اسلا م آباد (نیوز ڈیسک ) ایران کی چاہ بہار بندرگاہ، جو بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہے، ایک نئے بحران سے گزر رہی ہے کیونکہ امریکا نے ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرو لیفریشن ایکٹ (IFCA) کے تحت دی گئی رعایت 29 ستمبر سے ختم کر دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد بندرگاہ پر کام کرنے والے بھارتی آپریٹرز امریکی مالی پابندیوں اور ممکنہ قانونی کارروائی کے خطرے سے دوچار ہو گئے ہیں، جس کے باعث بھارت کے خطے میں طویل المدتی منصوبے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئے ہیں۔اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، 2018 میں بھارت کی سرکاری کمپنی “انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ” نے چاہ بہار کے شہید بہشتی ٹرمینل کا انتظام سنبھالا تھا۔
یہ منصوبہ پاکستان کو بائی پاس کرکے افغانستان اور وسطی ایشیا تک تجارتی راہداری فراہم کرنے کی بھارتی حکمتِ عملی کا اہم حصہ تھا۔ پچھلے چند برسوں میں اس بندرگاہ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا اور اب تک یہاں سے 80 لاکھ ٹن سے زائد سامان اور ہزاروں کنٹینرز کی ترسیل ہو چکی ہے۔ مزید یہ کہ بھارت نے 2026 تک بندرگاہ کی صلاحیت کو ایک لاکھ سے بڑھا کر پانچ لاکھ ٹی ای یو تک لے جانے اور اسے ایران کے ریلوے نظام سے منسلک کرنے کے منصوبے بھی بنائے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے حالیہ دنوں ایک بین الاقوامی مالیاتی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی، جو ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی مالی معاونت کرتا ہے، اور IFCA چھوٹ کی منسوخی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ واشنگٹن کی “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ان پابندیوں کا بنیادی ہدف ایران کی تیل کی برآمدات اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن ہے، جو فوجی سرگرمیوں اور علاقائی گروپوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔یہ صورتحال بھارت کے لیے ایک بڑا سفارتی چیلنج بن گئی ہے کیونکہ چاہ بہار میں اس کی 120 ملین ڈالر سے زائد سرمایہ کاری اور ترقیاتی قرضے اب داؤ پر لگ گئے ہیں۔