ریاض (نمائندہ خصوصی) سعودی حکام نے تصدیق کی ہے کہ صحافت سے وابستہ ایک شہری، ترکی الجاسر کو دہشت گردی اور ریاست سے غداری کے الزامات کے تحت سزائے موت دے دی گئی ہے۔
سعودی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق، 40 سالہ ترکی الجاسر کی سزائے موت پر عمل درآمد اس وقت کیا گیا جب سعودی عرب کی اعلیٰ عدالت نے ان کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزا کو برقرار رکھا۔
یاد رہے کہ ترکی الجاسر کو سنہ 2018 میں سکیورٹی اداروں نے ان کے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا۔ گرفتاری کے وقت ان کا موبائل فون اور کمپیوٹر بھی ضبط کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مقدمہ کب دائر کیا گیا اور اس کی سماعت کہاں ہوئی۔
ترکی الجاسر ماضی میں سنہ 2013 سے 2015 کے درمیان ایک ذاتی بلاگ کے ذریعے سرگرم رہے، جہاں وہ عرب دنیا میں عوامی تحریکوں، خواتین کے حقوق، اور کرپشن جیسے موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کرتے تھے۔ انہیں 2011 میں عرب اسپرنگ کے دوران اپنے تبصرے اور تحریروں کی وجہ سے خاصی شہرت ملی۔
بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں سزائے موت کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور سعودی عرب بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں یہ سزا تیزی سے نافذ کی جا رہی ہے۔