چیخ کر بتاتے ہیں اللہ کے زیادہ تر نبیوں کو جنگ کے میدانوں میں بھی اترنا پڑا اور سکون اور امن کی تلاش میں ہجرتیں بھی کرنا پڑیں‘ حضرت عثمانؓ کو جب شہید کیا گیا تھا تو وہ قرآن مجید پڑھ رہے تھے‘ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ پر جب دشمنوں نے حملہ کیا تو یہ تمام تر روحانیت‘ تصوف اور توکل کے باوجود مجروح ہوئے اور انہیں دواءاور حکیم کی ضرورت بھی پڑی اور وہ دوائیں دنیاوی تھیں اوروہ اس وقت بھی یونانی‘ ہندی اور چینی کہلاتی تھیں‘ وہ ہستیاں جب دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم کو تسلیم کرتی تھیں تو آج ہم دین اور دنیا کے علم کو توکل کے خلاف کیوں قرار دے رہے ہیں؟ ہم جس دن ٹھنڈے دل سے علم‘ ٹیکنالوجی اور توکل اور صرف توکل کا تقابل کریں گے تو ہمارے لئے طالبان اور اسامہ بن لادن کی مثال ہی کافی ہو گی‘ یہ متوکل لوگ تھے لیکن جب جنگ ہوئی تو ٹیکنالوجی فضا سے حملے کرتی رہی اور یہ لوگ زمین پر دشمن کا انتظار کرتے رہے‘ نتیجہ آپ کے سامنے ہے! پوری اسلامی دنیا تورا بورا جیسے انجام سے خوفزدہ ہو کر کفار کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور بوریا نشین بیچارے اکیلے رہ گئے‘ نیٹو نے 14 برسوں میں صرف ساڑھے تین ہزارنعشیں اٹھائیں ‘ افغانستان کے 20لاکھ بے گناہ لوگ مارے گئے جبکہ امیر المومنین آج تک روپوش ہیں اور شیخ اسامہ یمنی نے ایبٹ آباد میں پناہ لے لی اور سات برس تک اپنا سر باہر نہیں نکالا‘ یہ لوگ اگر متوکل تھے‘ یہ اگر اللہ کی نصرت پر یقین رکھتے تھے تو یہ میدان میں کھڑے کیوں نہیں رہے؟ اور 20 لاکھ بے گناہ افغان کیوں مارے گئے! کیاافغانوں کی یہ 20 لاکھ لاشیں ہمارے اس فکری قحط کا نتیجہ نہیں ہیں جس کی گرفت میں آ کر ہم علم اور عمل دونوں سے دور ہو چکے ہیں۔
ہم مسلمانوں کو بہرحال یہ ماننا ہو گا‘ اللہ کی مدد مانگنے سے پہلے بدر میں آنا پڑتا ہے‘ جنگ کےلئے بہترین جگہ کا تعین کرنا پڑتا ہے‘ پوری تیاری کرنا پڑتی ہے اور آپ اگر 313 ہیں تو آپ کو وہ 313 میدان میں لانے پڑتے ہیں‘ ہمیں اس مغالطے سے بھی باہر آنا ہو گا‘ ہم پر دواءسے لے کر میزائل اور گاڑی سے لے کر جہاز تک مغرب کی تمام مصنوعات حلال ہیں لیکن ان مصنوعات کی ایجاد حرام ہے‘ ہمیں یہ طریقہ بھی ترک کرنا ہو گا جس میں پیر صاحب‘ حضرت صاحب‘ امام صاحب اور مولانا صاحب پوری زندگی لوگوں کو تعویذ دیتے ہیں‘ ان کے پانی میں شفاءکی پھونک مارتے ہیں اور ان کے کندھے پر تھپکی دے کر انہیں توکل کے راستے پر روانہ کرتے ہیں لیکن جب خود زکام میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہودیوں اور عیسائیوں کی دوائیں کھاتے دیر نہیں لگاتے‘ یہ لوگ اپنے لئے جرمن گاڑیاں پسند کرتے ہیں اور دوسروں کو فاقہ مستی اور اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا درس دیتے ہیں‘ ہم کتنے بدنصیب ہیں‘ ہم علم کے بغیر مچھر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ہم جاہل رہ کر اللہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کیا یہ تضاد نہیں؟اور کیا ہمیں اب تضاد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے؟۔
توکل علم اور عمل کے بغیر مکمل نہیں ہوتا
8
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں