آپ اگر پاکستان کے مستقبل کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو آپ صرف ایک بار ماضی کے ترکی کا مطالعہ کر لیجئے‘ آپ چند لمحوں میں کل کے پاکستان تک پہنچ جائیں گے۔
خلافت عثمانیہ نے ایک اتفاق سے جنم لیا‘1270ء میں ترکوں کا ایک قبیلہ شام جا رہا تھا‘ قبیلے کا سردار ارطغرل تھا‘ یہ لوگ انگورہ (انقرہ) کے قریب پہنچے تو شہر کے مضافات میں جنگ ہو رہی تھی‘ یہ لوگ جنگ دیکھنے لگے‘ ارطغرل خدا ترس سردار تھا‘ اس نے جنگ میں ایک فریق کو ہارتے دیکھا تو وہ ہارتے لشکر کی مدد کیلئے میدان میں کود گیا‘ ترک سپاہی مظلوم لشکر کیلئے غیبی امداد ثابت ہوئے اور چند گھنٹوں میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا‘ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے‘ ارطغرل کو جنگ کے بعد معلوم ہوا‘ اس نے تاتاریوں کے خلاف سلجوق بادشاہ سلطان علاؤ الدین کی مدد کی‘ سلطان علاؤ الدین احسان مند ہوا‘ اس نے دریائے سقاریہ کی بائیں جانب کا سارا علاقہ ارطغرل کو عنایت کر دیا‘ یہ علاقہ بعد ازاں صغوط کہلایا‘ ارطغرل پوری زندگی سلطان علاؤ الدین کا وفادار رہا‘ عثمان غازی ارطغرل کا بیٹا تھا‘ یہ 1288ء کو ارطغرل کے انتقال کے بعد صغوط کا حکمران بن گیا‘ یہ بھی والد کی طرح سلجوقوں کا وفادار رہا‘ سلطان علاؤ الدین 1300ء میں تاتاریوں کے ہاتھوں مارا گیا‘ سلجوق سلطنت ختم ہو گئی‘ عثمان غازی نے خومختاری کا اعلان کر دیا‘ 1326ء میں بورسا شہر فتح کیا‘ چنار کے درخت کے نیچے بیٹھا اور خلافت عثمانیہ کی بنیاد رکھ دی‘ یہ خلافت 1326ء سے 1922ء تک 596 سال قائم رہی‘ خلافت عثمانیہ نے 37 سلطان پیدا کئے‘ خلافت عثمانیہ تاریخ کی شاندار ترین خلافت تھی‘ اس خلافت نے جہاں اسلامی دنیا کو بہت کچھ دیا وہاں اس نے 596 سال کے اقتدار کے دوران مذہبی رہنماؤں کی ایک منفی کلاس بھی پیدا کر دی‘ یہ بے لچک اور شدت پسند مُلا تھے‘ یہ ترقی‘ تبدیلی اور سائنس کو گناہ سمجھتے تھے‘ یہ لوگ آہستہ آہستہ خلافت میں جڑیں پکڑ گئے اور پھر ایک ایسا وقت آیا جب پوری سلطنت ان علماء کرام کے رحم و کرم پر چلی گئی‘ یہ لوگ کیوں پیدا ہوئے؟ اس کی واحد وجہ ترک سلطانوں کی مذہب پسندی تھی‘ ترک سلطان اسلام کی محبت سے سرشار تھے‘ آپ ان کی اسلام سے محبت کے تین واقعات ملاحظہ کیجئے‘ خلافت عثمانیہ 1326ء کو قائم ہوئی‘ سلطان سلیم اول نے 1516ء کو شام فتح کیا‘ شریف مکہ دمشق آیا اور سلطان کو خانہ کعبہ کی کنجیاں پیش کر دیں‘ جمعہ کا دن تھا‘ دمشق کی مسجد امیہ کے منبر سے سلطان سلیم کیلئے ’’صاحب الحرمین شریفین‘‘ کا خطاب نشر ہوا‘ سلطان تڑپ کر اٹھا اور کہا ’’ میں کون ہوتا ہوں حرمین کا صاحب کہلانے والا‘ میں خادم ہوں‘ مجھے خادم کہا جائے‘‘ امام نے فقرہ درست کیا اور سلطان سلیم کو ’’خادم الحرمین شریفین‘‘ کا خطاب دے دیا‘ یہ خطاب آج تک دنیا میں رائج ہے‘ دوسرا واقعہ بھی سلطان سلیم ہی سے متعلق تھا‘ سلطان نے 1517ء میں مصر فتح کیا‘ عباسی بادشاہ سلیم عباسی استنبول آیا اور سلطان سلیم کو نبی اکرمؐ کی تلوار مبارک پیش کر دی‘ ترک سلطنت کو قائم ہوئے 191 سال گزر چکے تھے لیکن ترک سلطان غازی کہلاتے تھے‘ ترکوں نے نبی اکرمؐ کی تلوار ملنے کے بعد خود کو سلطان اور خلیفہ کہلانا شروع کر دیا‘ تیسرا واقعہ‘ سلطان سلیمان عالی شان ترکوں کا سب سے بڑا سلطان تھا‘ یہ سلطان روزانہ اپنے ہاتھ سے قرآن مجید تحریر کیا کرتا تھا‘ سلطان سلیمان نے زندگی میں آٹھ قرآن مجید تحریر کئے‘ یہ نسخے آج بھی سلطان کے مقبرے سلیمانیہ میں موجود ہیں‘ سلطان سلیمان نے کعبہ کی از سر نو تعمیر بھی کرائی اور امام ابوحنیفہ اور مولانا روم کا مزار بھی بنوایا‘ ترکوں کی اسلام سے اس محبت کا مذہبی طبقوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا‘ یہ مضبوط ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ خلیفہ سے زیادہ تگڑے ہو گئے‘ یہ لوگ کس قدر مضبوط تھے؟ آپ ملاحظہ کیجئے‘ دنیا میں 1377ء میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا‘ سلطان مراد سوم نے 1587ء میں ترکی میں پہلا چھاپہ خانہ لگایا‘ شیخ الاسلام نے پرنٹنگ پریس کے خلاف فتویٰ دے دیا‘ بادشاہ نے منت سماجت کی تو شیخ الاسلام نے چھاپہ خانہ میں صرف یہودی اور عیسائی لٹریچر چھاپنے کی اجازت دی‘ شیخ الاسلام کا کہنا تھا’’ یہ شیطانی مشین ہے‘ ہم اس مشین پر قرآن مجید اور احادیث چھاپنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘‘ یہ فتویٰ 1727ء تک 140 سال قائم دائم رہا‘ 1727ء میں سلطان احمد سوم کے دور میں محمد سعید نام کے ایک دانشور نے ترکش پرنٹنگ پریس سے ’’اصول الحکم فی نظام الامم‘‘ کے عنوان سے عربی کی ایک کتاب شائع کرا دی‘ یہ ’’توہین‘‘ علماء کرام کیلئے ناقابل برداشت تھی‘ کفر کے فتوے جاری ہوئے‘ ملک بھر میں ہنگامہ ہوا‘ سلطان احمد سوم کو برطرف کر دیا گیا‘ وزیراعظم محمد ابراہیم اور نیول چیف مصطفیٰ پاشا کو ہلاک کر دیا گیا اور کتاب شائع کرے والا محمد سعید اور اس کا والد محمد فیض جلیبی قبرص بھاگنے پر مجبور ہوگیا۔ سلطان سلیم سوم 28 واں سلطان تھا‘ سلطان سلیم فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی غلطی کر بیٹھا‘ پرانی فوج نے علماء کرام کے ساتھ اتحاد بنا یا اور سلطان سلیم سوم کو قتل کر دیا‘ سلطان محمود دوم ترکی کا 30 واں سلطان تھا‘ سلطان نے ترکی میں جدید طب اور سرجری کی بنیاد رکھ دی اور مقامی سرجنوں کی تربیت کیلئے یورپ سے سرجن اور ڈاکٹر منگوالئے‘ علماء کرام اس توہین پر بپھر گئے اور سرجری کو غیر اسلامی قرار دے دیا‘ چیچک کی ویکسین ایجاد ہوئی‘ سلطان نے بچوں کو چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے لگانا شروع کر دیئے تو علماء نے اس ٹیکے کو کافرانہ عمل اور قدرت کے معاملات میں رکاوٹ قرار دے دیا‘ سلطان محمود دوم نے ملک میں سٹیم انجن سے چلنے والی کشتیاں اور پتلون اور کوٹ متعارف کرائے‘ دارالتراجم اور ملک کے پہلے اخبار تقویم وقائع کی بنیاد رکھی‘ اس کے خلاف بھی پورے ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے‘ سلطان عبدالحمید نے ملک میں سیکولر عدالتیں‘ مدارس کی جگہ سکول‘ استنبول یونیورسٹی اور غیر مسلموں کو برابری کے حقوق دینا شروع کئے تو وہ بھی مذہبی طبقے کے ہاتھوں یرغمال بن گئے‘ 1860ء سے 1870ء میں جب انگریزہندوستان کو تاج برطانیہ کا باقاعدہ حصہ بنا رہے تھے‘ ترک علماء کرام عین اس وقت لغت سے حریت‘ وطن‘ آئین اور جمہوریت جیسے الفاظ نکلوانے کیلئے سلطان پر دباؤ ڈال رہے تھے اور سلطان نے یہ الفاظ لغت سے خارج بھی کر ائے‘ دنیا میں جنگ اول شروع ہوئی تو ترکی میں حالات یہ تھے‘ سلطان نااہل تھے‘ بیورو کریسی کرپٹ تھی‘ معاشرہ بے حس تھا اور علماء کرام نفاق کا شکار تھے‘ یورپ ترک سلطنت کو آپس میں تقسیم کر رہا تھا جبکہ مولوی حضرات ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں مصروف تھے‘ مسجدوں کے اندر لڑائی ہوتی تھی اور ایک مکتبہ فکر کے طالب علم دوسرے مکتبہ فکر کے طالب علم سے ہاتھ تک نہیں ملاتے تھے اور ایک مکتبہ فکر کے لوگ دوسرے مکتبہ فکر کے اشاعت گھر سے شائع ہونے والا قرآن مجید تک نہیں خریدتے تھے۔
یہ سلسلہ چل رہا تھا‘ اس سلسلے کے دوران اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کا ظہور ہوا‘ مصطفیٰ کمال پاشا یونان کے علاقے سیلونیکا میں پیدا ہوئے‘ یہ مدرسے کے طالب علم رہے تھے‘ یہ فوج میں بھی رہے‘ بیوروکریسی کو بھی قریب سے دیکھا اور یہ آخر میں سلطان کے محل اور شبینہ سرگرمیوں سے بھی آگاہ ہو گئے ‘کمال اتاترک کے پاس اس وقت دو آپشن تھے‘ یہ سسٹم کو جوں کا توں چلنے دیتے‘ ترک خلافت ختم ہو جاتی‘ یورپ ترکی کو آپس میں تقسیم کر لیتا‘ علماء کرام اسلامی ملکوں میں نقل مکانی کر جاتے اور بیورو کریٹس اپنا مال و متاع لے کر یورپ کے مختلف شہروں کی طرف نکل جاتے یا پھراتاترک ترکی کو بچالیتے‘ کمال اتاترک جانتے تھے‘ ہم نے اگر ترکی کو بچانا ہے تو پھر ہمیں خلافت‘ مذہب اور سسٹم تینوں کی قربانی دینا ہو گی‘ وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے یورپ کی معاشرتی اپروچ اور ترقی کا وژن درست ہے اور ہم نے اگر پرسکون معاشرہ بنانا ہے تو پھر ہمیں ملک میں یورپ جیسی اصلاحات کرنا ہوں گی‘ ہمیں معاشرے کو کھولنا ہو گا‘ ملک میں تعلیم‘ سائنس‘ صنعت اور انصاف کا جدید ترین نظام نافذ کرنا ہو گا‘ اتاترک آگے بڑھے‘ فوج کو منظم کیا‘ قوم کو یورپی طالع آزماؤں کے خلاف کھڑا کر دیا اور یورپی حملہ آور پسپا ہوگئے‘ ترکی بچ بھی گیا اور آزاد بھی ہو گیا‘ اتاترک نے 23 اپریل 1920ء کو نئے ترکی کی بنیاد رکھی‘ خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا‘ سیکولر جمہوری ترکی بنایا‘ ترک آئین سے مذہب کی شق خارج کی‘ ترکی زبان کا رسم الخط عربی سے انگریزی کیا ‘ ترکی کو قومی زبان بنا یا‘ عورتوں کا پردہ ختم کر دیا‘ مدارس بند کر دیئے‘ مذہبی تعلیم پر پابندی لگا دی‘ اسلامی لباس کو غیر قانونی قرار دے دیا‘ ہجری کیلنڈر ختم کیا ‘ عیسوی تقویم شروع کرا ئی‘ ملک کی تمام مساجد حکومتی کنٹرول میں لے لیں‘ مذہبی کتب کی اشاعت بند کرا دی اور علماء کرام کے خطبوں اور فتوؤں پر پابندی لگا دی اور یوں وہ ترکی جو ہزار سال سے اسلام کا دارالحکومت چلا آ رہا تھا اسے سیکولر بنا دیا گیا‘ اتاترک کا خیال تھا ترکی کے لوگ مذہبی ہیں‘ یہ میری اصلاحات آسانی سے قبول نہیں کریں گے لیکن یہ خدشہ غلط ثابت ہوا‘ عوام نااہل حکمرانوں‘ کرپٹ بیورو کریسی اور متشدد علماء کرام سے اس قدر تنگ تھے کہ انہوں نے نہ صرف اتاترک کی اصلاحات کو خوش آمدید کہا بلکہ سکھ کا سانس بھی لیا‘ ترکی میں فوج 2005ء تک بااختیار رہی‘ مذہب ریاست کے کنٹرول میں رہا‘ کنٹرول کے ان 85 برسوں نے ترکی کو اسلامی دنیا کا لیڈر بنا دیا‘ ترکی اگر یورپی یونین میں شامل ہو گیا تو یہ اس فہرست کا واحد اسلامی ملک ہو گا‘ یہ کیا ہے؟ یہ سب اتاترک کے بے لچک فیصلوں کا کمال ہے۔
آپ ترکی کے اس ماضی اور پاکستان کے موجودہ حالات کو میز پر رکھئے اور اس کے بعد اپنے آپ سے پوچھئے‘ ہم نے اللہ کے نام پر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں لاشوں کی گنتی بند نہ کی‘ ہمارے حکمران اگر عوامی نمائندے نہ بنے اور ملک میں اگر ریاستی کرپشن اسی طرح جاری رہی تو ہمارے ملک میں ایسا وقت نہیں آ جائے گا جب ملک میں مذہب پر پابندی لگ جائے گی ‘ سیاست جرم بن جائے گی اور حکمران جلاوطن کر دیئے جائیں گے‘ آپ موجودہ حالات کو دیکھئے اور پھر سوچئے کیا ہمارا ملک بھی کسی اتاترک کا انتظار نہیں کر رہا۔