برلن(این این آئی)کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر جرمنی کی بڑی بڑی کمپنیوں نے پیداوار کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔ رواں برس یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت کے نمایاں طور پر سکڑ جانے کاخطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق جرمن حکومت کے ماہرین معاشیات کے ایک پینل نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد کی جانے والی پابندیاں مجموعی قومی پیداوار میں دو اعشاریہ آٹھ فیصد سے لے کر
پانچ اعشاریہ چار فیصد تک کمی کی وجہ بنیں گی۔حکومتی ماہرین اقتصادیات کے پینل ایس وی آر کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ جرمن معیشت کو کس قدر نقصان پہنچے گا۔ ماہرین کے مطابق اس بات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ حکومت کورونا وائرس کے بحران کے پیش نظر عائد کردہ پابندیاں کب تک برقرار رکھتی ہے اور معیشت کی بحالی کس تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔دنیا کے دیگر معاشی ماہرین کی طرح جرمن ماہرین نے بھی یورپ کی اس سب سے بڑی اور مضبوط معیشت میں بحالی کے حوالے سے مختلف منظرنامے پیش کیے ہیں۔ جرمنی کی معیشت انگریزی کے حرف ‘وی‘ یا پھر ‘یو‘ کی سی شکل میں بحال ہو سکتی ہے۔ ‘وی‘ کی صورت میں جس تیزی سے معیشت نیچے گر رہی ہے، اسی تیزی سے بحال بھی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ بحالی یو کی شکل اختیار کرتی ہے، تووہ سست رفتار ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق اگر گرمیوں میں صورت حال معمول پر آ گئی، تو بھی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی میں دو اعشاریہ آٹھ فیصد تک کی کمی پیدا ہو جائے گی جبکہ اسی صورت حال میں آئندہ برس بھی تین اعشاریہ سات فیصد کی کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔خوف و گھبراہٹ کے شکار صارفین کی وجہ سے سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں۔ جرمن شہریوں نے تیار شدہ کھانے اور ٹوئلٹ پیپرز بڑی تعداد میں خرید لیے ہیں۔ ٹافل نامی ایک امدادی تنظیم کے یوخن بروہل نے بتایا کہ اشیاء کی قلت کی وجہ سے
کھانے پینے کی عطیات بھی کم ہو گئے ہیں۔ ’ٹافل‘ پندرہ لاکھ شہریوں کو مالی اور اشیاء کی صورت میں امداد فراہم کرتی ہے۔دوسری جانب اگر کورونا وائرس کا بحران مزید شدت اختیار کر جاتا ہے، تو سن دو ہزار اکیس میں بھی جرمنی کی مجموعی قومی پیداوار میں تقریبا پانچ فیصد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔اس اقتصادی مشاورتی گروپ نے جرمن حکومت کی طرف سے
ایک اعشاریہ ایک ٹریلین یورو کیامدادی پیکج کی بھی تعریف کی ہے، جس کا مقصد کورونا وائرس کے بحران سے متاثرہ کمپنیوں، کاروباری اداروں اور ملازمین کی مدد کرنا ہے۔اس رپورٹ میں جرمنی کی ڈیجیٹلائزیشن پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق روزمرہ زندگی میں ڈیجیٹل طریقے سے معاملات نمٹانے کے حوالے سیجرمنی کئی دیگر ممالک کی نسبت ابھی بہت پیچھے ہے۔