ہم فرض کر لیتے ہیں حکومت کے سارے منصوبے مکمل ہو گئے‘ 32 ارب ڈالرسے کاشغر گوادر روٹس بن گئے‘ کراچی لاہور موٹروے بھی مکمل ہو گیا‘ تھرکول کا منصوبہ بھی تکمیل کو پہنچ گیا‘ ملک میں اب فرنس آئل کی بجائے کوئلے سے بجلی بھی بن رہی ہے‘ ملک میں تین نئے ڈیم بھی بن گئے‘ بھاشا ڈیم بھی بن گیا‘ داسو ڈیم بھی بن گیا اور نیلم جہلم پاورپراجیکٹ بھی مکمل ہو گیا‘ ہمارا ریلوے بھی جدید ہو گیا‘ ہم نے اسلام آباد مظفرآباد ریلوے لائین بھی بچھا لی اور اس پر ٹرینیں بھی چلنے لگیں‘ ہم نے پی آئی اے کو بھی ٹھیک کر لیا ¾ ملک میں اب 200 لوکل اور تین سو انٹر نیشنل فلائیٹس روزانہ چلتی ہیں‘ پاکستان کے 8 بڑے شہروں میں میٹروبسیں بھی شروع ہو چکی ہیں اور ان بسوں پر روزانہ دس لاکھ لوگ بھی سفر کرتے ہیں‘ ملک میں دس آئی ٹی پارکس بھی بن چکے ہیں اور ان آئی ٹی پارکس میں چار ہزار کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں اور ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں ملک میں ایل این جی بھی پہنچ چکی ہے‘ یہ گیس نیشنل ٹرانسمیشن لائین میں بھی آ چکی ہے اور ملک میں اب گیس کا بھی کوئی بحران نہیں ‘ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں لیکن فرض کرنے کے باوجود یہ بنیادی سوال اپنی جگہ قائم رہے گا ”یہ تمام سہولتیں استعمال کون کرے گا“۔ یہ گیس کس نے استعمال کرنی ہے‘ آئی ٹی پارکس کے اردگرد کون لوگ آ باد ہوں گے‘ میٹروبس میں سفر کون کرے گا‘پاکستان کی لوکل اور انٹر نیشنل فلائیٹس میں ٹریول کون کرے گا‘ اسلام آبادمظفرآباد ٹرین میں کون بیٹھے گا‘ بجلی کون استعمال کرے گا‘ کراچی سے لاہور تک موٹروے کے مسافر کون ہوں گے اور کاشغر گوادر روٹس کے اردگرد کون لوگ آباد ہوں گے؟ کیا یہ لوگ پاکستانی نہیں ہوں گے؟ اور کیا یہ محمد بشیر‘ رشید عباسی‘ میاں عظیم‘ رستم خان اور جان بگٹی نہیں ہوں گے؟ اگر ہاں تو کیا پھر مستقبل کے پاکستان میں کمزور ٹائر والی گاڑیاں‘ دھواں چھوڑنے والی ویگنیں‘ ٹوٹتے ہوئے ٹائی راڈ کے ٹرک اورہکوںکے بغیر ٹرالرز موٹرویز پر نہیں آئیں گے؟ کیا موٹرویز پر سکول کے بچوں کی بسیں نہیں الٹیں گی ‘ کیا ان بسوں میں آگ نہیں لگے گی‘ کیاان سڑکوں پر آئل ٹینکر نہیں پھسلیں گے‘ کیاسڑک پر آگ نہیں لگے اورکیا آگ سو سو لوگوں کو جلا کر راکھ نہیں بنا ئے گی‘ کیا مستقبل کے ریلوے پھاٹکوں پر بچوں کی وینیں نہیں پھنسیں گی اور ٹرینیں چالیس چالیس معصوم بچوں کے جسم پٹڑیوں پر نہیں مل دیں گے‘ کیا ہماری لوکل اور انٹرنیشنل فلائیٹس کے واش رومز چوک نہیں ہوں گے‘ کیالوگ جہازوں کی سیٹوں پر پاﺅں رکھ کر نہیں بیٹھیں گے‘ کیاسامان مسافروں کے سروں پر نہیں گرے گا‘ کیا مسافر جہازوں میں کھانے ‘ سیٹ چھوٹی ہونے اور تین تین بکسے اندر لے جانے کے ایشو پر عملے سے بدتمیزی نہیں کریں گے‘ کیا پابندی کے باوجود جہاز میں سگریٹ پینے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور کیا پائلٹ مسافروں کو جہازوں میں چھوڑ کر ہڑتال پر نہیں چلے جائیں گے؟ کیا لوگ آئی ٹی پارکس کے لانوں میں بھینس‘ بکریاں اور گائے نہیں چرائیں گے‘ کیا لوگ پارکس کی بجلی‘ گیس اور پانی کی لائین نہیں کاٹیں گے اور کیا کچی آبادی کے بچے آئی ٹی پارک کے گیٹس کے سامنے کرکٹ نہیں کھیلیں گے اور کیا ان پارکس کا عملہ کام کے دنوں میں ہڑتال نہیں کرے گا‘ کیا مستقبل کے پاکستان میں گیس کے چولہے نہیں پھٹیں گے‘ کیا گیس کی پائپ لائینز نہیں توڑی جائیں گی‘ کیا لوگ پابندی کے باوجود گیس پر جنریٹر نہیں چلائیں گے‘ کیا میٹرو بسوں کی سیٹیں نہیں پھاڑی جائیں گی‘ دروازوں میں چیونگم نہیں پھنسائی جائے گی اور شیشوں پر نام نہیں لکھے جائیں گے‘ کیا بجلی چوری نہیں ہو گی‘ کیا کنڈے نہیں لگائے جائیں گے‘ کیا گھروں میں سو سو بلب نہیں جلائے جائیں گے ¾ کیا پانی ضائع نہیں کیا جائے گا اور کیا شہروں اور قصبوں کے مافیاز گوادر کاشغر روٹ بند نہیں کریں گے‘ کیا کنٹینرز کو آگ نہیں لگائی جائے گی اور کیا چینی ڈرائیوروں کو اغوا نہیں کیا جائے گا؟۔ اگر ان تمام سوالوں کا جواب ہاں ہے تو پھر ملک کے تمام لوگوں کو کون ٹھیک کرے گا‘ عوام کی کردار سازی کس کا کام ہے‘ ملک میں معاشرتی تبدیلی کون لائے گا اور عوام پر کون توجہ دے گا؟۔
یہ درست ہے ملکوں میں انفراسٹرکچر ضروری ہوتا ہے‘ موٹرویز‘ ہائی ویز‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ ائیر لائینز‘ ڈیمز‘ پائپ لائینز اور میٹروز ضروری ہوتی ہیں‘ یہ منصوبے ترقی کے استعارے ہیں اور ملک کے کسی شخص کو ترقی کے ان استعاروں کے سامنے بند نہیں باندھنا چاہیے‘ مغل بادشاہ قحط اور بے روزگاری کے زمانوں میں ملک بھر میں خندقیں کھدوانا شروع کر دیتے تھے‘ امریکاکے دو بڑے واقعات نے امریکا کو سپر پاور بنادیا‘ ایک وہ وقت جب پورے امریکا کو ریلوے لائین کے ذریعے جوڑا گیا اور دوسرا وہ وقت جب امریکا کی پچاس ریاستوں کو روڈ نیٹ ورکس کے ذریعے آپس میں ملایا گیا اور یہ بھی درست ہے دنیا کا کوئی ملک اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہوتا جب تک وہ بجلی‘ گیس اور پانی میں خود کفیل نہ ہو جائے‘ جب تک پورا ملک روڈ نیٹ ورک کے ذریعے آپس میں نہ مل جائے اور جب تک اس کے ہر شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ موجود نہ ہوجس کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ بھی درست ہے ملکوں میں ترقیاتی کاموں کے بغیر معیشت چلانا مشکل ہوتا ہے‘ معاشروں میں ترقیاتی سرگرمیوں کے بغیر معاشی پہیہ حرکت میں نہیں آتا لیکن ان تمام حقیقتوں کے باوجود یہ حقیقت بھی حقیقت ہے یہ ساری سہولتیں بالآخر عوام استعمال کرتے ہیں ‘ عوام ریاستوں کے سارے اثاثوں کے امین بھی ہوتے ہیں اور پاکستان میں بدقسمتی سے آج تک کسی حکومت نے عوام کی سماجی‘ معاشی‘ ذہنی‘ نفسیاتی اور تہذیبی حالت پر توجہ نہیں دی‘ ہم نے آج تک ان لوگوں کی ڈویلپمنٹ پر کام نہیں کیا جنہوں نے یہ سارا انفراسٹرکچر استعمال کرنا ہے‘ جو ترقی کے ان تمام ثمرات کے امین ہوں گے۔
