ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

تبدیلی جلدی نہیں آتی، اس میں وقت لگے گا،شاید 2 سال یا۔۔۔!!! ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کی باتیں سب کی توجہ کامرکز بن گئیں

datetime 19  جنوری‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (اے پی پی)ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا کہ تبدیلی جلدی نہیں آتی، اس میں وقت لگے گا،شاید دو سال یا اس سے بھی زیادہ۔لیکن ہمیں یقین ہے تبدیلی ضرور آئیگی اور کئی پہلووں سے تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے۔2018ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ملائشین ہم منصب مہاتیر محمد کو اپنا رول ماڈل قرار دیا تھا۔

یہ اس لئے نہیں دونوں رہنمائوں کی علاقائی و بین الاقوامی معاملات کے بارے میں یکساں خیالات ہیں بلکہ بدعنوانی ہو،کمزور معیشت،کرنسی کی گرتی ہوئی قدر یا انتہائی غربت ہو،دونوں حکومتوں کو زیادہ تر چیلنجز ورثے میں ملے۔ چند روز قبل مہاتیر محمد نے ”پاکتن ہڑپن“کے عنوان سے بلاگ تحریر کیا۔جس میں انہوں نے ان حالات کی عکاسی کی ہے جب پاکتن ہڑپن کولیشن نے درپیش چیلنجوں کا سامنا کیا تھا اور حکومت تشکیل کی تھی۔ حیرت انگیز طور پر ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے کھینچے گئے ملکی معاشی ،گورننس اور سیکیورٹی کیساتھ ساتھ صنعتی تصویر اور وزیراعظم عمران خان کو ورثے میں ملی حکومت میں انتہائی مماثلت پائی جاتی ہے ۔اپنے ایک بلاگ میں انہوں نے لکھا کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت برسراقتدار آکر حکومت سنبھال لیتی ہے تو یہ ایک معجزہ ہی ہوگاکہ وہ راتوں رات اپنے تمام منصوبوں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنا دے۔انہوں نے اس دن کا تذکرہ کیا جب دوسر ے بڑے اتحاد پاکتن ہڑپن( بی این) نے حکومت قائم کی، اسے متعدد چینلجوں کا سامنا کرنا پڑا اور کیسے حکومت نے ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کےلئے اقدامات کئے۔ماضی کی بدعنوان حکومت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم کو لوٹا۔

اس کی دولت ضائع کی،اس کے انتظامی اداروں کو برباد اور قوانین کو پامال کیا ۔ حد سے زیادہ قرضے لئے ، ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا۔عوام کو کسی بھی کام کیلئے رشوت دینے پر مجبور کردیا اور بالعموم عوام کے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔انہوں نے لکھا کہ ہر حکومت کو ہر وقت ہر کسی کی منظوری نہیں مل سکتی ۔اہم بات یہ ہے کہ یہ کمزور کابینہ ابھی بھی فعال ہے۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ حکومت بے سمت ہے،کیا ایسا ہی ہے؟

آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں ۔ ایک کھرب رنگٹ سےزائد قرضوں کے باوجود، حکومت ملک کی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ قرض دہندگان حکومت پر مقدمہ نہیں کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بعض تو کم شرح سود پر مزید قرضے دینے کے خواہشمند بھی ہیں۔حکومت کی کوششوں سے قرضوں میں کمی آئی ہے۔سیاسی لحاظ سے ملک مستحکم ہے۔ یقیناً حکمران اتحاد کے بعض ممبران میں بے چینی ہے لیکن یہ عام بات ہے۔

شاید ہمارے بدخواہوں کو نہیں لیکن ہمیں علم ہے کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔منصوبے وضع کرنے میں ہفتہ یا زیادہ کا عرصہ لگتا ہے لیکن اس پر عملدرآمد کیلئے کم سے کم دو سال یا زیادہ عرصہ درکار ہوتا ہے۔دیکھنے والوں کویہی لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہورہا لیکن بات یہ ہے کہ سرسوں ہتھیلی میں نہیں جمتی۔جب ملائشیاءزرعی بنیاد پر قائم معیشت سے صنعتی معیشت پر منتقل ہو رہا تھا تو اس میں بھی زیادہ عرصہ لگا۔لیکن ہم سے زیادہ لوگوں کو یاد نہیں اور نوجوان نسل نے تبدیلی کا یہ دور کبھی نہیں دیکھا۔آج کل زرعی ملائشیاءکا تصور کرنا بھی محال ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…