آپ حیات طیبہ کا مطالعہ کریں‘ آپ کو پورا توکل سمجھ آ جائے گا‘ اللہ کے رسول نے غزوہ بدر میں گرفتار ہونے والے کفار کی رہائی کےلئے کیا شرائط رکھی تھیں؟ کیا ان میں یہ شامل نہیں تھا؟ آپ مدینہ کے ان پڑھوں کو پڑھنا سکھا دیں اور اپنے گھر واپس چلے جائیں اور کیا بدر میں گرفتار کفار دینی علم کے ماہر تھے؟ نہیں‘ ہرگز نہیں! وہ صرف اور صرف دنیاوی علم جانتے تھے اور اللہ کے رسول نے انہیں اپنے صحابہؓ کو دنیاوی علم سکھانے کی ہدایت فرمائی ‘ اللہ کے رسول جب بھی علیل ہوتے آپ دواءاستعمال کرتے اور پھر اللہ سے شفاءکی دعا فرماتے‘ پوری طب نبوی ان جڑی بوٹیوں کی گواہ ہے جو اللہ کے رسول نے خود بھی استعمال کیں اور اپنے اصحابؓ کو بھی کروائیں‘ آپ حضرت عمرؓ کی دو جنگی حکمتیں بھی ملاحظہ کیجئے‘ اسلامی تاریخ نے آج تک حضرت عمر فاروقؓ سے بڑا حکمران اور بڑا متوکل شخص پیدا نہیں کیا‘ حضرت عمرؓ کے دور میں ایران فتح ہوا‘ ایران کے دو حکمران تھے رستم اور فیروزان۔ ان ایرانی حکمرانوں نے مہران ہمدانی کی سرپرستی میں خوفناک لشکر بنایا اور یہ لشکر عراق بھجوادیا‘ عراق میں بویب کے مقام پر اسلامی اور ایرانی لشکر کا آمنا سامنا ہوا‘ مثنیٰ بن حارثہ مسلمان لشکر کے سالار تھے‘ اسلامی لشکر میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بنو نمر اور بنو تعلب کے عیسائی بھی شامل تھے اور قبیلہ بجیلہ کے وہ مرتد بھی جو اسلام کے ابتدائی دور میں اسلام سے منحرف ہو ئے اور پھر معاف کر دیئے گئے‘ اسلامی تاریخ کے عظیم مورخ محمد حسین ہیکل کے بقول حضرت عمرؓ نے قبیلہ بجیلہ کے تائبین ارتداد کو مال غنیمت کے علاوہ خمس کا چوتھائی حصہ دینے کا وعدہ کیا‘ یہ لوگ مان گئے اور یہ جرید بن عبداللہ بجلی کی قیادت میں مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہونے کےلئے عراق پہنچ گئے‘ (کتاب حضرت عمر فاروق اعظمؓ۔ مصنف محمد حسین ہیکل اورصفحات 160 تا 165)‘ کیا حضرت عمر فاروقؓ (نعوذ باللہ) متوکل نہیں تھے یا انہیں اللہ کی نصرت پر یقین نہیں تھا؟ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ تاریخ نے حضرت عمرؓ جیسا متوکل انسان آج تک پیدا نہیں کیا‘ پھر مسئلہ کیاتھا؟ مسئلہ یہ تھا حضرت عمر فاروق ؓ اللہ کے نظام کو سمجھتے تھے‘ وہ جانتے تھے‘ توکل تین عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے‘ تیاری‘ حکمت اور دعا۔ وہ جانتے تھے تیاری کےلئے علم چاہیے‘ حکمت کےلئے عمل درکار ہے اور دعا کےلئے اللہ پر پختہ یقین چاہیے‘ آپ تاریخ اسلام کے صرف ابتدائی سو سال کا مطالعہ کر لیجئے‘ آپ کو اسلامی لشکر کئی مقامات پر ہارتا ہوا‘ پسپا ہوتا ہوا اور بکھرتا ہوا بھی نظر آئے گا‘ آپ جب ان لشکروں کے سالاروں کا پروفائل نکالیں گے تو آپ کے سامنے ایسے ایسے نام آئیں گے جن کا ثانی دنیا آج تک پیدا نہیں کر سکی‘ وہ لوگ حکمت اور توکل دونوں میں یکتا تھے مگر پھر وہ کیوں ہارے‘ وہ کیوں پسپا ہوئے اور ان کے لشکر کیوں بکھرے؟ آپ جب تاریخ سے یہ سوال پوچھیں گے تو تاریخ آپ کو وجوہات بھی بتائے گی اور یہ وجوہات غزوہ احد جیسی ہوں گی جس میں اہل ایمان نے جنگی حکمت عملی کے دائرے سے باہر قدم رکھ دیا تھا‘ آپ صرف خلفائے راشدین کی جنگی تاریخ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو توکل میںحکمت اور تیاری دونوں کی سمجھ آ جائے گی۔
یہ دنیا حقائق کی دنیا ہے‘ مشرق سے لے کر مغرب تک اور زمین کی ساتویں تہہ سے لے کر ساتویں آسمان تک حقائق ہی حقائق ہیں‘ ہم اگر اپنی سستی‘ اپنی کم علمی‘ اپنی کم فہمی اور اپنی نالائقی کو تصوف کا نام دے کر ان حقائق سے آنکھیں چرانا چاہیں تو الگ بات ہے ورنہ یہ حقائق چیخ