ہم نے ملک میں آج تک کوئی ایسا ادارہ نہیں بنایا جو عوام کو تہذیب اور شائستگی سکھائے‘ عوام کو بولنے‘ سلام کرنے‘ بیٹھنے‘ اٹھنے اور گلیوں سڑکوں میں پیدل چلنے کی تربیت دے‘ملک کے 95 فیصد لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں‘ آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں آپ کو وہاں شور ضرور ملے گا‘ لوگ مساجد تک میں اونچی آواز میں بولتے ہیں‘ لوگ وضو کے دوران اتنی اونچی آواز میں گلا اور ناک صاف کرتے ہیں کہ آواز امام صاحب تک پہنچتی ہے‘ آپ کسی مسجد کی دہلیز پر قدم رکھیں‘ آپ کو وہاں کیچڑ اور گرد ضرور ملے گی‘ وضو خانوں اور استنجہ خانوں میں بو اور غلاظت بھی ہو گی‘ لوگ مسجدوں میں صفیں پھلانگتے ہیں‘ قطار کا پورے ملک میں کوئی رواج نہیں‘ آپ ائیرپورٹس لاﺅنجز میں چلے جائیں آپ کو ہر جگہ سستی‘ بے زاری اور نحوست ملے گی‘ ہم ڈھیلے ترین اہلکار کو امیگریشن کاﺅنٹر پر بٹھا دیں گے اور وہ سینکڑوں مسافروں کو سامنے کھڑا کر کے کان صاف کرے گا‘ ملک میں موبائل کنکشنز کی تعداد بارہ کروڑ ہے لیکن موبائل استعمال کرنے کا طریقہ ایک لاکھ لوگوں کو بھی نہیں آتا‘ لوگ لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اونچی آواز میں موبائل پر بات کرتے ہیں‘ فون جنازوں اور نمازوں کے دوران بھی آن ہوتے ہیں‘ آپ کسی سرکاری اور غیر سرکاری دفتر میں چلے جائیں‘ آپ کو واش روم گندہ اور گیلا ملے گا‘ لوگ آج بھی کموڈ پر پاﺅں کے بل بیٹھتے ہیں‘ ایک شخص آئے گا اور یہ دیکھے بغیر کہ آپ کھانا کھا رہے ہیں‘ وہ دس لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملائے گا‘ لوگ دوسروں کے ہاتھوں میں گیلے اور گندے ہاتھ دے دیتے ہیں‘ ہم جب تک اختلاف نہ کر لیں‘ ہمیں آرام نہیں آتا‘ ہم بدتمیزی کو بہادری اور جرا¿ت سمجھتے ہیں‘ ملک میں بیس کروڑ لوگ ہیں مگر اخبارات کی کاپیاں صرف 20 لاکھ چھپتی ہیں‘ کتابوں کا ایڈیشن پانچ سو اور ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا‘ آپ اپنے گھر کی کھڑکی کھولیں یا بازار میں چلے جائیں آپ کے کان میں سب سے پہلے گالی پڑے گی کیونکہ گالی دینا ہمارے کلچر کا حصہ ہے‘ ملک میں پچاس لاکھ گاڑیاں ہیں‘ یہ پچاس لاکھ گاڑیاں دن بھر ہارن بجاتی ہیں‘ ہم آج تک عوام کو ٹریفک رولز کی پابندی نہیں سکھا سکے‘ لوگ کسی بھی وقت‘ کسی بھی جگہ سے سڑک پار کر جاتے ہیں اور کوئی انہیں روک نہیں سکتا‘ لوگ اہلیت کے بجائے ڈگریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں‘ لوگ آج بھی سرکاری املاک کو جلانا‘ سرکاری دفتروں پر حملہ کرنا‘ پٹڑی اکھاڑنا‘ سڑک توڑنا‘ کھمبے گرانا اور سگنل خراب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں‘ لوگ آج بھی کاروباری لوگوں‘ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو چور سمجھتے ہیں‘ لوگ دو‘ دو ارب روپے کی فیکٹری لگاتے ہیں لیکن سرکاری اہلکار دس ہزار روپے کی رشوت کےلئے یہ فیکٹری بند کردیتے ہیں‘وہ ورکر جس کا چولہا دفتر اور فیکٹری سے جلتا ہے وہ اپنے ہاتھ سے مشین خراب کردے گا‘ ڈاکٹر کمیشن کے چکر میں مریض کو جعلی دوا تجویز کر دے گا‘ سرجن پیسوں کےلئے تندرست مریض کا پیٹ کھول دے گا‘ حکیم دواﺅں میں سٹیرائیڈز ڈال دیں گے‘ انجینئرز چند لاکھ روپوں کےلئے پل میں سریا کم کر دے گا اور سڑک کی تارکول کھا جائے گا‘ ڈیم بنانے والی کمپنیاں کک بیکس کے چکر میں کمزور بند بنائیں گی‘ لوگ بجلی کے تار چوری کر لیں گے‘ مسافر سیٹیں پھاڑ دیں گے اور ٹرینوں اور بسوں کے شیشوں پر اپنا نام لکھ دیں گے‘ لوگ مسجدوں کی ٹوٹیاں اور پنکھے اتار کر لے جائیں گے‘ سکولوں میں گدھے اور بھینس باندھ دی جائیں گی‘ استاد تنخواہ لے لیں گے لیکن پڑھانے نہیں آئیں گے‘ امتحانات لینے والے پیسے لے کر نقل کرائیں گے‘ نقل کرنے والے ڈاکٹر بنیں گے اور یہ ڈاکٹر بعد ازاں نقل کرانے والوں کے گردے نکال کر بیچ دیں گے‘ دوائیں بنانے والے دواﺅں میں جعلی پاﺅڈر ڈالیں گے‘ گوشت بیچنے والے مردار جانوروں کا گوشت بیچیں گے اور خوراک کا کاروبار کرنے والے خوراک میں ملاوٹ کریں گے‘ نوجوان نقل کو کامیابی قرار دیں گے اور معمار بنیادوں کے پیسے بچا کر عمارت کے ماتھے پر ٹائلیں لگا دیں گے اور ٹرکوں کے مالکان دس ہزار روپے بچانے کےلئے ایک کروڑ روپے کا ٹرک نالائق ڈرائیور کے حوالے کر دیں گے! یہ کیا ہے؟ یہ اس قوم کی عادتیں ہیں جو 32 ارب ڈالر کے گوادر کاشغر روٹ کے گرد آباد ہو گی‘ جس نے 331 ارب روپے کے لاہور کراچی موٹر وے پر سفر کرنا ہے اور جو چند ماہ بعد میٹرو بسوں میں بیٹھے گی اور جس کےلئے اربوں ڈالر کے تھرکول اور ڈیمز کے منصوبے بن رہے ہیں‘ کیا یہ قوم ان منصوبوں کی حفاظت کر سکے گی؟ کیا یہ ان منصوبوں کی چوکیداری کر سکے گی؟ آپ کا جواب یقینا ناں ہو گا‘ پھر سوال پیدا ہوتا ہے قوم کو قوم بنانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے! یہ کام کون کرے گا؟ وزیراعظم صاحب آپ جہاں کھربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے بنا رہے ہیں آپ وہاں چند ارب روپے لگا کر ”ہیومن کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ بھی بنا دیں‘ یہ اتھارٹی قوم کو قوم بنانے کا کام سنبھالے‘ یہ قوم کی کردار سازی کرے ورنہ دوسری صورت میں ریاست ترقیاتی منصوبے بناتی رہے گی اور قوم ان منصوبوں کو پاکستان ریلوے اور واپڈا بناتی رہے گی اور یوں آخر میں ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے ہم چلے تھے‘ ہم دائروں سے باہر نہیں آ سکیں گے۔
ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی
13
مارچ 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں