یہ جمعہ کی صبح تھی‘ تاریخ تھی 18 ستمبر اور سن تھا 2015ئ۔ پشاور میں بڈھ بیر کے ائیر بیس پر حملہ ہوا‘ 13 دہشت گرد آئے‘ بیس کے اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی‘ فوج‘ ائیر فورس اور کوئیک ریسپانس فورس نے جوابی کارروائی کی‘ فائرنگ شروع ہوئی اور گولیاں اڑ اڑ کر بیس سے باہر آنے لگیں‘ محمد جلیل پشاور کا ایک عام شہری ہے‘ یہ اس دن بیس کے قریب سے گزر رہا تھا‘ اس نے دور سے دیکھا‘ سات آٹھ برس کا ایک بچہ زخمی حالت میں سڑک پر پڑا ہے‘ لوگ بچے کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن فائرنگ اور سیکورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے بچے کے قریب نہیں جا رہے‘ محمد جلیل نے بچے کو اٹھانے اور ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ بھی مصلحت اور خوف کا شکار ہو کر آگے چل پڑا‘ وہ ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا‘ وہ خود کو گرا ہوا شخص محسوس کرنے لگا‘ وہ تاسف کے ہاتھوں مجبور ہوا‘ واپس پلٹا‘ برستی ہوئی گولیوں میں بچے کے قریب گیا‘ اس نے بچے کو سیدھا کیا اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی‘ اس نے بچے کو اپنے ساتھ لپٹا لیا‘ کیوں؟ کیونکہ وہ زخمی بچہ اس کا اپنا بیٹا شاکر اللہ تھا۔ وہ بچہ حملے کے دوران ائیر بیس کے قریب سے گزر رہا تھا اور اچانک فائرنگ کی زد میں آگیا‘ جلیل نے بچے کو اٹھایا اور ہسپتال کی طرف دوڑ پڑا‘ بچے کی جان بچ گئی‘ جلیل آٹھ دن سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا ہے‘ اللہ نے ضمیر کی آواز کے ذریعے اس کے اکلوتے بیٹے کی جان بچا لی۔
ہم سب جلیل ہیں‘ ہم روز سڑکوں‘ چوراہوں اور چوکوں پر درجنوں حادثے دیکھتے ہیں‘ ہمارے سامنے گاڑیاں الٹی پڑی ہوتی ہیں‘ ہمارے سامنے لوگ جلتی عمارتوں کی کھڑکیوں سے مدد مدد پکار رہے ہوتے ہیں‘ ہم لوگوں کو ڈوبتا بھی دیکھتے ہیں اور ہم روز لوگوں کودوا‘ خون کی بوتل اور پٹی کےلئے چلاتے بھی دیکھتے ہیں لیکن ہم چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں‘ ہمیں اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے‘ ہم نے دفتر جانا ہوتا ہے‘ ہم نے شاپنگ کرنی ہوتی ہے اور ہمارے گھر میں ہمارے مہمان ہمارا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘ یہ تمام کام ضروری ہیں لیکن ہم اگر ایک لمحے کےلئے ان زخمیوں‘ ان مجبوروں‘ ان لاچاروں اور مدد مدد پکارتے ان بے بسوں کے قریب سے گزرتے ہوئے یہ سوچ لیں ” یہ زخمی بچہ شاکر اللہ کی طرح میرا بیٹا بھی ہو سکتا ہے“ تو آپ اندازہ کیجئے‘ ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی جان بچ جائے گی‘ ہم کتنے لوگوں کےلئے مدد گار ثابت ہوں گے‘ میں محمد جلیل جیسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں‘ یہ لوگ گاڑی روک کر زخمیوں کی مدد کےلئے نیچے اترے تو پتہ چلا یہ زخمی ان کا اپنا بھائی‘ بیٹا یا عزیز ترین دوست ہے اور میں ایسے درجنوں لوگوں سے بھی واقف ہوں جو زخمیوں کے قریب سے گزر گئے اور چند گھنٹے بعد معلوم ہوا وہ جسے سڑک پر مرتا چھوڑ آئے تھے وہ ان کا عزیز تھا‘ میرے ایک سرجن دوست کی ذاتی زندگی کا واقعہ ہے‘ یہ آپریشن تھیٹر میں بارہ گھنٹے گزار کر گھر پہنچے‘ کھانا کھایا اور سو گئے‘ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی‘ انہوں نے گراہم بیل کو گالیاں دیتے دیتے فون اٹھایا‘ ہسپتال سے فون تھا‘ نرس کا کہنا تھا‘ ایکسیڈنٹ کا کیس ہے‘ فوری آپریشن ضروری ہے‘ ڈاکٹر صاحب تھکے ہوئے بھی تھے اور نیند میں بھی تھے‘ انہوں نے غصے سے فون بند کر دیا‘ بستر میں گھسے لیکن نیند نہ آئی‘ کروٹیں بدلتے رہے یہاں تک کہ احساس