اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ’’اگر کسی غیر اللہ کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں‘‘اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کی استعداد کار اور صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں ان کے حقوق کا تعین فرمایا۔ عورت کو اولاد پر مرد سے تین گنا زیادہ حق عطا فرمایا جبکہ مرد کو اس کا نگہبان بنا دیا اور اس پر عورت کو ہدایت فرمائی کہ
کیونکہ مردکو تمہارا نگہبان ، وسیلہ اور ولی مقرر کیا لہٰذا اس کی عزت و احترام تم پر واجب ہے جبکہ نافرمانی پر سزا اور عمل پر جزا رکھ دی ۔ اسی حکم پر جزا اور سزا کی ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب کراچی کے ایک قبرستان میں ایک خاتون کی میت تدفین کیلئے لائی گئی اور قبر نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کے ایک مؤقر قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے ایک گورکن جومبارک علی شاہ عرف مولا مددقبرستان میںگزشتہ 25 سال سے بطور گورکن فرائض سر انجام دے رہا ہے نے بتایاکہ اسے ایک مرتبہ ایک عورت کی قبر تیار کرنے کو کہا گیا۔ اس وقت اس کے دادا بھی زندہ تھے۔ وہ اپنے دادا کے ساتھ مل کر صبح سے ہی قبر کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ ظہر کے بعد میت کو تدفین کیلئے قبرستان لایا جانا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر قبر تیار نہیں ہورہی تھی ، جیسے ہی کام ختم ہونے لگتا، زمین سکڑ جاتی۔ قبر کو کئی بار چوڑا کیا گیا، لیکن بار بار زمین تنگ ہوجاتی تھی، اسی اثناءمیں جنازہ بھی آگیا، جب ان لوگوں کو صورتحال بتائی تو پتہ چلا کہ مرنے والی عورت شوہر کی نافرمان اور اس سے سخت بدکلامی کیاکرتی تھی،
اس کا شوہر بہت دین دار اور اپنی والدہ کا فرمانبردار تھا اور یہ بات بیوی کو سخت ناگوار گزرتی تھی۔ جس پر وہ عموماََ اس سے جھگڑا کرتی اور سمجھانے پر بھی باز نہ آتی تھی۔رپورٹ کے مطابق گورکن نے بتایاکہ میت کا آخری دیدار کرنے والے اس کے خاندان کے افراد نے مرنے والی عورت کے چہرے پر اذیت کے اثرات بھی دیکھے۔ گورکن بتاتا ہے کہ شام تک قبر تیار کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن ہر بار زمین تنگ پڑجاتی۔ یہ دیکھ کر جنازے میں شامل لوگ استغفارکا ورد کرتے رہے۔
کسی کے مشورے پر ایک روحانی عامل کو بلایا گیا تو انہوں نے کہا کہ شوہر اپنی بیوی کی میت کے سرہانے کھڑے ہوکر اسے صدق دل سے معاف کرے، شوہر نے ایسا ہی کیا۔ اسکے بعد قبر باآسانی تیار ہوگئی۔ گورکن کا کہنا تھا کہ عورت کے ورثا اس واقعے سے اس قدر شرمندہ تھے کہ انہوں نے قبر پر نام کا کتبہ بھی کبھی نہیں لگوایااور نہ اس کے لواحقین سے کبھی کوئی قبر پہ فاتحہ خوانی کیلئے آیابس کبھی کبھار اس کا شوہر آکر قبر پر فاتحہ خوانی کرجاتا ہے۔