بدھ‬‮ ، 20 اگست‬‮ 2025 

’’بخاری شریف‘‘

datetime 29  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نوعمری میں ہی اپنے علم کی وجہ سے مشہور ہو چکے تھے۔ایک دفعہ کچھ محدثین نے ان کا امتحان لینے کا ارادہ کیا. چنانچہ ان محدثیں نے دس دس احادیث اس طرح یاد کیں کہ ہر حدیث کی سند اور متن کو کسی دوسری حدیث کے متن کے ساتھ خلط ملط کر دیا. سند ایک کی متن، دوسری کا، اسی طرح ایک ٹکڑا ایک حدیث کا اور دوسرا دوسری کا.

وہ تعداد میں دس تھے اور ہر ایک نے دس احادیث یاد کیں. جب وہ احادیث کو اپنے منصوبے کے تحت یاد کر چکے تو وہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس پہنچے، ان میں سے ایک نے تحریر پڑھی تو آپ نے فرمایا:’’لا ادری (میں نہیں جانتا).‘‘وہاں موجود لوگ یہ سن کر حیران رہ گئے. وہ محدث باری باری ان کے سامنے احادیث پڑھنے لگے۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ان کی ہر حدیث کے جواب میں ایک ہی جواب دیتے کہ میں نہیں جانتا.امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ گو اس وقت نو عمر تھے، لیکن قوت حافظہ اور علم حدیث کی دھاک لوگوں پر بیٹھ چکی تھی. یہی وجہ تھی کہ وہاں بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے. ادھر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ہر حدیث کے جواب میں لاادری یعنی میں نہیں جانتا، کہہ رہے تھے. وہ حیران و پریشان تھے. ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ محدثین کو کوئی جواب کیوں نہیں دے رہے۔جب وہ دس محدث اپنی سو احادیث پڑھ چکے تو امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ گویا ہوئے۔’’سنئے! اب آپ کی احادیث میں پڑھتا ہوں.‘‘امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کی سنائی گئی سو کی سو احادیث صحیح سند اور متن کے ساتھ سنا دیں۔ یہ سب دیکھ اور سن کر ان محدثین سمیت وہاں موجود سب حیران رہ گئے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ کے حافظہ اور علم حدیث پر آپ کے عبور کا یہ صرف ایک واقعہ ہے۔

امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حدیث اس کتاب میں اس وقت تک داخل نہیں کی جب تک غسل کر کے دو رکعت نماز ادا نہ کر لی ہو۔ بیت اللہ شریف میں اسے میں نے تالیف کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لئے استخارہ کیا۔ مجھے جب ہر طرح اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا، تب میں نے اس کے اندارج کے لئے قلم اٹھایا۔ اس کو میں نے اپنی نجات کے لئے جحت بنایا ہے۔

اور چھ لاکھ حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا ہے۔احادیث کی وجہ سے آپ نے ہمیشہ اپنے کردار کے بے داغ ہونے اور لوگوں کی باتوں اور بغض کیخلاف بھی عظیم جدوجہد کی علامہ عجلونی نے آپ کی ثقاہت کے بارے میں یہ عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ دریا کا سفر کر رہے تھے اور آپ کے پاس ایک ہزار اشرفیاں تھیں۔

ایک رفیق سفر نے عقیدت مندانہ راہ و رسم بڑھا کر اپنا اعتماد قائم کر لیا۔ حضرت امام بخاری نے اپنی اشرفیوں کی اسے اطلاع دے دی۔ ایک روز آپ کا یہ رفیق سو کر اٹھا تو اس نے با آواز بلند رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ میری ایک ہزار اشرفیاں گم ہو گئی ہیں۔ چنانچہ تمام مسافروں کی تلاشی شروع ہوئی۔ حضرت امام نے یہ دیکھہ کر کہ اشرفیاں میرے پاس ہیں اور وہ ایک ہزار ہیں۔

تلاشی میں ضرور مجھ پر چوری کا الزام لگایا جائے گا۔ اور یہی اس کا مقصد تھا۔ امام نے یہ دیکھ کر وہ تھیلی سمندر کے حوالہ کر دی۔ امام کی بھی تلاشی لی گئی۔ مگر وہ اشرفیاں ہاتھ نہ آئیں اور جہاز والوں نے خود اسی مکار رفیق کو ملامت کی۔ سفر ختم ہونے پر اس نے حضرت امام سے اشرفیوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کو سمندر میں ڈال دیا۔

وہ بولا کہ اتنی بڑی رقم کا نقصان آپ نے کیسے برداشت فرما لیا۔ آپ نے جواب دیا کہ جس دولت ثقاہت کو میں نے تمام عمر عزیز گنوا کر حاصل کیا ہے۔ اور میری ثقاہت جو تمام دنیا میں مشہور ہے کیا میں اس کو چوری کا اشتباہ اپنے اوپر لے کر ضائع کر دیتا۔ اور ان اشرفیوں کے عوض اپنی دیانت وامانت و ثقاہت کا سودا کر لیتا میرے لئے ہرگز یہ مناسب نہ تھا۔

امام بخاری فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حدیث اس کتاب میں اس وقت تک داخل نہیں کی جب تک غسل کر کے دو رکعت نماز ادا نہ کر لی ہو۔ بیت اللہ شریف میں اسے میں نے تالیف کیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر ہر حدیث کے لئے استخارہ کیا۔ مجھے جب ہر طرح اس حدیث کی صحت کا یقین ہوا، تب میں نے اس کے اندارج کے لئے قلم اٹھایا۔ اس کو میں نے اپنی نجات کے لئے جحت بنایا ہے۔

اور چھ لاکھ حدیثوں سے چھانٹ چھانٹ کر میں نے اسے جمع کیا ہے۔علامہ ابن عدی اپنے شیوخ کی ایک جماعت سے ناقل ہیں کہ امام بخاری الجامع الصحیح کے تمام تراجم ابواب کو حجرہ نبوی اور منبر کے درمیان بیٹھ کر اور ہر ترجمة الباب کو دو رکعت نماز پڑھ کر اور استخارہ کر کے کامل اطمینان قلب حاصل ہونے پر صاف کرتے۔ وراق نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ میں امام بخاری کے ساتھ تھا۔ م

یں نے آپ کو کتاب التفسیر لکھنے میں دیکھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھتے چقماق سے آگ روشن کرتے اور چراغ جلاتے اور حدیثون پر نشان دے کر سو رہتے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام صاحب سفر و حضر میں ہر جگہ تالیف کتاب میں مشغول رہا کرتے تھے اور جب بھی جہاں بھی کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یقین ہو جاتا اس پر نشان لگا دیتے اس طرح تین مرتبہ آپ نے اپنے ذخیرہ پر نظر فرمائی۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اور پھر سب کھڑے ہو گئے


خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…