کوالالمپور(این این آئی)ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل کے ساتھ مل کر تیار کردہ نام نہاد مشرق وسطی امن منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔بین الاقوامی پارلیمانی القدس پلیٹ فارم کی تیسری کانفرس ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں شروع ہو گئی ہے۔ پہلی دو ترکی میں ہونے والی ان کانفرسوں کے سلسلے میں امسال دنیا بھر سے
500 سیاستدان شرکت کر رہے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے والے ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اسرائیل کے ہمراہتیار کردہ نام نہاد مشرق وسطی امن منصوبہ خود مختار ریاستِ فلسطین کے قیام میں کسی قسم کی کوئی معاونت فراہم نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا تجویز کو ناقابلِ قبول اور غیر منصفانہ سمجھتا ہے۔ موجودہ حالات کو مزید بگاڑنے پر مبنی مذکورہ منصوبہ مقدس شہر القدس کو اسرائیل کو طلائی پلیٹ میں پیش کرنے کے مترادف ہے۔منصوبے کے خطے میں مزید کشیدگی اور جھڑپوں کا ماحول پیدا کرنے کا دفاع کرنے والے مہاتیر محمد نے مزید کہا تھا کہ یہ منصوبہ اربوں انسانوں کو اشتعال دلائے گا، اسے یکطرفہ طور پر وضع کیا گیا ہے اور دیگر فریق فلسطین کی رائے تک نہیں لی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کو غیر اہم بنانے کی اجازت نہ دینا اور اسے پس پردہ ڈالنے کی کوششوں کو ناکام بنانا عالمی برادری کا فریضہ ہے۔ ملائیشیا ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھے گا۔ملائیشین وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے حوالے سے عالمی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں اور ان پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا گیا ، عالمی رائے عامل کو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے مزید کوششیں صرف کرنی چاہییں۔ملائیشین وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق بیان میرے ضمیر کی آواز ہے، نہ ہی بیان سے پیچھے ہٹوں گا اور نہ واپس لوں گیا۔مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ضمیر کے مطابق بات کرتے ہیں، ہم نہ اپنا بیان بدلتے ہیں اور نہ ہی واپس لیتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی حمایت حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ صرف پاکستان اور بھارت ہی کو نہیں بلکہ امریکا سمیت تمام ممالک کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کرنا چاہیے، ورنہ اقوام متحدہ کا کیا فائدہ ہوگا۔ملائیشین وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے اب تک کسی اقدام کا اعلان نہیں کیا گیا، تجارت دوطرفہ ہوتی ہے، کوئی ایسا قدم اٹھانا غلط ہے جو تجارتی جنگ کی طرف لے جائے۔