ختم نبوت کی تحریک کے سلسلے میں حضرت قاضی احسان احمد صاحب شجاع آبادی گرفتار ہوئے۔ اور اتفاق سے انہیں اسی کوٹھری میں بند کیا گیا جس میں غازی علم الدین شہید رحمۃُ اللہ علیہ رہ چکے تھے۔ جیل کے وارڈن نے انہیں کوٹھری میں داخل کرتے ہوئے کہا۔ کہ
مولانا آپ بہت خوش قسمت ہیں۔مولانا احسان رحمۃاللہ علیہ نے حیران ہو کر جیل وارڈن کی طرف دیکھا اور پوچھا وہ کیسے؟اس نے جواب دیا یہ وہی بابرکت کوٹھری ہے جس میں علم الدین کو رکھا گیا تھا۔ ایک رات میں نے اچانک کوٹھری کو روشن ہوتے ہوئے دیکھا۔ کوٹھر یکدم نور کا ٹکڑا بن گئی ،میں سمجھا کہ شاید کوٹھری میں آگ لگ گئی ہے۔ دوڑ کر نزدیک آیا۔ کوٹھری میں تو نور ہی نور پہیلاہواتھا۔ اور اندر علم الدین مزے سے سو رہے تھے۔ میں ہکا بکا کھڑا رہا ۔ کافی دیر گزرنے پر کوٹھری سے روشنی ختم ہو گئی۔میں نے علم الدین کو جگایا اور ان کو بتایاکہ میں نے کوٹھری میں کیا دیکھا تھا۔ پھر میں نے ان سے بار بار پوچھا ۔ اس بارے میں آپ مجھے بتائیں ، آخر میری منت سماجت کرنے پر غازی علم الدین شہید رحمۃاللہ علیہ نے مجھے بتایا۔”خواب میں میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا۔ آپ ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) فرما رہے تھے کہ علم الدین ، ڈٹ جاؤ میں حوض کوثر پر تیرا انتظار کر رہا ہوں”کتنے خوش قسمت تھے غازی علم الدین شہید رحمۃاللہ علیہ سید عطااللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح فرمایا تھاکہ”علم الدین تو ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے”