اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سائنس دانوں کی وہی ٹیم، جس نے کچھ عرصہ قبل مصر میں ایک ممکنہ ’’پوشیدہ زیرِ زمین شہر‘‘ کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف کیا تھا، اب ایک اور تہلکہ خیز دعویٰ سامنے لے آئی ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے جیزا کے عظیم اہرام کے نیچے ایک پیچیدہ ڈھانچے کی موجودگی کے شواہد حاصل کیے ہیں، جو سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ نیچے تک پھیلا ہوا ہو سکتا ہے۔اگر حال ہی میں دریافت کیے گئے ان ستونوں اور خانوں کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ قدیم مصری تاریخ کی تفہیم میں ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل رواں برس مارچ میں اطالوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم نے خفرع اہرام کے نیچے بھی ایک وسیع زیرِ زمین ڈھانچے کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا، تاہم اس دریافت پر بعض سینئر ماہرین نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے سائنسی بنیادوں سے محروم قرار دیا تھا۔اب اسی ٹیم نے مینکور اہرام کے نیچے بھی خفرع جیسے ستونوں کے موجود ہونے کے امکانات ظاہر کیے ہیں۔
مینکور وہ تیسرا اور سب سے چھوٹا اہرام ہے جو جیزا کے مقام پر واقع ہے۔اس تحقیق میں شامل اور یونیورسٹی آف اسٹرائتھ کلائیڈ (اسکاٹ لینڈ) سے تعلق رکھنے والے جیوفزیکل ریڈار ماہر فلیپو بیونڈی نے کہا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق 90 فیصد امکان ہے کہ مینکور اہرام کے نیچے بھی خفرع جیسے ہی زیرِ زمین ستون موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تازہ شواہد سے یہ نظریہ مزید تقویت پکڑ رہا ہے کہ جیزا کے تمام اہرام ایک دوسرے سے زیرِ زمین کسی پیچیدہ نیٹ ورک کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔
فلیپو بیونڈی کے مطابق یہ اہرام ممکنہ طور پر کسی بہت بڑے اور پوشیدہ انفراسٹرکچر کا صرف سطحی عکس ہیں، جب کہ اصل ڈھانچہ زمین کے نیچے موجود ہے جو ابھی پوری طرح سامنے نہیں آیا۔تحقیقاتی ٹیم کا مؤقف ہے کہ وہ سائنسی طریقوں، خاص طور پر جیوفزیکل سروے اور ریڈار ٹیکنالوجی کے استعمال سے نتائج تک پہنچے ہیں، اور آئندہ مہینوں میں مزید تحقیقات کے بعد یہ راز مزید واضح کیے جا سکیں گے۔