جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

’’تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی‘‘

datetime 29  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی یہودیوں کیلئے روح زمین پر انتہائی مقدس ترین چیزیں ہیں۔ تابوت سکینہ دراصل ایک صندوق کا نام ہے جس میں جلیل القدر پیغمبروں کے تبرکات اور آسمانی اشیا رکھی گئی تھیں۔ تابو ت سکینہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچا۔ اس صندوق میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام تک کے تبرکات محفوظ تھے،

اسی تابوت سکینہ میں تورات کی وہ تختیاں بھی تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے سینا پہاڑ پر عطا کیں۔قصص الانبیا میں درج ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی حضرت طالوت علیہ السلام کو دی گئی ۔ حضرت دائود علیہ السلام نے حضرت طالوت کی صاحبزادی سے عقد کیا اور آپ ؑ کے دل میں ہی اللہ تعالیٰ نے تابوت سکینہ کی حفاظت کا خیال ڈالا۔ آپ تابوت سکینہ کی حفاظت کیلئے ایک عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھے مگر اپنی زندگی میں ایسا نہ کر سکے ۔ آپؑ کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا اور جنات کی مدد سے اس کی تعمیر شروع کی۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے آخری مراحل میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتا دیا تھا کہ آپؑ کی زندگی کا وقت پورا ہو چکا ہے، جلد آپ ؑ اس دار فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ آپؑ نے جنات کو حکم دیا کہ ان کیلئے شیشے کا ایک کمرہ تعمیر کریں ، کمرےکی تعمیر مکمل ہونے پر آپؑ اس میں چلے گئے اور اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے تاکہ موت واقع ہو جانے پر آپ ؑ کا جسم مبارک زمین پر نہ گرے اور جنات یہی سمجھتے رہیں کہ آپ ؑ زندہ ہیں اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر مکمل کریں۔ قرآن میں اس واقع کا ذکر موجود ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب ہیکل سلیمانی کی تعمیر جنات نے مکمل کر لی

تو اللہ کے حکم سے جس لاٹھی کے سہارے حضرت سلیمانؑ کھڑے تھے اسے دیمک نے کھا کر کھوکھلا کر دیا اور وہ آپؑ کا بوجھ نہ سہار سکی اور آپؑ جو موت واقع ہو جانے کے بعد اس کے سہارے کھڑے تھے گر گئے جس سے جنات اور دیگر مخلوقات کو آپؑ کی موت کا علم ہوا۔ہیکل سلیمانی کے اندر ایک اور کمرہ نما عمارت بھی تعمیر کی گئی تھی جسے ’’قدس ‘‘کا نام دیا گیا تھا

جہاں ایک پردہ کے پیچھے محراب تھی جس میں تابوت سکینہ کو رکھا گیا تھا۔ بنی اسرائیل کے مذہبی رہنمائوں میں یہ رواج تھا کہ وہ ہر سال ایک مقررہ تاریخ میں اپنی باری پر تنہا قدس میں پردے کے پیچھے اس محراب میں داخل ہو کر تابوت سکینہ اور اس میں موجود چیزوں کی صفائی کرتے تھے اور اس مقدس محراب میں عبادت اور دعائیں کرتے تھے۔ یہی وہ محراب ہے

جہاں حضرت زکریا علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صورت میں نیک فرزند کی بڑھاپے میں خوشخبری دی تھی۔بنی اسرائیل کے لئے یہ قبلہ کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ یہ مسلمانوں کا بھی قبلہ اول رہا ہے اور پھر مدینہ میں مسجد قبلہتین میں امامت کرواتے ہوئے حضور ﷺ پر بذریعہ وحی حکم نازل کیا گیا تھا کہ آپ ؐ اپنا رخ کعبہ شریف کی طرف کر لیں۔

تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ تابوت سکینہ ہیکل سلیمانی میں قدس کے اندراہل بابل کے حملے تک محفوظ رہابعض روایات میں ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔ اس واقعے کے بعد بنی اسرائیل نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ کچھ عرصہ بعد رومیوں نے حملہ کر کے ہیکل سلیمانی کوآگ لگا دی۔

حکومت کے دوران رومیوں نےاس جگہ ایک عبادت گاہ بنائی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جب یروشلم فتح ہوا تو آپ ؓ خود یہاں تشریف لائے ۔ آپ ؓ نےرومیوں کی تعمیر کردہ عبادت گاہ سے کچھ فاصلے پر دعا فرمائی، یہ ٹھیک وہی جگہ ہے جہاں مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔یہودی کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں قدس اور ہیکل سلیمانی تھے،

ہیکل سلیمانی کی ایک بار پھر تعمیر کیلئے ان کی کوششیں جاری ہیں اور مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی مذموم کوششیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔مقدس تبرکات کی تلاش کے نام پر مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے اور وہاں کئی سرنگیں بنا دی گئی ہیں ۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے دور میں جن پتھروں سے ہیکل سلیمانی تعمیر کی گئی تھی وہ اسی جگہ زمین میں دفن ہیں

اور انکی تلاش کے بعد دوبارہ سے ہیکل سلیمانی انہیں پتھروں سے تعمیر کی جائے گی۔ مسلمان کیلئے یہ جگہ اس لئے مقدس ہے کہ یہ ان کا قبلہ اول ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کا مقام بھی ہے جہاں حضور ﷺ نے معراج کے موقع پر آسمان پر جانے سے پہلے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا اور رسولوں کی امامت کروائی تھی ۔یہودی ہیکل کی ایک بچ جانے والی پس ماندہ دیوار میں

واقع دروازے کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ قیامت سے قبل ان کے آخری نبی اوربادشاہ کی واپسی کا راستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قیامت کے قریب دجال کا ظہور ہو گا اور تمام دنیا کے یہودی اس کی بادشاہت اور نبوت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے ۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…