اسلام آباد (نیوز ڈیسک) – کینیڈا کو طویل عرصے سے غیر ملکی طلبہ، محنت کشوں اور سیاحوں کے لیے ایک پرکشش ملک سمجھا جاتا ہے، مگر حالیہ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ویزا مسترد ہونے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، کینیڈا کی حکومت نے اپنی امیگریشن پالیسی میں اہم تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں، جن کے باعث غیر ملکی شہریوں کے لیے ویزا حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے اور امیگرینٹس کی تعداد میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ویزا درخواستوں کی مستردی میں اضافہ
رفیوجیز اینڈ سٹیزن شپ کینیڈا (IRCC) کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، سال 2024 میں 2.36 ملین سے زائد عارضی ویزا درخواستیں رد کر دی گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، ویزا مسترد کیے جانے کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جو 2023 میں 35 فیصد تھی، مگر اب بڑھ کر 50 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ اس کے نتیجے میں وزیٹر ویزا، اسٹوڈنٹ ویزا اور ورک پرمٹ کے خواہش مند لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کی وجوہات
کینیڈا کی حکومت نے امیگریشن کنٹرول سخت کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے تاکہ 2026 تک ملک میں عارضی شہریوں کی تعداد کو 6.5 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد تک لایا جا سکے۔ حکام کے مطابق، بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل پر پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے یہ اقدامات ضروری سمجھے گئے ہیں۔
ویزا مسترد ہونے کی تفصیلات
وزیٹر ویزا: نئے ضوابط کے باعث، وزٹ ویزا کے لیے درخواست دینے والے افراد کو سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں 1.95 ملین درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ یہ مستردی کی شرح 54 فیصد بنتی ہے۔
اسٹوڈنٹ ویزا: غیر ملکی طلبہ کے لیے ویزا کے حصول کا عمل مزید پیچیدہ کر دیا گیا ہے، اور 52 فیصد درخواستیں رد کر دی گئی ہیں۔ اس میں اہلیت کے سخت معیارات، مالی استطاعت کی جانچ اور جعلی درخواست گزاروں کے خلاف کارروائی شامل ہے۔
ورک پرمٹ: کام کے لیے ویزا کی درخواستوں پر نسبتاً کم سختی کی گئی، مگر پھر بھی 22 فیصد درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اس کا مقصد لیبر مارکیٹ کی ضروریات اور امیگریشن کنٹرول کے درمیان توازن قائم رکھنا ہے۔
نئی پالیسی کے اثرات
کینیڈا کی امیگریشن پالیسی میں تبدیلیوں کے باعث نہ صرف غیر ملکی شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ ملک میں مختلف شعبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
حکومت کے مطابق، عارضی شہریوں کی تعداد کم ہونے سے ہاؤسنگ مارکیٹ میں دباؤ کم ہوگا اور صحت کے نظام پر بوجھ بھی کم پڑے گا۔ تاہم، ایسے کاروبار اور صنعتیں جو غیر ملکی افرادی قوت پر انحصار کرتی ہیں، انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
معاشی اثرات
کینیڈا ہر سال بین الاقوامی طلبہ سے تقریباً 22 ارب کینیڈین ڈالر کا معاشی فائدہ حاصل کرتا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت طلبہ کی تعداد میں کمی کے باعث ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، صحت، تعمیرات اور دیگر اہم شعبوں میں بھی لیبر کی کمی پیدا ہونے کا امکان ہے۔
مستقبل کی حکمت عملی