واشنگٹن (آن لائن ) دنیا بھر کے کروڑوں لوگ کورونا کے وبائی مرض سے نجات پانے کے لیے اس کی ویکسین کے منتظر ہیں۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ویکسین بنانے کے عمل پر کتنی تیز رفتاری سے کام کیوں نہ کیا جائے اس میں وقت لگ سکتا ہے اور اگر بہت خراب صورتحال پیدا ہوئی تو اس کی ویکسین دریافت نہیں بھی ہو سکتی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ہیلتھ ایمرجنسی کے ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا: ’اس وائرس کے ساتھ ہمیں رہنا پڑ سکتا ہے۔‘بہرحال اس وائرس کے ساتھ زندگی گزارنے کا امکان تباہ کن ہو سکتا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اب تک تقریبا 70 لاکھ افراد اس کی زد میں آ چکے ہیں اور انفیکشن سے چار لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کو رو نا وأئرس ویکسین کی تلاش برسوں یا عشروں تک جاری رہ سکتی ہے۔یہ کوششیں ضائع بھی ہو سکتی ہیں اور اچھے نتائج بھی آ سکتے ہیں جیسا کہ ایبولا کی صورت میں دیکھا گیا۔کورونا:جانوروں سے انسانوں میں منتقلی کی کڑیاں شاید کبھی نہ ملیں لیکن ہم یہاں ایسے مہلک وائرس کا ذکر کر رہے ہیں جن کی ویکسین ابھی تک تیار نہیں کی جا سکی ہے۔(ایویئن انفلوئنزا)نوے کی دہائی کے آخر سے لے کر اب تک دو قسم کے ایویئن انفلوئنزا سامنے آ چکے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے انفکشن سے ہلاک ہو چکے ہیں۔یہ وائرس پرندوں کے فضلے سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ ایچ فائیو این ون وائرس کا پہلی بار سنہ 1997 میں ہانگ کانگ میں پتا چلا تھا۔ اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر وہاں مرغیوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ ایویئن انفلوئنزا پرندوں کے فضلے سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔
اب تک یہ وائرس افریقہ، ایشیا اور یورپ کے پچاس سے زیادہ ممالک تک پہنچ چکا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے اموات کی شرح 60 فیصد ہے۔ مئی سنہ 2013 میں چین میں ایچ سیون این نائن وائرس کا پتا چلا تھا جہاں اس وائرس کے انفیکشن کے متفرق واقعات سامنے آئے تھے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق سنہ 2013 سے 2017 کے درمیان مجموعی طور پر 1565 انفیکشن کی اطلاعات ملیں جن میں سے 39 فیصد کی موت ہو گئی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسانوں سے انسانوں میں اس وائرس کا پھیلنا غیر معمولی ہے۔ ایک بار ثابت ہو جانے پر اسے روکنا آسان ہوتا ہے۔
(سارس)سارس کووی ایک قسم کا کورونا وائرس ہی ہے۔ اس کے بارے میں پہلی بار سنہ 2003 میں انکشاف ہوا تھا۔ اب تک کی دریافت کی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ چمگادڑوں سے انسان میں آیا ہے۔سنہ 2002 میں چین کے صوبہ گوانگجو میں اس انفیکشن کا پہلا کیس سامنے آیا تھا۔ یہ وائرس سانس لینے میں شدید دشواری کا باعث ہے۔ سنہ 2003 میں 26 ممالک میں 8000 سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے تھے۔ اب تک کی دریافت کی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ سارس چمگادڑوں سے انسان میں آیا ہے اس کے بعد سے اس سے انفیکشن کے کم ہی کیس سامنے آئے ہیں۔
ایویئن انفلوئنزا کے برعکس اس وائرس کا انفیکشن بنیادی طور پر انسانوں سے ہی انسانوں میں ہوتا ہے اور درحقیقت صحت کے مراکز میں ہی اس کی وجہ سے انفیکشن کے زیادہ واقعات رونما ہوتے ہیں کیونکہ اس کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ احتیاطی تدابیر نہیں کی گئی تھیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق جیسے ہی انفیکشن کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں ویسے ہی جولائی سنہ 2003 میں اس کا انفیکشن رک گیا۔اس وائرس کے 8400 سے زیادہ کیس سامنے آئے، جن میں 916 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اموات کی شرح 11 فیصد ہے۔
(مارس کووی) یہ بھی ایک قسم کا کورونا وائرس ہے۔ اس کا انکشاف پہلی بار سنہ 2012 میں ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے مارس نامی بیماری ہوتی ہے۔ اس بیماری میں اموات کی شرح زیادہ ہے۔ نومبر سنہ 2019 تک پوری دنیا میں 2494 افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے اور ان میں سے 858 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔مارس اور سارس دونوں معاملات میں صورتحال قابو میں آنے کے بعد ویکسین بنانے کی کوششیں ملتوی کر دی گئیں ۔
اس وائرس کے بارے میں پہلے سعودی عرب میں پتا چلا تھا لیکن اس کے بعد سے یہ وائرس 27 ممالک میں پایا گیا۔ ان میں مشرق وسطیٰ کے 12 ممالک شامل ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق مشرق وسطیٰ سے باہر کے ممالک، جہاں انفیکشن کے یہ واقعات پائے گئے ہیں وہ بھی دراصل اسی خطے سے آئے ہیں۔بنیادی طور پر یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ عربی اونٹ کو اس وائرس کا بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انسانوں سے انسانوں میں انفیکشن کا معاملہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ مارس اور سارس دونوں معاملات میں صورتحال قابو میں آنے کے بعد ویکسین بنانے کی کوششیں ملتوی کر دی گئیں۔