ندامت کا شکار ہو گئے‘ اٹھے اور سلیپنگ سوٹ میں ہسپتال پہنچ گئے‘ مریض کو دیکھا اور منہ سے چیخ نکل گئی‘ وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا‘ بیٹا لاہور میں پڑھتا تھا‘ وہ فیملی کو سرپرائز دینے کےلئے اسلام آباد آیا لیکن مندرہ کے قریب ایکسیڈنٹ ہو گیا‘ زخم شدید تھے چنانچہ اسے شہر کے بڑے ہسپتال میں پہنچا دیا گیا‘ ڈیوٹی پر موجود نرس نے سرجن کو فون کیا لیکن وہ نیند میں تھا‘ سرجن پہنچا لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی‘ ڈاکٹر صاحب کا بیٹا فوت ہو چکا تھا۔ مجھے لاہور کے ایک طالب علم نے اپنا واقعہ سنایا‘ وہ دوستوں کے ساتھ کینٹین پر بیٹھا تھا‘ ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور اونچی آواز میں بولا ” او پازیٹو خون کی دو بوتلیں چاہئیں‘ ایمرجنسی ہے“ طالب علم کا کہنا تھا ”میرا بلڈ گروپ او پازیٹو ہے لیکن میں نے اعلان پر توجہ نہ دی‘ میں دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا رہا‘ وہ لڑکا بار بار اعلان کر رہا تھا‘ ہم اس کے اعلان سے چڑنے لگے‘ میرے دوست نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے آہستہ آواز میں بولنے کا اشارہ کیا لیکن وہ باز نہ آیا‘ وہ اعلان کرتا رہا‘ مجھے غصہ آ گیا‘ میں نے ہاتھ اٹھایا‘ اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا ” میرا گروپ او پازیٹو ہے لیکن میں خون نہیں دوں گا‘ جاﺅ جو کرنا ہے کر لو“ وہ لڑکا سیدھا میری طرف آیا‘ میرے سامنے ہاتھ باندھے اور رو کر کہنے لگا ”سر میرا دوست یونیورسٹی کی بس کے نیچے آ گیا ہے‘ خدا کےلئے خون کی دو بوتلیں دے دیں‘ یہ بچ جائے گا“ میں جوانی کی مستی میں تھا‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اسے بلڈ بینک سے رابطے کا مشورہ دے دیا‘ وہ منتیں کرتا رہا لیکن میں نہ مانا‘ میں شام کو ہاسٹل پہنچا تو وہ لڑکا میرے کمرے کے باہر بیٹھا تھا‘ وہ مجھے اور میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا‘ بات کھلی تو پتہ چلا‘ وہ نوجوان میرے چھوٹے بھائی کا دوست تھا‘ میں اس سے واقف نہیں تھا‘ یہ دونوں مجھے ملنے آئے‘ میرے بھائی نے چلتی ہوئی بس سے اترنے کی کوشش کی‘ نیچے گرا اور بس کا ٹائر اس کے اوپر سے گزر گیا‘ بھائی شدید زخمی تھا‘ اسے او پازیٹو خون کی ضرورت تھی‘ اس کا دوست میری منتیں کرتا رہا اور میرا بھائی ہسپتال میں آخری سانسیں لیتا رہا‘ میرے گھر والے مجھے فون بھی کرتے رہے لیکن اس دن لاہور میں فون سروس بند تھی اور یوں میرا بھائی فوت ہو گیا‘ مجھے اس دن سے اپنے آپ اور اپنے خون دونوں سے شدید نفرت ہے“۔
اسلام آباد میں میرے ایک جاننے والے کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا‘ یہ وزیراعظم ہاﺅس میں میٹنگ کےلئے جا رہے تھے‘ یہ مارگلہ روڈ پر پہنچے تو سڑک پر ایک کار الٹی پڑی تھی‘ لوگ گاڑی کے گرد جمع تھے‘ ٹریفک جام تھی‘ انہیں جلدی تھی لیکن ان کی گاڑی پھنس گئی‘ یہ پریشان ہو گئے اور پریشانی میں ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کی ہدایت کرنے لگے‘ ڈرائیور لوگوں کو ہارن دینے لگا لیکن گاڑی گزارنے کی جگہ نہیں تھی‘ یہ غصے میں آ گئے‘ یہ گاڑی سے نیچے اترے اور لوگوں کو دھکے دینے لگے‘ یہ لوگوں کو دھکیل رہے تھے اور ڈرائیور گاڑی آگے کھسکا رہا تھا‘ گاڑی جب حادثے کا شکار گاڑی کے قریب پہنچی تو ڈرائیور نے اس کی ایک جھلک دیکھ لی‘ وہ گھبرا کر نیچے اتر آیا‘ صاحب نے ڈرائیور کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا‘ ڈرائیور نے ہاتھ کے اشارے سے دوسری گاڑی کی طرف متوجہ کیا اور چلا کر کہا ” سر یہ ہماری گاڑی ہے“ صاحب پریشان ہو گئے‘ یہ لوگوں کو دھکیل کر گاڑی کے قریب پہنچے تو پتہ چلا‘ وہ ان کے گھر کی گاڑی تھی‘ گاڑی پھسل کر الٹ گئی تھی اور بیگم صاحبہ اور تینوں بیٹیاں زخمی حالت میں اندر پھنسی تھیں‘ یہ بچیوں کو لہو لہان دیکھ کر نیم پاگل ہو گئے‘ بہرحال اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ ان کے اہل خانہ کی جان بچ گئی لیکن یہ آج بھی گہرے صدمے میں ہیں‘ اسی قسم کا ایک واقعہ لاہور کے ایک شخص نے سنایا‘ اس نے بتایا‘ ایک سرکاری عمارت کو آگ لگ گئی‘ عمارت کی پانچویں منزل پر انٹرویو چل رہا تھا‘ آگ لگتے ہی عملہ بھاگ گیا لیکن انٹرویو کےلئے موجود امیدوار وہیں پھنس گئے‘ آگ اور دھواں ناقابل برداشت ہوا تو امیدوار کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر مدد کےلئے پکارنے لگے لیکن فائر بریگیڈ بھی دور تھا اور آگ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کےلئے اونچی سیڑھیاں بھی دستیاب نہیں تھیں‘ عمارت کی گرد ہجوم جمع ہو گیا‘ یہ تماش بین آگ میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کی بجائے کھڑکیوں میں مدد مدد پکارتے لوگوں کی موبائل فون سے ویڈیو بنانے لگے‘ آگ مزید پھیل گئی تو ایک نوجوان کھڑکی کے باہر لٹک گیا‘ ہجوم اس کی ویڈیو بھی بنانے لگا‘ ویڈیو بنانے والوں میں سے ایک نوجوان نے اپنے فون کا کیمرہ زوم کیا تو وہ چیخ اٹھا ” یہ میرا بھائی ہے‘ یہ میرا بھائی ہے“ ہجوم فوراً اس کی طرف متوجہ ہو گیا‘ وہاں اب ایک نیا کھیل شروع ہو گیا‘ لوگ پہلے کھڑکی سے لٹکے نوجوان کی فلم بناتے‘ فون کو وہاں سے گھماتے اور پھر سر پیٹتے اور لوگوں کی منت کرتے بھائی کی ویڈیو بناتے‘ اس وقت وہاں سینکڑوں لوگ موجود تھے لیکن وہ تمام لوگ کیمرہ مین تھے‘ ان میں سے کوئی شخص لٹکے ہوئے نوجوان کی مدد کےلئے تیار نہیں تھا‘ یہاں تک کہ وہ نوجوان گرا‘ تڑپا اور جان دے دی‘ ہجوم نے اس کے تڑپنے کی فلم بھی بنائی‘ آپ نے لاہور یوحنا آباد میں دو نوجوانوں کو زندہ جلانے کے ویڈیو کلپ بھی دیکھے ہوں گے‘ آپ سنگدلی ملاحظہ کیجئے‘ دو زندہ انسانوں کو جلایا جا رہا تھا اور لوگ جلتے ہوئے لوگوں کی فلم بنا رہے تھے‘ یہ فلم بنانے والے لوگ یہ بھی بھول گئے‘ یہ جلی ہوئی لاشیں ان کے اپنے بھائی یا بیٹے کی بھی ہو سکتی ہیں‘ ملک میں چالیس برس سے کراچی کے مشہور نیورو سرجن ڈاکٹر جمعہ کا واقعہ بھی گردش کر رہا ہے‘ ڈاکٹر جمعہ کے آپریشن تھیٹر میں حادثے کے شکار ایک نوجوان کو لایا گیا‘ نوجوان کے سر پر گہری چوٹ تھی‘ ڈاکٹر جمعہ نے فیس مانگی‘ نوجوان کے ساتھ اس وقت کوئی شخص نہیں تھا لہٰذا فیس ممکن نہیں تھی‘ ڈاکٹر صاحب زخمی کو چھوڑ کر گھر چلے گئے‘ زخمی نوجوان فوت ہو گیا‘ اگلی صبح معلوم ہوا‘ وہ نوجوان ڈاکٹر صاحب کا سگا بیٹا تھا‘ وہ شاہراہ فیصل پر حادثے کا شکار ہوا اور بروقت آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کر گیا‘ ڈاکٹر جمعہ اور ان کا خاندان چالیس برس سے اس واقعے کی تردید کر رہا ہے لیکن یہ اس کے باوجود ایک سبق آموز کہانی ہے۔
آج عید کا دن ہے‘ ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید کی خوشیاں منا رہے ہیں‘ میری تمام پڑھنے والوں سے درخواست ہے‘ آپ آج سے یہ فیصلہ کر لیں‘ آپ کل سے حادثوں کی جگہوں پر رکیں گے اور حادثے کے شکار لوگوں کی مکمل مدد کریں گے‘ کیوں؟ کیونکہ ہو سکتا ہے حادثے کا شکار بچہ شاکر اللہ کی طرح آپ کا اپنا بیٹا اور ہسپتال کی ایمرجنسی میں پڑا نوجوان آپ کا اپنا بھائی ہو‘ آپ کا یہ فیصلہ معاشرے کےلئے عید کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہو گا۔
یہ آپ کا بچہ بھی ہو سکتاہے
25
ستمبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں