یہ بہادری نہیں ‘ نااہلی اور بے حسی ہے

19  فروری‬‮  2015

ہم دعویٰ کرتے ہیں ہم بہادر قوم ہیں‘ ہم 60 ہزار لوگوں کی قربانی کے باوجود پیروں پر کھڑے ہیں‘ ہماری سماجی زندگی میں کوئی رخنا نہیں پڑا‘ ہمارے ملک میں روز بم دھماکے ہوتے ہیں‘ ہمارے گرد روزانہ لاشیں ہوتی ہیں لیکن ہمارے ریستوران آبادرہتے ہیں‘ ہمارے پارکس میں چہل پہل ہوتی ہے اور ہمارے شاپنگ سنٹر‘ ہمارے مینا بازار اور ہمارے دفتر بھی کھلے رہتے ہیں‘ ہم اس قدر بہادر قوم ہیں کہ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز خودکش حملے کی بریکنگ نیوز دیتے ہیں‘ یہ ہمیں ایمبولینسز‘ فائر بریگیڈز اور پولیس وینز کے سائرن سناتے ہیں اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد یہ ہمیں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی نئی فلموں کے ٹریلر‘ رنگ گورا کرنے والی کریموں اور نئے موبائل فونوں کے اشتہارات دکھا رہے ہوتے ہیں اور ہم عوام بھی ایک گھنٹے بعدخودکش حملے میں مرنے والوں کو بھول چکے ہوتے ہیں‘ ہم اپنے اس رویئے کو بہادری کہتے ہیں اور اپنی اس بہادری کے ساٹھ ہزار نمونے دکھا کر دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں آپ ہمیں دنیا کی بہادر ترین قوم کا خطاب دیں‘ دنیا ہمارے اس رویئے پر چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتی ہے اور چپ چاپ ہمارے قریب سے گزر جاتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا کی نظر میں یہ بہادری نہیں‘ یہ نااہلی اور بے حسی ہے‘ ہمیں بہرحال یہ ماننا پڑے گا ہم نے 35 برسوں میں عالمی سطح پر خود کو بے حس‘ نااہل اور لالچی ثابت کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا‘ آپ افغان وار سے دہشت گردی کی موجودہ جنگ تک پوری تایخ کا تنقیدی جائزہ لے لیجئے‘آپ تاریخ کے ہر موڑ پر خود کو لالچی پائیں گے‘ مثلاً کیا ہم نے مونگ پھلی کے چند دانوں کیلئے خود کو افغان وار کے دوزخ میں نہیں جھونکا؟ مثلاًکیا ہم نے امریکا کو خوش کرنے کیلئے افغانستان میں طالبان حکومت کی پشت پناہی نہیں کی‘ مثلاً کیا ہم دنیا میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک نہیں تھے اور کیا پھر ہم طالبان حکومت سے ٹکرانے والا پہلا ملک نہیں بنے؟ مثلاً کیا ہم ڈالروں کیلئے دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائین سٹیٹ نہیں بنے؟ مثلاً کیا ہم نے امریکا کو متاثر کرنے کیلئے لال مسجد پر فوج کشی کر کے تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد نہیں رکھی‘ یہ سب کیا تھا‘ کیا یہ چند ارب ڈالروں کا لالچ نہیں تھا جس نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا؟ آج ہماری حالت یہ ہے‘ ہمارے وزیراعظم یا صدر کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو یہ وہاں امداد کی جھولی پھیلا دیتے ہیں اور دنیا کا کوئی حکمران جب ہمارے ملک میں آ تا ہے تو ہم اس کے سامنے ’’وار اینڈ ٹیرر‘‘ آئی ڈی پیز اور سیلاب زدگان کا کشکول رکھ دیتے ہیں اور وہ ہمارے کشکول میں زکوٰۃ کے چند سکے ڈال دیتا ہے‘ہمیں ماننا ہو گا ہم اپنی 35 برس کی اس پالیسی کے صدقے دنیا میں لالچی اور بھکاری سٹیبلش ہو چکے ہیں۔
ہم اب قومی بے حسی کی طرف آتے ہیں‘ ہم حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر بے حس ہیں‘ حکومت کو دیکھئے‘ یہ 21 ویں ترمیم‘ ایپکس کمیٹیوں اور سپیشل فورس کے انڈوں سے بچے نکلنے کا انتظار کر رہی ہے‘ ہمارے حکمران شہداء کے گھروں تک جانا پسند نہیں کرتے‘ شکار پور میں 30 جنوری کو جمعہ کی نماز کے دوران 70 لوگ شہید ہوئے اورپشاور میں 13 فروری کو 22 لوگ شہید ہو گئے لیکن میاں نواز شریف ‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کسی نے وہاں جانا اور تعزیت کرنا گوارہ نہ کیا‘ لاہور میں 17فروری کو پولیس لائین کے سامنے خود کش حملہ ہوا لیکن وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اسلام آباد میں ترک وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کر رہے تھے‘ ترک وزیراعظم کی مہمان نوازی اپنی جگہ لیکن سوگ بھی تو ضروری تھا‘وہ کون منائے گا؟ وزیراعظم کم از کم اپنی پریس کانفرنس ہی میں لاہور کے شہداء کا ذکر کر دیتے‘ یہ آدھ گھنٹے کیلئے لاہور چلے جاتے یا پھر وزیراعلیٰ اپنی اگلی میٹنگ پولیس لائین میں رکھ لیتے تو کیا فرق پڑ جاتا؟ حکومت کو کیا نقصان ہوتا؟ اور ہمارے وزیر داخلہ کہاں ہیں؟ یہ امریکا میں پاکستانیوں کی بہادری کے قصے سنا رہے ہیں اور ہماری کابینہ نے کیا کیا؟ یہ بھی آج تک دہشت گردی کے خلاف باہر نہیں نکلی‘ یہ لوگ ’’ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے‘ ہم دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دیئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘ جیسے کھوکھلے اور ٹھنڈے لفظوں کو اپنی پرفارمنس سمجھ رہے ہیں‘ وزیراعظم صاحب ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس کو قوم سے خطاب میں تبدیل کرتے ہیں اور گھسے پٹے فقرے بول کر گھر چلے جاتے ہیں‘ یہ ہے ہماری دہشت گردی کے خلاف حکومتی پالیسی۔ آپ عوام کی بے حسی بھی ملاحظہ کیجئے‘ یہ لاش اٹھاتے ہیں‘ دفن کرتے ہیں اور امدادی چیک کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں‘ ہم دہشت گردی کے عذاب سے باہر نہیں آ رہے‘ کوئی انہیں بتائے بے حس قومیں عذابوں سے باہر نہیں آیا کرتیں۔ آپ اب نااہلی بھی ملاحظہ کیجئے‘ ہم پانچ برس سے حالت جنگ میں ہیں‘ ملک میں پہلا بم دھماکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا‘ ملک میں پہلا خود کش حملہ 19 نومبر 1995ء کو مصری سفارتخانے کے سامنے ہوااور ہم دس سال سے جنگ کے خطرناک فیز میں بھی ہیں‘ ہم نے ان دس برسوں میں جی ایچ کیو‘مہران ائیر بیس‘ کامرہ ائیر بیس‘سانحہ ایبٹ آباد‘ مناواں پولیس اکیڈمی اورمیریٹ ہوٹل اسلام آباد کے حملے بھی بھگتے اور اپنی مساجد‘ سکول‘ امام بارگاہوں اور مذہبی اجتماعات کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتے دیکھا‘ ہم نے ان دس برسوں میں 60 ہزار لاشیں اٹھائیں مگر حکومت آج تک عوام کو دہشت گردی سے بچانے کیلئے کوئی ضابطہ نہیں بنا سکی‘ ہم آج تک عوام کو یہ نہیں بتا سکے ہم غیر معمولی حالات کا شکار ہیں اور عوام جب تک ریاست کا ساتھ نہیں دیں گے ہم اس وقت تک یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے‘ ہم نے آج تک مساجد‘ امام بار گاہوں‘ سکولوں‘ شاپنگ سنٹروں‘ بازاروں اور سرکاری عمارتوں کی حفاظت کیلئے کوئی ضابطہ نہیں بنایا‘ ہم کم از کم عمارتوں کے داخلے اور خروج کے راستے ہی الگ کر دیتے‘ ہم شہروں میں داخلے کے پوائنٹ ہی طے کر دیتے اور ہم ان پوائنٹس پر کیمرے ہی لگا دیتے‘ ہم تاجر برادری اور عام شہریوں سے درخواست کردیتے یہ لوگ مل کر دس دس‘ بیس بیس کیمرے لگا دیتے اور ہم ایک سنٹرل آفس بناتے اور ان تمام کیمروں کی فیڈ اس آفس میں لے لیتے تو شہروں کی نگرانی کا مسئلہ حل ہو جاتا! ہم رضا کاروں کی محلہ کمیٹیاں ہی بنالیتے‘ یہ کمیٹیاں اپنے اپنے علاقوں پر نظر بھی رکھتیں اور محلے کو سیکورٹی بھی فراہم کرتیں‘ ہم مخیر حضرات کی مدد سے مساجد اور امام بارگاہوں کے گیٹ ہی تبدیل کرا دیتے اور ہم سٹوڈنٹس کی سپیشل فورس بنا کر پورے ملک کو محفوظ بنا لیتے لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہے‘ہم آسمان سے فرشتوں کے اترنے کا انتظار کرتے رہے‘ کیا یہ نااہلی نہیں؟ اگر ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ حکومت کو چھوڑ دیجئے‘ آپ اس عوام کی نااہلی بھی ملاحظہ کیجئے‘ جو اس ملک میں روز جنازے اٹھاتے ہیں‘ عوام 60 ہزار لاشیں اٹھا چکے ہیں لیکن انہوں نے آج تک قبرستان آباد کرنے کے سواکچھ نہیں کیا؟ کیا ہم عوام یہ نہیں جانتے ہمارے ملک میں دس سال سے بازار‘ سرکاری عمارتیں‘ سکول‘ امام بارگاہ‘ مذہبی اجتماعات‘ ہسپتال اور مساجد دہشت گردوں کی ٹارگٹ ہیں؟ اگرہم جانتے ہیں تو پھر ہم نے ان کی حفاظت کیلئے کیا کیا؟ کیا ہم لوگ حالات معمول پر آنے تک شاپنگ بند نہیں کر سکتے اوراگر شاپنگ ضروری ہو تو پھر ہم پورا خاندان ساتھ لے جانے کی بجائے ایک آدھ شخص کو بازار نہیں بھجوا سکتے؟ ہم نے اپنے بچوں کے سکولوں کی حفاظت کیلئے کیا کیا؟ کیا ہم نے سکول کی انتظامیہ سے ملاقات کی‘ کیا ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت سکول کا گیٹ اور دیواریں بلند کرائیں‘کیا ہم نے سکول میں داخلے اور خروج کے راستے تبدیل کرائے‘کیا ہم نے بچوں کو یہ ٹریننگ دی سکول پر حملہ ہو جائے توآپ نے کہاں چھپنا ہے‘ آپ نے کس سائیڈ سے باہر نکلنا ہے؟ کیا ہم دس دس والدین روزانہ سکول کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتے؟ کیا ہم ایسا بندوبست نہیں کر سکتے‘ ہمارے بچے اکٹھے سکول پہنچنے کی بجائے آدھ‘ آدھ گھنٹے کی تاخیر سے آئیں تا کہ گیٹ پر رش نہ ہو‘کیا ہم ہنگامی حالات میں ’’ ای کلاسز‘‘ شروع نہیں کر سکتے ‘ بچے گھروں میں رہیں اور استاد انٹرنیٹ اور کیمرے کے ذریعے بچوں کو تعلیم دے دیں‘ کیا ہم ہنگامی حالات کی وجہ سے گھروں اور دفاتر میں نماز ادا نہیں کر سکتے‘ کیا ہم عارضی طور پر مذہبی اجتماعات پر پابندی نہیں لگا سکتے؟ کیا ہم اپنے علماء کرام سے درخواست نہیں کر سکتے جناب آپ انسانی جانیں بچانے کیلئے اجتماعات پر پابندی لگا دیں‘کیا ہم مساجد کی حفاظت کا بندوبست نہیں کر سکتے‘کیا ہم عارضی طور پر مساجد اور امام بارگاہوں کی نچلی منازل خالی کر کے بالائی منزل پر جماعت کا اہتمام نہیں کر سکتے‘کیا ہم جماعت سے قبل مسجد کا گیٹ بند نہیں کرا سکتے‘کیا ہم دو جماعتوں کا اہتمام نہیں کر سکتے‘ ایک جماعت نماز پڑھے اور دوسری جماعت نمازیوں کی حفاظت کرے‘ یہ اہتمام اگر صحابہ کرامؓ کر سکتے تھے تو کیا ہم نہیں کر سکتے اور ہم کمزور عمارتوں اور چھوٹے گیٹس کی مساجد کی جماعتوں کو عارضی طور پر مضبوط اور بڑی مساجد میں شفٹ نہیں کر سکتے؟ ہم اپنی جانوں کی حفاظت خود کیوں نہیں کرتے؟ کیا ہم بھی اتنے ہی نااہل نہیں ہیں جنتی ہماری حکومت اور ہمارے ریاستی ادارے ہیں؟۔
ہم جب تک یہ نہیں مانیں گے‘ یہ60 ہزار لاشیں ہماری بہادری نہیں یہ ہماری بے حسی اور نااہلی ہیں‘ ہم اس وقت تک یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے‘ ہمیں ماننا ہو گا بے حسی اور نااہلی کے اس پرچم تلے ہم سب ایک ہیں‘ میاں نواز شریف اور ہم میں کوئی فرق نہیں اور دنیا میں نااہل‘ بے حس اور لالچی قوموں کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے‘ ہم میں سے چند مرتے ہیں اور باقی انہیں بھول جاتے ہیں اور بس۔



کالم



اللہ کے حوالے


سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…