی صورتحال بھی‘ سیاح تمام بکنگز ویب سائیٹ پر کریں‘ اس سے سیاح‘ خاندان اور ہوٹل انتظامیہ بھی پریشانی سے بچ جائے گی اور حکومت بھی لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکے گی‘ یہ پریکٹس دنیا کے بے شمار ممالک میں ہو رہی ہے‘ ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہم شاید ملک میں کوئی اچھا کام کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ نہیں ٹھہریئے !ہم شاید سرے سے کام ہی نہیں کرنا چاہتے چنانچہ اسلام آباد ہو یا ہنزہ پورا ملک حکومت کا منتظر ہے‘ ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…